الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
5. باب مَنْ لَمْ يَرَ الْوَصِيَّةَ في الْمَالِ الْقَلِيلِ:
5. تھوڑے سے مال میں بعض کے نزدیک وصیت کی ضرورت نہیں
حدیث نمبر: 3220
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ:"أَنَّ عَلِيًّا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ، فَذَكَرُوا لَهُ الْوَصِيَّةَ، فَقال عَلِيٌّ: قَالَ اللَّهُ: إِنْ تَرَكَ خَيْرًا سورة البقرة آية 180، وَلَا أُرَاهُ تَرَكَ خَيْرًا". قَالَ حَمَّادٌ: فَحَفِظْتُ أَنَّهُ تَرَكَ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِ مِائَةٍ.
ہشام نے اپنے والد سے روایت کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک بیمار کے پاس گئے اور لوگوں نے اس کی وصیت کا تذکرہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: (اگر مال چھوڑے ......) اور میری رائے ہے کہ اس نے مال چھوڑا ہی نہیں، حماد نے کہا: مجھے یاد ہے اس نے سات سو سے زیادہ چھوڑے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3220]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى علي، [مكتبه الشامله نمبر: 3231] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل ہے۔ تخریج آگے آ رہی ہے۔

حدیث نمبر: 3221
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كُنَاسَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"دَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَى رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ يَعُودُهُ، فَقَالَ: أُوصِي؟ قَالَ: لا، لَمْ تَدَعْ مَالًا، فَدَعْ مَالَكَ لِوَلَدِكَ".
ہشام نے اپنے والد سے روایت کیا: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کے ایک آدمی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو اس نے کہا: مجھے وصیت کرنی ہو گی؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، تم کوئی مال چھوڑ کر نہیں جا رہے، اپنے (تھوڑے سے) مال کو اپنی اولاد کے لئے رہنے دو۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3221]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3232] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابن کناسہ کا نام محمد بن عبداللہ بن عبدالاعلیٰ بن کناسہ ہے، اور ہشام: ابن عروہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10992] ، [عبدالرزاق 16351] ، [البيهقي 270/6]

وضاحت: (تشریح احادیث 3219 سے 3221)
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک تھوڑے سے مال میں وصیت کی ضرورت نہیں۔
مال جب بہت زیادہ ہو تب ہی وصیت کرنا چاہیے۔