الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:


مشكوة المصابيح
كتاب الفتن
كتاب الفتن
--. فتنوں کا بیان
حدیث نمبر: 5435
عَن شَقِيق عَن حُذَيْفَة قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ؟ فَقُلْتُ: أَنَا أَحْفَظُ كَمَا قَالَ: قَالَ: هَاتِ إِنَّكَ لِجَرِيءٌ وَكَيْفَ؟ قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ «فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَنَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ يُكَفِّرُهَا الصِّيَامُ وَالصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ» فَقَالَ عُمَرُ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْر. قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا. قَالَ: فَيُكْسَرُ الْبَابُ أويفتح؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ يُكْسَرُ. قَالَ: ذَاكَ أَحْرَى أَنْ لَا يُغْلَقَ أَبَدًا. قَالَ: فَقُلْنَا لحذيفةَ: هَل كَانَ عمر يعلم مَنِ البابُ؟ قَالَ: نَعَمْ كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ لَيْلَةٌ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ قَالَ: فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَ حُذَيْفَةَ مَنِ الْبَابُ؟ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ: سَلْهُ. فَسَأَلَهُ فَقَالَ: عُمَرُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
شقیق، حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے فرمایا: تم میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فتنے کے متعلق مروی حدیث کون یاد رکھتا ہے؟ میں نے کہا: میں یاد رکھتا ہوں جس طرح آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سناؤ! تم تو بڑے دلیر ہو، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیسے فرمایا تھا؟ میں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: آدمی کے لیے اس کے اہل و عیال، اس کا مال، اس کی جان، اس کی اولاد اور اس کا پڑوسی فتنہ و آزمائش ہیں، جبکہ روزہ، نماز، صدقہ اور نیکی کا حکم کرنا، برائی سے روکنا اس کا کفارہ ہے۔ (اس پر) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری یہ مراد نہیں تھی، میری مراد تو وہ (فتنہ) ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امڈ آئے گا، وہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، امیر المومنین! آپ کو اس سے کیا سروکار؟ کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان بند دروازہ ہے، انہوں نے کہا: وہ دروازہ کھول دیا جائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ وہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا: نہیں، بلکہ وہ توڑ دیا جائے گا، انہوں نے فرمایا: پھر یہ اس کے زیادہ لائق ہے کہ وہ کبھی بند نہ کیا جائے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں، ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، جیسے رات کے بعد دن آنے کا علم ہوتا ہے، بے شک میں نے اسے حدیث بیان کی جس میں کوئی غلطی و ابہام نہیں، راوی بیان کرتے ہیں، ہم نے خوف کی وجہ سے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے اس دروازے کے متعلق دریافت نہیں کیا، ہم نے مسروق سے کہا کہ آپ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھیں، انہوں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرم��یا: وہ عمر ہیں۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5435]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (7096) و مسلم (26/ 144)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه