الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ}:
3. باب: آیت کی تفسیر ”اور جب وہ دونوں دو دریاؤں کے ملاپ کی جگہ پر پہنچے تو دونوں اپنی مچھلی بھول گئے، مچھلی نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا“۔
حدیث نمبر: Q4726
سَرَبًا مَذْهَبًا يَسْرُبُ يَسْلُكُ وَمِنْهُ، وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ.
‏‏‏‏ «سربا» راستہ «يسرب» ( «به فتحتين») یعنی مذہب طریق، اسی سے ہے «سارب بالنهار» یعنی دن میں راستہ چلنے والا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4726]
حدیث نمبر: 4726
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ، إِذْ قَالَ: سَلُونِي؟ قُلْتُ: أَيْ أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، أَمَّا عَمْرٌو، فَقَالَ لِي: قَالَ قَدْ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ وَأَمَّا يَعْلَى، فَقَالَ لِي: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا فَاضَتِ الْعُيُونُ، وَرَقَّتِ الْقُلُوبُ وَلَّى، فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ؟ قَالَ: لَا، فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ، قِيلَ: بَلَى، قَالَ: أَيْ رَبِّ فَأَيْنَ؟ قَالَ: بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ، قَالَ: أَيْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ، فَقَالَ لِي عَمْرٌو: قَالَ حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، وَقَالَ لِي يَعْلَى: قَالَ: خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، فَقَالَ لِفَتَاهُ: لَا أُكَلِّفُكَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، قَالَ: مَا كَلَّفْتَ كَثِيرًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ سورة الكهف آية 60 يُوشَعَ بْنِ نُونٍ لَيْسَتْ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانَ إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَى نَائِمٌ، فَقَالَ فَتَاهُ: لَا أُوقِظُهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ، وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، قَالَ لِي عَمْرٌو: هَكَذَا كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ، وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ، فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا، قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: مُسَجًّى بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ، وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلَامٍ مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا، قَالَ: أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْكَ، وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيكَ يَا مُوسَى، إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَعْلَمَهُ، وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ، فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُكَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الْآخَرِ عَرَفُوهُ، فَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ، قَالَ: قُلْنَا لِسَعِيدٍ: خَضِرٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَا نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ، فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا، قَالَ مُوسَى: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ مُجَاهِدٌ: مُنْكَرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا؟ كَانَتِ الْأُولَى نِسْيَانًا، وَالْوُسْطَى شَرْطًا، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا لَقِيَا غُلَامًا، فَقَتَلَهُ، قَالَ يَعْلَى: قَالَ سَعِيدٌ: وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، فَأَخَذَ غُلَامًا كَافِرًا ظَرِيفًا، فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ، قَالَ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَكِيَّةً زَاكِيَةً مُسْلِمَةً كَقَوْلِكَ غُلَامًا زَكِيًّا، فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ، قَالَ سَعِيدٌ: بِيَدِهِ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَهُ، فَاسْتَقَامَ، قَالَ يَعْلَى: حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا، قَالَ: فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ، فَاسْتَقَامَ، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ سَعِيدٌ: أَجْرًا نَأْكُلُهُ، وَكَانَ وَرَاءَهُمْ، وَكَانَ أَمَامَهُمْ، قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدَ وَالْغُلَامُ الْمَقْتُولُ اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا، فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا، فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا، فَانْتَفَعُوا بِهَا، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: بِالْقَارِ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ، وَكَانَ كَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ، فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً، لِقَوْلِهِ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ، وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلَا جَارِيَةً، وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ، فَقَالَ: عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ".
