28. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ والصافات میں) کہ ”ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا“۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو عرش کے اوپر اپنے پاس یہ لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ سے آگے بڑھ گئی ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7453]
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا زید بن وہب سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا جو صادق و مصدق ہیں کہ انسان کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن اور راتوں تک جمع رہتا ہے پھر وہ خون کی پھٹکی بن جاتا ہے، پھر وہ گوشت کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کی روزی، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت لکھ لیتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے اور تم میں سے ایک شخص جنت والوں کے سے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص دوزخ والوں کے عمل کرتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آتی ہے اور جنت والوں کے کام کرنے لگتا ہے، پھر جنت میں داخل ہوتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7454]
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن زر نے بیان کیا، کہا ہم نے اپنے والد ذر بن عبداللہ سے سنا، وہ سعید بن جبیر سے بیان کرتے تھے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے جبرائیل! آپ کو ہمارے پاس اس سے زیادہ آنے میں کیا رکاوٹ ہے جتنا آپ آتے رہتے ہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما نتنزل إلا بأمر ربك له ما بين أيدينا وما خلفنا»”اور ہم نازل نہیں ہوتے لیکن آپ کے رب کے حکم سے، اسی کا ہے وہ سب کچھ جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے“ الآیہ۔ بیان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی جواب آیت میں اترا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7455]
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع بن جراح نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چھڑی پر ٹیکا لیتے جاتے تھے۔ پھر آپ یہودیوں کی ایک جماعت سے گزرے تو ان میں سے بعض نے بعض سے کہا کہ ان سے روح کے متعلق پوچھو اور بعض نے کہا کہ اس کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے پوچھا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ چنانچہ آپ نے یہ آیت پڑھی «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئیے کہ روح میرے رب کے امر «مٰن» سے اور تمہیں علم بہت تھوڑا دیا گیا ہے۔“ اس پر بعض یہودیوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم نے کہا نہ تھا کہ مت پوچھو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7456]
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس شخص نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا اور اس کے لیے نکلنے کا مقصد اس کے راستے میں جہاد اور اس کے کلام کی تصدیق کے سوا اور کچھ نہیں تھا تو اللہ اس کا ضامن ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے (اگر وہ شہید ہو گیا) یا ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اسے وہیں واپس لوٹائے جہاں سے وہ آیا تھا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7457]
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ کوئی شخص حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے، کوئی بہادری کی وجہ سے لڑتا ہے اور کوئی دکھاوے کے لیے لڑتا ہے۔ تو ان میں سے کون اللہ کے راستے میں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ ہی بلند رہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7458]