اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الاحزاب میں) فرمان «قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن وأسرحكن سراحا جميلا» کہ ”آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کا مزہ چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ متاع (دنیوی) دے دلا کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: Q5262]
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم بن صبیح نے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا اور ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو ہی پسند کیا تھا لیکن اس کا ہمارے حق میں کوئی شمار (طلاق) میں نہیں ہوا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: 5262]
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، کہا ہم سے عامر نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ”اختیار“ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا محض یہ اختیار طلاق بن جاتا۔ مسروق نے کہا کہ اختیار دینے کے بعد اگر تم مجھے پسند کر لیتی ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، چاہے میں ایک مرتبہ اختیار دوں یا سو مرتبہ (طلاق نہیں ہو گی)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: 5263]