الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
20. باب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الإِيمَانِ وَأَنَّ الإِيمَانَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ وَأَنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ:
20. باب: اس بات کا بیان کہ بری بات سے منع کرنا ایمان کی علامت ہے، اور یہ کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر دونوں واجب ہیں۔
حدیث نمبر: 177
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ كِلَاهُمَا، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ، قَبْلَ الصَّلَاةِ، مَرْوَانُ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، فَقَالَ: قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ ".
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے سفیان سے حدیث سنائی، نیز محمد بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے اورانہیں شعبہ نے حدیث سنائی، ان دونوں (سفیان اور شعبہ) نے قیس بن مسلم سے اور انہوں نے طارق بن شہاب سے روایت کی، الفاظ ابو بکر بن ابی شیبہ کے ہیں۔ طارق بن شہاب نے کہا کہ پہلا شخص جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبے کا آغاز کیا، مروان تھا۔ ایک آدمی اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا: نما ز خطبے سے پہلے ہے؟ مروان نے جواب دیا: جو طریقہ (یہاں پہلے) تھا، وہ ترک کر دیا گیا ہے۔ اس پر ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اس انسان نے (جس سے صحیح بات کہی تھی) اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
طارق بن شہاب ؒ بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ کا آغاز مروان نے کیا، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے جواب دیا: یہ طریقہ ترک کر دیا گیا ہے۔ ابو سعیدؓ نے کہا: اس انسان نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرما رہے تھے: تم میں سے جو شخص منکر کام دیکھے اس پر لازم ہے اگر طاقت رکھتا ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے (یعنی زورو قوت) سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو پھر اپنی زبان ہی سے اس کو بدلنے کی سعی کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو، تو اپنے دل میں سے اس کے بدلنے کی تدبیر سوچے، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 49
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد فى ((سننه)) فى الصلاة، باب: الخطبة يوم العيد برقم (1140) وفى الملاحم، باب: الامر والنهى برقم (4340) مختصراً بدون ذكر القصة والترمذي فى ((جامعه)) فى الفتن، باب: ما جاء فى تغيير المنكر باليد، او باللسان، او بالقلب - وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2172) والنسائى فى ((المجتبى من السنن)) 111/8-112 فى الايمان، باب: تفاضل اهل الايمان وابن ماجه فى ((سننه)) فى اقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء فى صلاة العيدين برقم (1275) مطولا - وفي الفتن، باب: الامر بالمعروف والنهي عن المنكر - مطولا برقم (4013) انظر ((التحفة)) برقم (4032 و 4085)»

حدیث نمبر: 178
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، فِي قِصَّةِ مَرْوَانَ وَحَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَسُفْيَانَ.
اعمش نے اسماعیل بن رجاء سے، انہوں نے اپنے والد (رجاء بن ربیعہ) سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، نیز اعمش نے قیس بن مسلم سے، انہوں نے طارق بن شہاب سے اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروان کا مذکورہ بالا واقعہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، اسی طرح بیان کی جس طرح شعبہ اور سفیان نے بیان کی۔
امام صاحب مذکورہ بالا واقعہ اور حدیث دوسری سند سے بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 49
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (175)» ‏‏‏‏

