الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
37. باب مِيرَاثِ الْغَرْقَى:
37. پانی میں ڈوبنے والوں کی میراث کا بیان
حدیث نمبر: 3077
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: "كُلُّ قَوْمٍ مُتَوَارِثِينَ عَمِيَ مَوْتُهُمْ فِي هَدْمٍ، أَوْ غَرَقٍ، فَإِنَّهُمْ لَا يَتَوَارَثُونَ، يَرِثُهُمْ الْأَحْيَاءُ".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہر قسم کے لوگ وارث ہوں گے، لیکن جن کی موت مکان گرنے، غرق ہونے میں مجہول ہو وہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے، زنده آدمی ہی ان کے وارث ہوں گے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 3077]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3087] »
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19160، 19166] ، [ابن منصور 241] ، [دارقطني 119/4]

وضاحت: (تشریح حدیث 3076)
جب ایک سے زیادہ افراد پانی میں غرق ہو جائیں، یا کسی اور حادثے کا شکار ہو جائیں مثلاً عمارت کے نیچے آ کر ہلاک ہوں، یا آگ میں جل جائیں، یا ایکسیڈنٹ وغیرہ میں ہلاک ہوں، اور کسی کی موت کی تقدیم و تأخیر کا علم نہ ہو سکے تو حکم یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے، بلکہ زندہ افراد ہی اپنے مرنے والوں کے وارث ہوں گے، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی حادثے میں دو بھائی فوت ہو گئے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون فوت ہوا ہے، ان میں سے ایک اپنے پیچھے بیوی، بیٹی اور چچا چھوڑ گیا، جبکہ دوسرا دو بیٹیاں اور مذکور چچا چھوڑ گیا، تو دونوں کی جائیداد کے وارث مذکورین ورثاء ہیں۔
یہ بھائی ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے، پہلی صورت میں بیوی آٹھواں حصہ لے گی، بیٹی نصف اور باقی چچا لے گا، اور دوسری صورت میں دو تہائی اس کی دونوں بیٹیاں لیں گی اور باقی تہائی چچا لے گا۔

حدیث نمبر: 3078
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ، قَالَ: قَرَأْتُ فِي بَعْضِ كُتُبِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي الْقَوْمِ يَقَعُ عَلَيْهِمْ الْبَيْتُ، لَا يُدْرَى أَيُّهُمَا مَاتَ قَبْلُ؟ قَالَ: "لَا يُوَرَّثُ الْأَمْوَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ، وَيُوَرَّثُ الْأَحْيَاءُ مِنْ الْأَمْوَاتِ".
یحییٰ بن عتیق نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ کے بعض نوشتوں میں پڑھا ہے: وہ لوگ جن پر گھر گر پڑے اور معلوم نہ ہو سکے کس کی موت پہلے واقع ہوئی اور مرنے والوں میں سے کوئی ایک دوسرے کا وارث نہیں ہو گا، بلکہ مرنے والوں کے وارثین ہی وارث ہوں گے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 3078]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى عمر بن عبد العزيز، [مكتبه الشامله نمبر: 3088] »
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11395] ، [عبدالرزاق 19161] ، [ابن منصور 242]

حدیث نمبر: 3079
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ أُمَّ كُلْثُومٍ، وَابْنَهَا زَيْدًا مَاتَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، فَالْتَقَتْ الصَّائِحَتَانِ فِي الطَّرِيقِ، فَلَمْ يَرِثْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ، وَأَنَّ أَهْلَ الْحَرَّةِ لَمْ يَتَوَارَثُوا، وَأَنَّ أَهْلَ صِفِّينَ لَمْ يَتَوَارَثُوا".
جعفر بن محمد نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ام کلثوم اور ان کا بیٹا زید (ابن عمر) ایک ہی دن میں دونوں فوت ہو گئے، ان پر رونے والیاں راستے میں ملیں، ان میں سے کوئی بھی اپنے مرنے والے کی وارث نہ ہوئی اور اہل الحرہ بھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوئے، اہل صفین بھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوئے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 3079]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3089] »
اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 240] و [البيهقي 222/6]

وضاحت: (تشریح احادیث 3077 سے 3079)
حره مدینہ میں مشرق کی جانب ایک مقام ہے، جسکی طرف سے 63ھ میں امویوں نے یزید بن معاویہ کے حکم پر مسلم بن عقبہ کی قیادت میں اہلِ مدینہ پر حملہ کیا اور بہت قتلِ عام کیا، یہ معرکہ حرہ کے نام سے مشہور ہے، اور صفین شام کے حدود میں ایک مقام کا نام ہے، جہاں جیش سیدنا علی و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کی فوجوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی، یہ دونوں بڑے خونیں معرکے تھے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد اس میں شہید ہوئی، راوی اس اثر میں یہ بتا رہے ہیں کہ ان دونوں جنگوں میں بھی کوئی مرنے والا کسی کا وارث نہ ہوا۔

حدیث نمبر: 3080
أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الشَّعْبِيِّ:"أَنَّ بَيْتًا بِالشَّامِ وَقَعَ عَلَى قَوْمٍ، فَوَرَّثَ عُمَرُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ".
شعبی رحمہ اللہ نے کہا: شام میں ایک گھر کچھ لوگوں پر گر گیا جن کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے کا وارث قرار دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 3080]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3090] »
اس اثر کی سند عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی وجہ سے ضعیف ہے جو سئی الحفظ جدا ہیں۔ دیکھے: [ابن أبى شيبه 11390] ، [ابن منصور 232 بسند فيه انقطاع]

حدیث نمبر: 3081
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُرَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ:"أَنَّهُ وَرَّثَ أَخَوَيْنِ قُتِلَا بِصِفِّينَ، أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ".
ابوحریش نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دو بھائیوں کو جو جنگ صفین میں وفات پا گئے تھے، ایک دوسرے کا وارث قرار دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 3081]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف أبو حريس ما وجدت له ترجمة وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 3091] »
اس روایت میں ابوحریش مجہول ہیں، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھے: [البخاري فى الكبير 132/3] ، [ابن أبى شيبه 11391] ، [عبدالرزاق 19152]

وضاحت: (تشریح احادیث 3079 سے 3081)
اوپر تفصیل گذر چکی ہے کہ جن کی موت کسی حادثے میں ہوئی ہو اور تقدیم و تأخیر کا علم نہ ہو تو مرنے والے ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے، اور وارثین ہی کے درمیان میراث ہوگی، سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے مذکورہ آ ثار کی سند ان تک صحیح نہیں ہے، اور اگر صحیح مان بھی لی جائے تو کہا جائے گا کہ ان کو شاید مرنے والوں کی موت میں تقدیم و تأخیر کا علم تھا اس لئے انہوں نے ایک دوسرے کو وارث قرار دیا۔
والله اعلم۔