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریر نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے، دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی اور دیگر راوی کے مقابلہ میں بعض الفاظ زیادہ کہتا ہے اور ان کے علاوہ ایک اور صاحب نے بھی سعید بن جبیر سے سن کر بیان کیا کہ انہوں نے کہا ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ان کے گھر حاضر تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی باتیں مجھ سے کچھ پوچھو۔ میں نے عرض کیا: اے ابوعباس! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کوفہ میں ایک واعظ شخص نوف نامی (نوف بکالی) ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسیٰ، خضر علیہ السلام سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں (ابن جریج نے بیان کیا کہ) عمرو بن دینار نے تو روایت اس طرح بیان کی کہ ابن عباس نے کہا دشمن خدا جھوٹی بات کہتا ہے اور یعلیٰ بن مسلم نے اپنی روایت میں اس طرح مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ واپس جانے کے لیے مڑے۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس پر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر عتاب نازل کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی تھی۔ (ان کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے)۔ ان سے کہا گیا کہ ہاں تم سے بھی بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے پروردگار! وہ کہاں ہے۔ اللہ نے فرمایا جہاں (فارس اور روم کے) دو دریا ملے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! میرے لیے ان کی کوئی نشانی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں۔ اب عمرو بن دینار نے مجھ سے اپنی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں تم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے (وہیں وہ ملیں گے) اور یعلیٰ نے حدیث اس طرح بیان کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے (وہیں وہ ملیں گے) موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی ساتھ لے لی اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لیا۔ آپ نے اپنے ساتھی یوشع سے فرمایا کہ میں بس تمہیں اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے بتانا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ کون سی بڑی تکلیف ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وإذ قال موسى لفتاه‏» میں وہ «فتي» (رفیق سفر) یوشع ابن نون تھے۔ سعید بن جبیر (راوی حدیث) نے اپنی روایت میں یوشع بن نون کا نام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سایہ میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈ تھی۔ اس وقت مچھلی تڑپی اور دریا میں کود گئی۔ موسیٰ علیہ السلام سو رہے تھے اس لیے یوشع نے سوچا کہ آپ کو جگانا نہ چاہئے۔ لیکن جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو مچھلی کا حال کہنا بھول گئے۔ اسی عرصہ میں مچھلی تڑپ کر پانی میں چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی جگہ پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور مچھلی کا نشان پتھر پر جس پر سے گئی تھی بن گیا۔ عمرو بن دینار نے مجھ (ابن جریج) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پہ بن گیا اور دونوں انگوٹھوں اور کلمہ کی انگلیوں کو ملا کر ایک حلقہ کی طرح اس کو بتایا۔ بیدار ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔ آخر کہنے لگے۔ ہمیں اب اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے۔ ان کے خادم نے عرض کیا۔ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کر دیا ہے (اور مچھلی زندہ ہو گئی ہے)۔ ابن جریج نے بیان کیا کہ یہ ٹکڑا سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور یوشع دونوں واپس لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی (ابن جریج نے کہا) مجھ سے عثمان بن ابی سلیمان نے بیان کیا کہ خضر علیہ السلام دریا کے بیچ میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے۔ اور سعید بن جبیر نے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے پہنچ کو سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا، میری اس زمین میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا۔ آپ کون ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا، موسیٰ بنی اسرائیل؟ فرمایا کہ ہاں! پوچھا، آپ کیوں آئے ہیں؟ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم آپ کو اللہ نے دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ اس پر خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ موسیٰ کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں ہے اس کا پورا سیکھنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کو جو علم حاصل ہے اس کا پورا سیکھنا میرے لیے مناسب نہیں۔ اس عرصہ میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو خضر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے۔ کشتی پر چڑھنے کے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جا کر چھوڑ آتی تھیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ کے صالح بندے ہیں ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے۔ لیکن خضر علیہ السلام نے کشتی میں شگاف کر دیئے اور اس میں (تختوں کی جگہ) کیلیں گاڑ دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے اس لیے اسے پھاڑ ڈالا کہ اس کے مسافروں کو ڈبو دیں۔ بلاشبہ آپ نے ایک بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ مجاہد نے آیت میں «إمرا» کا ترجمہ «منكرا» کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام کا پہلا سوال تو بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط تھا اور تیسرا قصداً انہوں نے کیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس پہلے سوال پر کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کیجئے۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو خضر علیہ السلام نے اسے قتل کر دیا۔ یعلیٰ نے بیان کیا کہ سعید بن جبیر نے کہا کہ خضر علیہ السلام کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے آپ نے ان میں سے ایک بچہ کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، آپ نے بلا کسی خون کے ایک بےگناہ جان کو جس نے کہ برا کام نہیں کیا تھا، قتل کر ڈالا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما آیت میں «زكية» کی جگہ «زاكية» پڑھا کرتے تھے۔ بمعنی «مسلمة» جیسے «غلاما زكيا» میں ہے۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اسے ٹھیک کر دیا۔ سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس طرح۔ یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ خضر نے دیوار پر ہاتھ پھیر کر اسے ٹھیک کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ سعید بن جبیر نے اس کی تشریح کی کہ اجرت جسے ہم کھا سکتے۔ آیت «وكان وراءهم» کی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآت «وكان أمامهم» کی یعنی کشتی جہاں جا رہی تھی اس ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ سعید کے سوا دوسرے راوی سے اس بادشاہ کا نام ہدد بن بدد نقل کرتے ہیں اور جس بچہ کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ جیسور بیان کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہر (نئی) کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے۔ جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ لگا کر جوڑا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ تار کول سے جوڑا تھا (اور جس بچہ کو قتل کر دیا تھا) تو اس کے والدین مومن تھے اور وہ بچہ (اللہ کی تقدیر میں) کافر تھا۔ اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں (بڑا ہو کر) وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کر دے کہ اپنے لڑکے سے انتہائی محبت انہیں اس کے دین کی اتباع پر مجبور کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ اللہ اس کے بدلے میں انہیں کوئی نیک اور اس سے بہتر اولاد دے۔ «وأقرب رحما» یعنی اس کے والدین اس بچہ پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے سے زیادہ بہتر مہربان ہوں جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔ داود بن ابی عاصم رحمہ اللہ کئی راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4726]