الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
4.04. منکر نکیر کے سوال اور قبر کا عذاب
حدیث نمبر: 130
‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَتَاهُ مَلَكَانِ -[47]- أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرجل فَيَقُول مَا كَانَ يَقُول هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعت النَّاس يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فتلتئم عَلَيْهِ فتختلف فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ الله من مضجعه ذَلِك» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ تو سیاہ فام نیلی آنکھوں والے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔ پس وہ کہتے ہیں؟ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں: ہمیں پتہ تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر اس کی قبر کو طول و عرض میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے لیے اس میں روشنی کر دی جاتی ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے: سو جاؤ، وہ کہتا ہے: میں اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں تاکہ انہیں بتا آؤں، لیکن وہ کہتے ہیں دلہن کی طرح سو جا، جسے اس کے گھر کا عزیز ترین فرد ہی بیدار کرتا ہے، حتیٰ کہ اللہ اسے اس کی خواب گاہ سے بیدار کرے گا، اور اگر وہ منافق ہوا تو وہ کہے گا: میں نے لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنا، تو میں نے بھی ویسے ہی کہہ دیا، میں کچھ نہیں جانتا، وہ فرشتے کہتے ہیں: ہمیں پتہ تھا کہ تم یہی کہو گے، پس زمین سے کہا جاتا ہے: اس پر تنگ ہو جا، وہ اس پر تنگ ہو جاتی ہے۔ اس سے اس کی ادھر کی پسلیاں ادھر آ جائیں گی، پس اسے اس میں مسلسل عذاب ہوتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ اس کی اس خواب گاہ سے اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 130]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (1071 وقال: حسن غريب .) [وصححه ابن حبان (الإحسان: 3107) ] »

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 131
عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ رَبِّيَ اللَّهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ ديني الْإِسْلَام فَيَقُولَانِ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ قَالَ فَيَقُول هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ وَمَا يُدْرِيكَ فَيَقُولُ قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ زَاد فِي حَدِيث جرير فَذَلِك قَول الله عز وَجل (يثبت الله الَّذين آمنُوا بالْقَوْل الثَّابِت) ‏‏‏‏الْآيَة ثمَّ اتفقَا قَالَ فينادي مُنَاد من السَّمَاء أَن قد صدق عَبدِي فأفرشوه مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ وألبسوه من الْجنَّة قَالَ فيأتيه من روحها وطيبها قَالَ وَيفتح لَهُ فِيهَا مد بَصَره قَالَ وَإِن الْكَافِر فَذكر مَوته قَالَ وتعاد رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي -[48]- فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ كَذَبَ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ قَالَ فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا قَالَ وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ ثمَّ يقيض لَهُ أعمى أبكم مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جبل لصار تُرَابا قَالَ فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمغْرب إِلَّا الثقلَيْن فَيصير تُرَابا قَالَ ثمَّ تُعَاد فِيهِ الرّوح» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد ‏‏‏‏ 
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں، تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ آدمی جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے، وہ کون تھے؟ وہ جواب دے گا وہ اللہ کے رسول ہیں، وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں: تمہیں کس نے بتایا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، تو میں اس پر ایمان لے آیا اور تصدیق کی، اس کا یہ جواب دینا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے: اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں، سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ فرمایا: آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، اسے جنتی بچھونا بچھا دو، جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، وہ کھول دیا جاتا ہے، وہاں سے معطر بادنسیم اس کے پاس آتی ہے، اور اس کی حد نگاہ تک اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافر کی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا ہے، دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں: وہ شخص جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے، کون تھے؟ پھر وہی جواب دیتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے: اس نے جھوٹ بولا، لہذا اسے جہنم سے بستر بچھا دو۔ جہنم سے لباس پہنا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو، فرمایا: جہنم کی حرارت اور وہاں کی گرم لو اس تک پہنچے گی، فرمایا: اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کی ادھر کی پسلیاں ادھر نکل جاتی ہیں۔ پھر ایک اندھا اور بہرا داروغہ اس پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ جس کے پاس لوہے کا بڑا ہتھوڑا ہوتا ہے، اگر اسے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے، وہ اس کے ساتھ اسے مارتا ہے تو جن و انس کے سوا مشرق و مغرب کے مابین موجود ہر چیز اس مار کو سنتی ہے، وہ مٹی ہو جاتا ہے، تو پھر روح کو دوبارہ اس میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس حدیث کو احمد اور ابوداؤد نے رویت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، دون قوله: ’’فيصير ترابًا ثم يعاد فيه الروح‘‘ لأن فيه الأعمش مدلس و لم يصرح بالسماع في ھذا اللفظ .
رواه أحمد (4/ 287، 288 ح 18733) و أبو داود (3212، 4753) [و رواه الحاکم (37/1. 38 ح 107) و الطبراني في الأحاديث الطوال (المعجم الکبير 25/ 238. 240 ح 25) و سنده حسن و صححه البيهقي في شعب الإيمان: 395] »

قال الشيخ زبير على زئي: حسن، دون قوله: فيصير ترابًا ثم يعاد فيه الروح لأن فيه الأعمش مدلس و لم يصرح بالسماع في هذا اللفظ.