الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
118. باب في نَفَسِ جَهَنَّمَ:
118. جہنم کے سانس لینے کا بیان
حدیث نمبر: 2879
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ اللَّهُ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا: اے میرے رب! میرے ہی بعض نے بعض کو کھا لیا ہے، سو الله تبارک وتعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی ہے، ایک سانس سردی (کے موسم) میں، اور ایک گرمی میں، پس تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو پاتے ہو وہ اسی زمہریر کی وجہ سے ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2879]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2887] »
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3260] ، [مسلم 617] ، [أبويعلی 5871] ، [ابن حبان 7466] ، [الحميدي 972]

حدیث نمبر: 2880
أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی مروی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2880]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل عاصم بن بهدلة. والحديث مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2888] »
تخریج اوپر مذکور ہے لیکن اس کی سند حسن ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 2878 سے 2880)
گرمی اور سردی کی شدت کا سبب جو حدیثِ صحیح میں اوپر مذکور ہے، یہ اسبابِ باطنیہ میں سے ہے جس کی خبر ہمیں انہوں نے دی جو اپنی طرف سے کچھ نہ کہتے تھے اور جن کی کوئی بات غلط یا نا قابلِ یقین نہیں تھی «(عليه الصلاة والسلام)» اس لئے اس کو تسلیم کرنا تمام مسلمانوں کے لئے واجب و ضروری ہے، اور اس میں غور و خوض، کرید سے گریز کرنا بھی واجب ہے، مؤمن کی صفت ہے کہ آمنّا و صدقنا کہے، اور جو لوگ امورِ باطنیہ و غیبیہ کو اپنی محدود عقل سے ناپتے ہیں ان کو سوائے خسران اور خرابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، لہٰذا عالمِ برزخ، عالمِ آخرت، عالمِ دوزخ و عالم جنّت اس سب کے لئے جو کوائف جن جن لفظوں میں قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں ان کو ان کے ظاہری معنی تک تسلیم کر کے آگے زبان بند رکھنا اہلِ ایمان کی شان ہے، یہی لوگ «راسخين فى العلم» اور عند اللہ سمجھ دار ہیں۔
«جعلنا اللّٰه وإياكم منهم»، آمین۔
(راز رحمہ اللہ)۔