حدیث نمبر: 179
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِعَبْدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي، إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ، حَبَّةُ خَرْدَلٍ "، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَحَدَّثْتُهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَأَنْكَرَهُ عَلَيَّ، فَقَدِمَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَنَزَلَ بِقَنَاةَ، فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَعُودُهُ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا جَلَسْنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، حَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثْتُهُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ صَالِحٌ: وَقَدْ تُحُدِّثَ بِنَحْوِ ذَلِكَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ
صالح بن کیسان نے حارث (بن فضیل) سے، انہوں نے جعفر بن عبد اللہ بن حکم سے، انہوں نے عبد الرحمٰن بن مسور سے، انہوں نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام) ابو رافع سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھ پر پہلے کسی امت میں جتنے بھی نبی بھیجے، ان کی امت میں سے ان کے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے جوان کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی اتباع کرتے تھے، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے بعد نالائق لوگ ان کے جانشیں بن جاتے تھے۔ وہ (زبان سے) ایسی باتیں کہتے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور ایسے کا م کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہ دیا گیا تھا، چنانچہ جس نے ان (جیسے لوگوں) کے خلاف اپنے دست و بازو سے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے (لیکن) اس سے پیچھے رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ ابو رافع نے کہا: میں نے یہ حدیث عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سنائی تو وہ اس کو نہ مانے۔ اتفاق سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی (مدینہ) آ گئے اور وادی قتاۃ (مدینہ کی وادی ہے) میں ٹھہرے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بھی ان کی عیادت کے لیے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ میں ان کے ساتھ چلا گیا ہم جب جاکر بیٹھ گیا تو میں نےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی جس طرح میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کوسنائی تھی۔ صالح بن کیسان نےکہا: یہ حدیث ابو رافع سے (براہ راست بھی) اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: اللہ نے جو نبی بھی مجھ سے پہلے کسی امت میں بھیجا، تو اس کے کچھ حواری اور لائق ساتھی ہوتے تھے جو اس کے طریقے اور حکم پر چلتے تھے، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے نالائق پسماندگان، ان کے جانشین ہوتے تھے، جو ایسی بات کہتے تھے جو خود نہیں کرتے تھے (لوگوں کو اچھا کام کرنے کو کہتے تھے اور خود وہ کام نہیں کرتے تھے یا کرنے کے جو کام، وہ نہیں کرتے تھے۔ ان کے متعلق لوگوں کو کہتے تھے کہ ہم کرتے ہیں، گویا اپنا تقدس اور اپنی بزرگی قائم رکھنے کے لیے جھوٹ بھی بولتے تھے) اور جن کاموں کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا ان کو کرتے تھے (یعنی اپنے نبی کی سنتوں اور اس کے اوامر واحکام پرتو عمل پیرا نہ تھے مگر معصیات اور بدعات جن کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا ان کے (دلدادہ تھے، ان کو خوب کرتے تھے)، تو جس نے ان کے خلاف اپنے دست وبازو سے جہاد کیا وہ مومن ہے، اور جس نے (بدرجۂ مجبوری) ان کے خلاف صرف زبان سے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، اور جس نے (زبان سے عاجز رہ کر) صرف دل سے ان کے خلاف جہاد کیا، یعنی دل میں ان سے نفرت کی اور ان کے خلاف غیظ و غضب رکھا، تو وہ بھی ایمان دار ہے، لیکن اس کے بغیر رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ ابو رافع کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر ؓ کو سنائی تو انھوں نے اس کو نہ مانا، اتفاق سے عبداللہ بن مسعود ؓ بھی آگئے، اور وادی قناۃ (مدینہ کی ایک وادی ہے) میں ٹھہرے۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے ان کی عیادت کے لیے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا، میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ ہم جب جا کر بیٹھ گئےتو میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نےمجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی جیسے میں نے عبداللہ بن عمر ؓ کو سنائی تھی۔ صالح بن کیسان نے کہا یہ حدیث ابو رافع سے اسی طرح بیان کی گئی ہے۔ (مقصد یہ ہے کہ ابو رافع نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود ؓ کے واسطے کے بغیر براہِ راست بیان کی ہے)
ترقیم فوادعبدالباقی: 50
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9602)» ‏‏‏‏

حدیث نمبر: 180
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَارِثُ بْنُ الْفُضَيْلِ الْخَطْمِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا كَانَ مِنْ نَبِيٍّ، إِلَّا وَقَدْ كَانَ لَهُ حَوَارِيُّونَ، يَهْتَدُونَ بِهَدْيِهِ، وَيَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِهِ "، مِثْلَ حَدِيثِ صَالِحٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ قُدُومَ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَاجْتِمَاعِ ابْنِ عُمَرَ مَعَهُ.
حارث بن فضیل خطمی سے (صالح بن کیسان کے بجائے) عبدالعزیز بن محمد کی سند کےساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ ابو رافع سے روایت ہے۔ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی نبی گزرا ہے اس کے ساتھ کچھ حواری تھے جو اس (نبی) کے نمونہ زندگی کو اپناتے اور اس کی سنت کی پیروی کرتے تھے .... صالح کی روایت کی طرح۔ لیکن (عبد العزیز نے) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی آمد اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: جو نبی بھی گزرا ہے اس کے ساتھ کچھ حواری (معاون، مدد گار) تھے۔ جو اس کی راہ ورسم کو اپناتے اور اس کی سنت کی پیروی کرتے تھے۔ آگے صالح کی روایت کی طرح ہے، لیکن اس میں عبداللہ بن مسعود ؓ کی آمد اور عبداللہ بن عمر ؓ سے ان کی ملاقات کا تذکرہ نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 50
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9602)» ‏‏‏‏