الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
--. لا الہ الا اللہ جنت کی چابی
حدیث نمبر: 40
‏‏‏‏عَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: «قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاتِيحُ الْجَنَّةِ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا الله» . رَوَاهُ أَحْمد
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جنت کی چابی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 40]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 242 ح 22453)
٭ شھر بن حوشب: عن معاذ، منقطع .»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

حدیث نمبر: 41
‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنُوا عَلَيْهِ حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يُوَسْوِسُ قَالَ عُثْمَان وَكنت مِنْهُم فَبينا أَنا جَالس فِي ظلّ أَطَم من الْآطَام مر عَليّ عمر رَضِي الله عَنهُ فَسلم عَليّ فَلم أشعر أَنه مر وَلَا سلم فَانْطَلق عمر حَتَّى دخل على أبي بكر رَضِي الله عَنهُ فَقَالَ لَهُ مَا يُعْجِبك أَنِّي مَرَرْت على عُثْمَان فَسلمت عَلَيْهِ فَلم يرد عَليّ السَّلَام وَأَقْبل هُوَ وَأَبُو بكر فِي وِلَايَةَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى سلما عَليّ جَمِيعًا ثمَّ قَالَ أَبُو بكر جَاءَنِي أَخُوك عمر فَذكر أَنه مر عَلَيْك فَسلم فَلم ترد عَلَيْهِ السَّلَام فَمَا الَّذِي حملك على ذَلِك قَالَ قُلْتُ مَا فَعَلْتُ فَقَالَ عُمَرُ بَلَى وَاللَّهِ لقد فعلت وَلكنهَا عبيتكم يَا بني أُميَّة قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ أَنَّكَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَّمْتَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقَ عُثْمَانُ وَقد شَغَلَكَ عَنْ ذَلِكَ أَمْرٌ فَقُلْتُ أَجْلَ قَالَ مَا هُوَ فَقَالَ عُثْمَان رَضِي الله عَنهُ توفى الله عز وَجل نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ عَنْ نَجَاةِ هَذَا الْأَمْرِ قَالَ أَبُو بكر قد سَأَلته عَن ذَلِك قَالَ فَقُمْت إِلَيْهِ فَقلت لَهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَنْتَ أَحَقُّ بِهَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَجَاةُ هَذَا الْأَمْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -[20]- مَنْ قَبِلَ مِنِّي الْكَلِمَةَ الَّتِي عَرَضْتُ عَلَى عَمِّي فَرَدَّهَا فَهِيَ لَهُ نجاة. رَوَاهُ أَحْمد
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو آپ کے صحابہ کرام آپ کی وفات پر غم زدہ ہو گئے، حتیٰ کہ قریب تھا ان میں سے بعض وسوسہ کا شکار ہو جاتے، عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اور میں بھی انہی میں سے تھا، پس میں بیٹھا ہوا تھا، کہ اس اثنا میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے سلام کیا، لیکن (شدت غم کی وجہ سے) مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں چلا، پس عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی، پھر وہ دونوں آئے حتیٰ کہ ان دونوں نے ایک ساتھ مجھے سلام کیا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے کس وجہ سے اپنے بھائی عمر کے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا، میں نے تو ایسے نہیں کیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم! آپ نے ایسے کیا ہے، عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کے گزرنے کا پتہ ہے نہ سلام کرنے کا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عثمان نے سچ فرمایا، کسی اہم کام نے آپ کو اس سے غافل رکھا ہو گا؟ تو میں نے کہا: آپ نے ٹھیک کہا، انہوں نے پوچھا: وہ کون سا اہم کام ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وفات دے دی اس سے پہلے کہ ہم آپ سے اس معاملے کی نجات کے بارے میں دریافت کر لیتے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس کے متعلق آپ سے پوچھ لیا تھا، میں ان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں کہا: میرے والدین آپ پر قربان ہوں، آپ ہی اس کے زیادہ حق دار تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس معاملے کا حل کیا ہے؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مجھ سے وہ کلمہ، جو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا لیکن اس نے انکار کر دیا، قبول کر لیا تو وہی اس کے لیے نجات ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 41]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 6 ح 20)
٭ فيه رجل من الأنصار من أھل الفقه: لم أعرفه و لم يوثقه الزھري .»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف