الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
28. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ} {وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ}:
28. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ شوریٰ میں) فرمانا ”مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے“ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) فرمان ”اے پیغمبر! ان سے کاموں میں مشورہ لے“۔
حدیث نمبر: Q7369
وَأَنَّ الْمُشَاوَرَةَ قَبْلَ الْعَزْمِ وَالتَّبَيُّنِ، لِقَوْلِهِ: فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ سورة آل عمران آية 159، فَإِذَا عَزَمَ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ لِبَشَرٍ التَّقَدُّمُ عَلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَشَاوَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُحُدٍ فِي الْمُقَامِ وَالْخُرُوجِ فَرَأَوْا لَهُ الْخُرُوجَ فَلَمَّا لَبِسَ لَأْمَتَهُ وَعَزَمَ، قَالُوا: أَقِمْ فَلَمْ يَمِلْ إِلَيْهِمْ بَعْدَ الْعَزْمِ، وَقَالَ: لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ يَلْبَسُ لَأْمَتَهُ فَيَضَعُهَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَشَاوَرَ عَلِيًّا، وَأُسَامَةَ فِيمَا رَمَى بِهِ أَهْلُ الْإِفْكِ عَائِشَةَ فَسَمِعَ مِنْهُمَا حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ فَجَلَدَ الرَّامِينَ، وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَى تَنَازُعِهِمْ وَلَكِنْ حَكَمَ بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ وَكَانَتِ الْأَئِمَّةُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَشِيرُونَ الْأُمَنَاءَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْأُمُورِ الْمُبَاحَةِ لِيَأْخُذُوا بِأَسْهَلِهَا فَإِذَا وَضَحَ الْكِتَابُ أَوِ السُّنَّةُ لَمْ يَتَعَدَّوْهُ إِلَى غَيْرِهِ اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَى أَبُو بَكْرٍ قِتَالَ مَنْ مَنَعَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ عُمَرُ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَابَعَهُ بَعْدُ عُمَرُ فَلَمْ يَلْتَفِتْ أَبُو بَكْرٍ إِلَى مَشُورَةٍ إِذْ كَانَ عِنْدَهُ حُكْمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِينَ فَرَّقُوا بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَأَرَادُوا تَبْدِيلَ الدِّينِ وَأَحْكَامِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَشُورَةِ عُمَرَ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
‏‏‏‏ اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کر دینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا «فإذا عزمت فتوكل على الله‏» پھر جب ایک بات ٹھہرا لے (یعنی صلاح و مشورہ کے بعد) تو اللہ پر بھروسہ کر (اس کو کر گزر) پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشورے کے بعد ایک کام ٹھہرا لیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں (یعنی دوسری رائے دینا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا، اب بعض لوگ کہنے لگے مدینہ ہی میں رہنا اچھا ہے۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ (مشورے کے بعد) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب پیغمبر (لڑائی پر مستعد ہو کر) اپنی زرہ پہن لے (ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا (اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وصل کیا)۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو بہتان لگایا گیا تھا اس مقدمہ میں، اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا (علی رضی اللہ عنہ کی رائے اوپر گزری ہے) بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تاکہ جو کام آسان ہو اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جو زکوٰۃ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا، میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکساں رکھا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہو گئی، غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں، دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے (وہ کافر ہو گئے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے (اسلام سے پھر جائے) اس کو مار ڈالو اور عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے (یعنی عالم لوگ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: Q7369]
حدیث نمبر: 7369
حَدَّثَنَا الْأُوَيْسِيُّ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، حِينَ قَال لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا؟، قَالَتْ:" وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْأَلُهُمَا وَهُوَ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَأَمَّا عَلِيٌّ، فَقَالَ: لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ وَسَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ، فَقَالَ: هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ؟، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَمْرًا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ، فَتَأْكُلُهُ، فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، فَذَكَرَ بَرَاءَةَ عَائِشَةَ"، وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھ سے عروہ بن مسیب اور علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں وحی اس وقت تک نہیں آئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلہ میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے تو اسامہ رضی اللہ عنہ نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل خانہ کی برات کا لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی عورتیں ہیں، باندی سے آپ دریافت فرما لیں، وہ آپ سے صحیح بات بتا دے گی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر بھی سو جاتی ہیں اور پڑوس کی بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے مسلمانو! میرے معاملے میں اس سے کون نمٹے گا جس کی اذیتیں اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کے بارے میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کا قصہ بیان کیا اور ابواسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7369]
حدیث نمبر: 7370
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ الْغَسَّانِيُّ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا تُشِيرُونَ عَلَيَّ فِي قَوْمٍ يَسُبُّونَ أَهْلِي مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَعَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: لَمَّا أُخْبِرَتْ عَائِشَةُ بِالْأَمْرِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَنْطَلِقَ إِلَى أَهْلِي، فَأَذِنَ لَهَا وَأَرْسَلَ مَعَهَا الْغُلَامَ، وَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ.
ہم سے محمد بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب کیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں مجھے کوئی بری بات کبھی نہیں معلوم ہوئی۔ عروہ سے روایت ہے، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب اس واقعہ کا علم ہوا (کہ کچھ لوگ انہیں بدنام کر رہے ہیں) تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! کیا مجھے آپ اپنے والد کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور ان کے ساتھ غلام کو بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا «سبحانك ما يكون لنا أن نتكلم بهذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سبحانك هذا بهتان عظيم‏.‏» تیری ذات پاک ہے، اے اللہ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم اس طرح کی باتیں کریں تیری ذات پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7370]