الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
81. باب مَعْرِفَةِ طَرِيقِ الرُّؤْيَةِ:
81. باب: اللہ کے دیدار کی کیفیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 451
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ، " أَنَّ نَاسًا، قَالُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ، يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْهُ، فَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ تَعَالَى فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَيَتَّبِعُونَهُ وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا، وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ، وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ، وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمُ السَّعْدَانَ؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ، تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمُ الْمُؤْمِنُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمُ الْمُجَازَى حَتَّى يُنَجَّى، حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللَّهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ، مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، مِمَّنْ أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ يَعْرِفُونَهُمْ بِأَثَرِ السُّجُودِ تَأْكُلُ النَّارُ مِنَ ابْنِ آدَمَ، إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ وَقَدِ امْتَحَشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ مِنْهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَفْرُغُ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَيَبْقَى رَجُلٌ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، فَإِنَّهُ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا، وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَدْعُو اللَّهَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَهُ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ فَعَلْتُ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، وَيُعْطِي رَبَّهُ مِنْ عُهُودٍ، وَمَوَاثِيقَ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ، فَإِذَا أَقْبَلَ عَلَى الْجَنَّةِ وَرَآهَا، سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ، أَنْ يَسْكُتَ ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ قَدِّمْنِي إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ، وَمَوَاثِيقَكَ، لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُكَ، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، وَيَدْعُو اللَّهَ حَتَّى يَقُولَ لَهُ: فَهَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ، أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ، فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ عُهُودٍ، وَمَوَاثِيقَ، فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا قَامَ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ، انْفَهَقَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، فَرَأَى مَا فِيهَا مِنَ الْخَيْرِ وَالسُّرُورِ، فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ؟ فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ، وَمَوَاثِيقَكَ، أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ مَا أُعْطِيتَ، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ لَا أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ، فَلَا يَزَالُ يَدْعُو اللَّهَ، حَتَّى يَضْحَكَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْهُ، فَإِذَا ضَحِكَ اللَّهُ مِنْهُ، قَالَ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَإِذَا دَخَلَهَا، قَالَ اللَّهُ لَهُ: تَمَنَّهْ، فَيَسْأَلُ رَبَّهُ وَيَتَمَنَّى، حَتَّى إِنَّ اللَّهَ لَيُذَكِّرُهُ مِنْ كَذَا وَكَذَا، حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الأَمَانِيُّ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ "، قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ: لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا، حَتَّى إِذَا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَّ اللَّهَ، قَالَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ وَمِثْلُهُ مَعَهُ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ مَعَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: مَا حَفِظْتُ إِلَّا قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَشْهَدُ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ، وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَذَلِكَ الرَّجُلُ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ.
یعقوب بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، کہا: میرے والد نے ہمیں ابن شہاب زہری سے حدیث سنائی، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے روایت کی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا: کچھ لوگوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پورے چاند کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: جب بادل حائل نہ ہوں تو کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کی: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تم اسے (اللہ) اسی طرح دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کےدن تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا اسی کے پیچھے چلا جائے، چنانچہ جوسورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا وہ ا س کے پیچھے چلا جائے گااور جو طاغوتوں (شیطانوں، بتوں وغیرہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتی کے پیچھے چلا جائے گا اور صرف یہ امت، اپنے منافقوں سمیت، باقی رہ جائے گی۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پاس اپنی اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچان سکتےہوں گے، پھر فرمائے گا: میں تمہارارب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارارب ہمارے پاس آ جائے، جب ہمارا رب آئے گا ہم اسے پہچان لیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمہارا پروردگار ہوں۔وہ کہیں گے، تو (ہی) ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے، پھر (پل) صراط جہنم کے درمیانی حصے پر رکھ دیا جائے گاتو میں اور امت سب سے پہلے ہوں گے جو اس سے گزریں گے۔ اس دن رسولوں کے سوا کوئی بول نہ سکے گا۔ اور رسولوں کو پکار (بھی) اس دن یہی ہو گی: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔ اور دوزخ میں سعدان کے کانٹوں کی طرح مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ہوں گے، کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: وہ (آنکڑے) سعدان کے کانٹوں کی طرح کے ہوں گے لیکن وہ کتنے بڑے ہوں گے اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ لوگ کو ان کے اعمال کا بدلہ چکانا ہوگا۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور ارادہ فرمائے گا کہ اپنی رحمت سے، جن دوزخیوں کو چاہتا ہے، آگ سے نکالے تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ان لوگوں میں سے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، لا الہ الا اللہ کہنے والوں میں سے جن پر اللہ تعالیٰ رحمت کرنا چاہے گا انہیں آگ سے نکال لیں۔ فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے۔ وہ ا نہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ سجدے کے نشانات کے سوا، آدم کے بیٹے (کی ہر چیز) کو کھا جائے گی۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے، چنانچہ وہ اس حال میں آگ سے نکالے جائیں گےکہ جل کر کوئلہ بن گئے ہوں گے، ان پر آپ حیات ڈالا جائے گا تو وہ اس کے ذریعے سے اس طرح اگ آئیں گے، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں گھاس کا بیج پھوٹ کر اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا۔ بس ایک شخص باقی ہو گا، جس نے آگ کی طرف منہ کیا ہو ا ہو گا، یہی آدمی، تمام اہل جنت میں سے، جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔وہ عرض کرے گا: میرا باپ! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے کیونکہ اس کی بدبونے میری سانسوں میں زہر بھر دیا ہے اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے، چنانچہ جب تک اللہ کو منظور ہو گا، وہ اللہ کو پکارتا رہے گاپھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ (حسن سلوک) کر دوں تو تم کچھ اور مانگنا شروع کر دو گے؟وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ اپنے رب عز وجل کو جو عہد و پیمان وہ (لینا) چاہے گا، دے گا، تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گاجب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھا گا تو جتنی دیر اللہ چاہے گا کہ وہ چپ رہے (اتنی دیر) چپ رہے گا، پھر کہے گا: میرا رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تم نے عہد و پیمان نہیں دیے تھے کہ جو کچھ میں نے تمہیں عطاکر دیا ہے اس کےسوا مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ تجھ پر ا فسوس ہے! آدم کے بیٹے! تم کس قدر عہد شکن ہو! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس سے کہے گا: کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں نے تمہیں یہ عطا کر دیا تو اس کے بعد تو اور کچھ مانگنا شروع کر دے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! (اور کچھ) نہیں (مانگوں گا۔) وہ اپنے رب کو، جواللہ چاہے گا، عہد و پیمان دے گا، اس پر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا، پھرجب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو گا تو جنت اس کے سامنے کھل جائے گی۔ اس میں جو خیر اور سرور ہے وہ اس کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھے گا۔ تو جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا، کیا تو نے پختہ عہد و پیمان نہ کیے تھے کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ ابن آدم تجھ پر افسوس! تو کتنا بڑا وعدہ شکن ہے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بدنصیب شخص نہ بنوں، وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنسے گا (تو) فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جا۔ جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے مانگے گا اور تمنا کرے گا یہاں تک کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں چیز (مانگ) فلاں چیز (مانگ) حتی کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تواللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔ عطاء بن یزید نے کہا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے، انہوں نے ان کی کسی بات کی تردید نہ کی لیکن جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: یہ سب کچھ تیرا ہوا اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی تو ابوسعید رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: ابو ہریرہ! اس کے ساتھ اس سے دس گنا (اور بھی)، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تو آپ کا یہی فرمان یاد ہے: یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر آپ کا یہ فرمان دیکھا ہے: یہ سب تیرا ہوا اور اس سے دس گنا اور بھی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخری شخص ہو گا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھ پائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چودھویں کا چاند دیکھنے میں (اژدحام کی وجہ سے) ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا سورج جب اس کے ورے بادل حائل نہ ہوں، دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: تم اللہ کو بھی اسی طرح (بغیر تکلیف و دشواری کے) دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو کسی کی بندگی کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے گا، اور جو طاغوتوں (غیر اللہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتوں کے ساتھ ہو جائے گا، اور یہ امت رہ جائے گی، اس میں منافق بھی ہوں گے، تو ان کے پاس اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہیں ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم اس جگہ ٹھہریں گے، یہاں تک کہ ہمارے پاس ہمارا رب آ جائے۔ جب ہمارا رب آ جائے گا، ہم اسے پہچان لیں گے۔ تو اللہ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچان لیں گے اور فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: تو ہی ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ پھر جہنم کی پشت پر پلِ صراط رکھا جائے گا، تو میں اور میری امت سب سے پہلے اس سے گزریں گے، اور رسولوں کے سوا اس دن کسی کو یارائے گفتگو نہ ہو گا۔ اور رسولوں کی پکار اس دن یہی ہو گی، اے اللہ! بچا! بچا! اور دوزخ میں سعدان نامی جھاڑی کے کانٹوں کی طرح لوہے کے مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے (کنڈے) ہوں گے (جن پر گوشت بھونا جاتا ہے)۔ کیا تم نے سعدان جھاڑی کو دیکھا ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا: جی ہاں! اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: وہ آنکڑے (سلاخیں) سعدان کے کانٹوں جیسے ہوں گے، لیکن ان کی جسامت اور بڑائی کی مقدار کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ لوگوں کو ان کے بد اعمال کی بنا پر اچک لیں گے (ان میں پھنسنے والے اپنے عملوں کے سبب ہلاک ہوں گے) ان میں مومن ہوں گے جو اپنے عملوں کے سبب بچ جائیں گے، اور ان میں سے بعض بدلہ دیے جائیں گے حتیٰ کہ نجات دیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا، اور اپنی رحمت سے دوزخیوں کو آگ سے نکالنا چاہے گا جن کے بارے میں اس کا ارادہ ہو گا، تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا: کہ وہ ان لوگوں کو آگ سے نکال دیں جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے۔ ان میں سے جن کو وہ اپنی رحمت سے نوازنا چاہے گا، ان میں سے جو "لا إله إلا اللہ" کہتے تھے اور فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے، وہ انھیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ ابنِ آدم سے سجدوں کے نشان کے سوا ہر چیز کو ہڑپ کر جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشان کو جلانا حرام ٹھہرایا ہے۔ وہ آگ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ وہ جل چکے ہوں گے۔ ان پر آبِ حیات ڈالا جائے گا۔ وہ اس سے یوں پھلیں پھولیں گے جس طرح قدرتی دانہ سیلاب کے ڈیلٹا (پانی کے بہاؤ کے ساتھ آنے والی مٹی اور خس و خاشاک) میں اگتا ہے۔ (یعنی بہت جلد ترو تازہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے) پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا، اور ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ آگ کی طرف ہوگا، اور یہی آدمی جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے، کیونکہ اس کی بدبو نے مجھ میں زہر بھر دیا ہے، یا میری شکل و صورت بدل دی ہے، اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، وہ پکارتا رہے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کہیں ایسا تو نہیں کہ اگر میں تیرے ساتھ ایسا کردوں (تیرا سوال پورا کردوں) تو اور سوال کر دے؟ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور سوال نہیں کروں گا، اور اللہ جو عہد وپیمان چاہے گا، دے دے گا۔ تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف متوجہ ہوگا اور اسے دیکھے گا، جب تک اللہ چاہے گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کردے! اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تو نے اپنے عہد وپیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ میں نے تمھیں دیا ہے اس کے سوا سوال نہیں کرے گا۔ تو تباہ ہو! اے آدم کے بیٹے! تو کس قدر بے وفا ہے! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا حتیٰ کہ اللہ اسے فرمائے گا: کہیں ایسا تو نہیں اگر میں تیرا یہ سوال پورا کردوں، تو تو اور مانگنا شروع کر دے؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! اور نہیں مانگوں گا، اور اپنے رب کو اللہ جو عہد وپیمان چاہے گا دے دے گا۔ پھر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا۔ جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہوگا، جنت اس کے لیے کھل جائے گی اور وہ اس کی خیرات اور فرحت و مسرت انگیز چیزوں کو دیکھے گا، تو جب تک اللہ کو خاموشی منظور ہو گی خاموش رہے گا، پھر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کردے! تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا تو نے اپنے پختہ عہد وپیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ تجھے دیا گیا ہے اس کے سوا نہیں مانگے گا۔ تجھ پر افسوس ہے، اے ابنِ آدم! تو کس قدر دغا باز ہے! وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق میں سب سے بد نصیب نہ بنوں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ اللہ عز و جل سے فریاد کرتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا، تو فرمائے گا جنت میں داخل ہو جا! جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے سوال کرے گا اور تمنا کرے گا حتیٰ کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں فلاں چیز کی تمنا کر! یہاں تک کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہوجائیں گی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے دیا اور اتنا مزید اور۔ عطاء بن یزیدؒ بیان کرتے ہیں ابو سعیدؓ بھی ابو ہریرہؓ کے ساتھ موجود تھے، اس کی حدیث کی کسی چیز کی تردید نہیں کر رہے تھے، حتیٰ کہ جب ابو ہریرہؓ نے بیان کیا: کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے دیا اور اتنا اور بھی دیا تو ابو سعیدؓ نے کہا: اس کے ساتھ اس سے دس گنا زائد اے ابو ہریرہ! ابو ہریرہؓ نے کہا: مجھے تو یہی یاد ہے: تیرے لیے یہ سب کچھ ہے اور اتنا مزید اور۔ ابو سعیدؓ نے کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد ہے: تجھے یہ سب کچھ حاصل ہےاور اس سے دس گنا زائد۔ ابو ہریرہ ؓ نے کہا: اور یہ آدمی جنت میں داخل ہونے والا آخری فرد ہو گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 182
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ‎، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾ برقم (7437) وفى الرقاق، باب: الصراط جسر جهنم برقم (6573) مطولا والنسائي في ((المجتبى)) 229/2 في التطبيق، باب: موضع السجود باختصار - انظر ((التحفة)) برقم (14213)»

حدیث نمبر: 452
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ ، أن أبا هريرة أخبرهما، أن الناس، قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ مَعْنَى حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ.
شعیب نے ابن شہاب زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا: عطاء اور سعید بن مسیب نے مجھے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےان دونوں کو خبر دی کہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیاہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟. .....آگے ابراہیم بن سعد کی طرح حدیث بیان کی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں (صحابہ کرامؓ) نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کو اپنے رب کو دیکھ پائیں گے؟ آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 182
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الاذان، باب: فضل السجود برقم (806) مطولا، وأخرجه في الرقاق، باب: الصراط جسر جهنم برقم (6573) مطولا - انظر ((التحفة)) برقم (1351)»

حدیث نمبر: 453
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَدْنَى مَقْعَدِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، أَنْ يَقُولَ: لَهُ تَمَنَّ، فَيَتَمَنَّى، وَيَتَمَنَّى، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَمَنَّيْتَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَا تَمَنَّيْتَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ ".
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سن کر) بیان کیں، پھر (ہمام نے) بہت سی احادیث بیان کیں، ان میں یہ حدیث بھی تھی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کی جنت میں کم از کم جگہ یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: تمنا کر۔ تو وہ تمنا کرے گا، پھر تمنا کرے گا، اللہ اس سے پوچھے گا: کیا تم تمنا کر چکے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: وہ سب کچھ تیرا ہوا جس کی تو نے تمنا کی اوراس کےساتھ اتناہی (اور بھی۔)
حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ایک کی جنت میں کم از کم جگہ یہ ہے (کم درجہ کا جنتی وہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: آرزو کر! تو وہ تمنا کرے گا اور تمنا کرے گا، تو اللہ اس سے پوچھے گا: کیا تو نے آرزو کر لی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرے لیے وہ سب کچھ ہے جس کی تو نے تمنا کی اور اتنا ہی اور۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 182
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14741)»

حدیث نمبر: 454
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، " أَنَّ نَاسًا فِي زَمَنِ ِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ، صَحْوًا لَيْسَ مَعَهَا سَحَابٌ؟ وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، صَحْوًا لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ لِيَتَّبِعْ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ مِنَ الأَصْنَامِ، وَالأَنْصَابِ، إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ، وَفَاجِرٍ، وَغُبَّرِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَيُدْعَى الْيَهُودُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ، وَلَا وَلَدٍ، فَمَاذَا تَبْغُونَ؟ قَالُوا: عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا، فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ أَلَا تَرِدُونَ، فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ، كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ، وَلَا وَلَدٍ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَاذَا تَبْغُونَ؟ فَيَقُولُونَ: عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ، أَلَا تَرِدُونَ، فَيُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ، كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ تَعَالَى مِنْ بَرٍّ، وَفَاجِرٍ، أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا، قَالَ: فَمَا تَنْتَظِرُونَ، تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، قَالُوا: يَا رَبَّنَا، فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا، أَفْقَرَ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، حَتَّى إِنَّ بَعْضَهُمْ لَيَكَادُ أَنْ يَنْقَلِبَ، فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ فَتَعْرِفُونَهُ بِهَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ، فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ لِلَّهِ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِهِ، إِلَّا أَذِنَ اللَّهُ لَهُ بِالسُّجُودِ، وَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ اتِّقَاءً وَرِيَاءً، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ ظَهْرَهُ طَبَقَةً وَاحِدَةً، كُلَّمَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ، خَرَّ عَلَى قَفَاهُ، ثُمَّ يَرْفَعُونَ رُءُوسَهُمْ وَقَدْ تَحَوَّلَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَقَالَ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، ثُمَّ يُضْرَبُ الْجِسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ، وَتَحِلُّ الشَّفَاعَةُ، وَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْجِسْرُ؟ قَالَ: دَحْضٌ مَزِلَّةٌ فِيهِ خَطَاطِيفُ، وَكَلَالِيبُ، وَحَسَكٌ تَكُونُ بِنَجْدٍ فِيهَا شُوَيْكَةٌ، يُقَالُ لَهَا: السَّعْدَانُ، فَيَمُرُّ الْمُؤْمِنُونَ كَطَرْفِ الْعَيْنِ، وَكَالْبَرْقِ، وَكَالرِّيحِ، وَكَالطَّيْرِ، وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَمَخْدُوشٌ مُرْسَلٌ، وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، حَتَّى إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، لِلَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ فِي النَّارِ، يَقُولُونَ: رَبَّنَا كَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا، وَيُصَلُّونَ، وَيَحُجُّونَ، فَيُقَالُ لَهُمْ: أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ، فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَى النَّار، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا قَدْ أَخَذَتِ النَّارُ إِلَى نِصْفِ سَاقَيْهِ وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا مَا بَقِيَ فِيهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ، فَيَقُولُ: ارْجِعُوا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ، فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا أَحَدًا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنَ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا أَحَدًا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْر، فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا، وَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، يَقُولُ: إِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 40، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: شَفَعَتِ الْمَلَائِكَةُ، وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ، وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ، وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ، قَدْ عَادُوا حُمَمًا، فَيُلْقِيهِمْ فِي نَهَرٍ فِي أَفْوَاهِ الْجَنَّةِ، يُقَالُ لَهُ: نَهَرُ الْحَيَاةِ، فَيَخْرُجُونَ كَمَا تَخْرُجُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ أَلَا تَرَوْنَهَا تَكُونُ إِلَى الْحَجَرِ أَوْ إِلَى الشَّجَرِ، مَا يَكُونُ إِلَى الشَّمْسِ، أُصَيْفِرُ، وَأُخَيْضِرُ، وَمَا يَكُونُ مِنْهَا إِلَى الظِّلِّ يَكُونُ أَبْيَضَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّكَ كُنْتَ تَرْعَى بِالْبَادِيَةِ؟ قَالَ: فَيَخْرُجُونَ كَاللُّؤْلُؤِ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِمُ، يَعْرِفُهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ أَدْخَلَهُمُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ، وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ، ثُمَّ يَقُولُ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ، فَمَا رَأَيْتُمُوهُ فَهُوَ لَكُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: لَكُمْ عِنْدِي أَفْضَلُ مِنْ هَذَا، فَيَقُولُونَ: يَا رَبَّنَا، أَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ هَذَا؟ فَيَقُولُ: رِضَايَ، فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا.
حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں (آپ سے) عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیاہم قیامت کے دن اپنےرب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ (ہاں) فرمایا: کیا دو پہر کے وقت صاف مطلع ہیں، جب ابر نہ ہوں، سورج کو دیکھتے ہوئے تمہیں کوئی زحمت ہوتی ہے؟ اور کیا پورے چاند کی رات کو جب مطلع صاف ہو اور ابر نہ ہوں تو چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟ صحابہ نے کہا: اللہ کےرسول نہیں! فرمایا: قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنے میں اس سے زیادہ دقت نہ ہوگی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا: ہر امت اس کے پیچھے چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتی تھی۔ کوئی آدمی ایسا نہ بچے گا جو اللہ کے سوابتوں اور پتھروں کو پوجتا تھا مگر وہ آ گ میں جا گرے گا حتی کہ جب ان کے سوا جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، وہ نیک ہوں یا بد، اور اہل کتاب کے بقیہ (بعد کے دور) لوگوں کےسوا کوئی نہ بچے گا تو یہود کو بلایا جائے گا او ران سے کہا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے تو کہا جائے گا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بوی بنائی نہ بیٹا، تو (اب) کیا چاہتے ہو؟کہیں گے: پروردگار! ہمیں پیاس لگی ہے ہمیں پانی پلا۔ تو ان کو اشارہ کیا جائے گاکہ تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر ا نہیں اکٹھا کر کے آگ کی طرف ہانک دیا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ رہا ہو گا اوروہ سب (ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے، پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا او ران سے کہاجائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے مسیح کو پوجتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ کوئی بیٹا، پھر ان سے کہا جائے گا! (اب) تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم پیاسے ہیں ہمارے پروردگار! ہمیں پانی پلا، آپ نے فرمایا: ان کواشارہ کیا جائے گا، تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انہیں اکٹھا کر کے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی (اور) اس کا ایک حصہ (شدت اشتعال سے) دوسرے کو توڑ رہا ہو گا، وہ (ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے، حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالیٰ (ہی) کی عبادت کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، (تو) سب جہانوں کا رب سبحان و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر (یا مختلف) صورت میں آئے گا (اور) فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر امت اس کے پیچھے جا رہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی، وہ (سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر) التجا کریں گے: اےہمارے رب! ہم دنیا میں سب لوگوں سے، جتنی شدید بھی ہمیں ان کی ضرورت تھی، الگ ہو گئے، ہم نے ان کاساتھ نہ دیا۔ وہ کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ ان میں بعض لوگ بدلنے کے قریب ہو ں گے تو وہ فرمائے گا: کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی (طے) ہے جس سے تم اس کو پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے: ہاں!تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کےلیے یا دکھاوے کےلیے سجدہ کرتا تھامگر اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک ہی مہر بنادے گا، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا، پھر وہ (سجدے سے) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں آ چکا ہو گا جس میں انہوں نے اس کو (سب سے) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ تووہ کہیں گے: (ہاں) تو ہی ہمارا رب ہے، پھر جہنم پر پل دیا جائے گا اور سفارش کا دروازہ کھل جائے گا، اور (سب رسول) کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جسر (پل) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: بہت پھسلنی، ڈگمگا دینے والی جگہ ہے، اس میں اچک لینےوالے آنکڑے اور کئی کئی نوکوں والے کنڈے ہیں اور اس میں کانٹے دار پودے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے۔ تو مومن آنکھ کی جھپک کی طرح اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے، کوئی صحیح سالم نجات پانے والا ہو گا اور کوئی زخمی ہو کر چھوڑ دیا جانے والا اور کچھ جہنم کی آگ میں تہ بن تہ لگا دیے جانے والے، یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے (کے معاملے) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب!وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو وہ فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کےدل میں دینار بھر خیر (ایمان) پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ (پھرسے) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تووہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔ (ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہوسکتا ہے۔) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: اگر تم اس حدیث میں میری تصدیق نہیں کرتے تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تواس کو بڑھاتا ہے او راپنی طرف سے اجر عظیم دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا تو وہ آ ‎گ سے ایک مٹھی بھرے گا او رایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر (بہنے والی) ایک نہر میں ڈال دے گا جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے، وہ اس طرح (اگ کر) نکل آئیں گے جس طرح (گھاس کا) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے، کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو کہ کبھی وہ پتھر کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور کبھی درخت کے ساتھ، جوسورج کے رخ پر ہوتا ہے وہ زرد اور سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے وہ سفید ہوتا ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا لگتا ہے کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: تووہ لوگ (نہرسے) موتیوں کے مانند نکلیں گے، ان کی گردنوں میں مہریں ہو ں گی، اہل جنت (بعد ازاں) ان کو (اس طرح) پہچانیں گے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بغیر کسی نیکی کے جو انہوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر وہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ اور جو تمہیں نظر آئے وہ تمہارا ہے، اس پر وہ کہیں گے: اےہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سےکسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمہارے میرے پاس اس سے بڑھ کر کون سی چیز (ہوسکتی) ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میری رضا کہ اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں فرمایا: کیا دوپہر کے وقت جب مطلع صاف ہو، ابر آلود نہ ہو، تمھیں سورج کے دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ کیا چودہویں رات جب آسمان صاف ہو بادل نہ ہوں، تمھیں چاند دیکھنے میں کوئی اذیت پہنچتی ہے؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! فرمایا: قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کے دیکھنے میں اتنی ہی کلفت ہو گی، جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا منادی کرے گا: ہر امت اپنے معبود کے ساتھ ہو جائے۔ جس قدر لوگ اللہ کے سوا بتوں، آستانوں کو پوجتے تھے، سب آگ میں جا گریں گے، اور صرف وہ لوگ بچ جائیں گے جو اللہ کی بندگی کرتے تھے۔ نیک ہوں یا بد۔ اور کچھ اہلِ کتاب کے بقایا لوگ (جو اپنے اصل دین پر قائم رہے) پھر یہود کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: تم کس چیز کی عبادت کرتے تھے؟ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی بندگی کرتے تھے، تو ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی بیٹا ہے، تم کیا چاہتے ہو؟ کہیں گے:ہمیں پیاس لگی ہے، اے ہمارے رب ہمیں پانی پلا! تو ان کو اشارہ کیا جائے گا،تم پانی پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انھیں جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا۔ وہ انھیں سراب کی طرح دکھائی دے گی، اور اس کا بعض حصہ دوسرے حصے کو تباہ کر رہا ہوگا، تو وہ سب جہنم میں گر جائیں گے۔ پھر نصاریٰ کو بلا کر پوچھا جائے گا: تم کس چیز کی بندگی کرتے تھے؟ وہ کہیں گے ہم اللہ کے بیٹے مسیح کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ کی کوئی بیوی ہے نہ کوئی اولاد۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا: اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو پیاس لگی ہے، ہمیں پانی پلا! آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ان کو اشارہ کیا جائے گا، تم پانی کی طرف کیوں نہیں جاتے؟ پھر انھیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، گویا کہ وہ سراب ہے۔ بعض بعض کو کھا رہا ہوگا (شدتِ اشتعال سے ایک دوسرے کو توڑ رہا ہوگا)، تو وہ سب آگ میں گر جائیں گے، یہاں تک کہ صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو اللہ کی بندگی کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، ان کے پاس کائنات کا مالک اس سے قریب تر شکل میں آئے گا جس کو وہ جانتے ہوں گے۔ فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر گروہ اس کے ساتھ چلا گیا ہے، جس کی وہ عبادت کرتا تھا۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دنیا میں لوگوں سے اس وقت جدائی اختیار کی، جب کہ ہم ان کے بہت محتاج تھے، اورا ن کے ساتھ نہ رہے، تو وہ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ بعض لوگ ان میں سے (راہِ ثواب سے)پھرنے کے قریب ہوں گے (کیونکہ امتحان کی شدت کی وجہ سے دل میں شبہ پیدا ہونے لگےگا)، پھر فرمائے گا: کیا تمھارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی ہے؟ جس سےتم اس کو پہچان سکو؟ تو وہ جواب دیں گے: ہاں! تو پنڈلی ظاہر کردی جائے گی، تو ہر وہ انسان جو اپنی مرضی سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا اس کو اللہ سجدہ کی اجازت (توفیق) دے گا۔ اور ہر وہ شخص جو (مسلمانوں سے) بچنے کے لیے اور لوگوں کے دکھلاوے کے لیےسجدہ کرتا تھا، اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک تختہ کی طرف بنا دے گا۔جب وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر جائے گا۔ پھر وہ لوگ سجدے سے سر اٹھائیں گے، اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں ہو چکا ہو گا جس صورت میں انھوں نے پہلی مرتبہ دیکھاہو گا، اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ تو وہ کہیں گے: تو ہی ہمارا رب ہے، پھر جہنم پر پل بچھا دیا جائے گا اور سفارش شروع ہو جائے گی۔ اس وقت (رسول) کہیں گے اے اللہ بچا! بچا! پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جسر (پل) کیسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: بہت پھسلنے کی جگہ ہوگی۔ اس پراچکنے والے آنکس ہوں گے، اور لوہے کی گوشت بھوننے والی مڑی ہوئی سلاخیں ہوں گی، اور اس میں گھوکرو جو نجد میں ہوتے ہیں، اس میں کانٹے ہوں گے جن کو سعدان کہتے ہیں، تو مومن اس سے پار ہوں گے پلک جھپکنے کی طرح، کوئی بجلی کی طرح، کوئی ہوا کی طرح، کوئی پرندوں کی طرح اور بعض تیز رفتار گھوڑوں کی طرح، بعض اونٹوں کی طرح، کچھ سالم پار ہو جائیں گے اور بعض زخمی ہو کر چھٹکارا پائیں گے، اور کچھ دھکا دے کر جہنم کی آگ میں گرا دیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پا لیں گے، تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اپنا حق پورا پورا وصول کرنے میں اس قدر جھگڑا نہیں کرتا، جس قدر مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں قیامت کے دن جھگڑا کریں گے، جو آگ میں چلے گئے ہوں گے۔ مومن کہیں گے: اے اللہ! اے ہمارے رب! یہ لوگ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: جن کو تم پہچانتے ہو ان کو نکال لو۔ ان کی شکلیں (صورتیں) آگ پر حرام کر دی جائیں گی۔ تو وہ بہت سے ان لوگوں کو نکال کر لائیں گے جن کے آگ آدھی پنڈلیوں تک پہنچ چکی ہو گی۔ پھر مومن کہیں گے: اے ہمارے رب! جن کے نکالنے کے لیے تو نے فرمایا تھا، ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو اللہ عز وجل فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں دینار بھر خیر (نیکی) پاؤ اس کو نکال لاؤ۔ تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔ پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم نے کسی ایسے فرد کواس میں نہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا۔ پھر وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔ پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی ایسے آدمی کو نہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا۔ پھر وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں ذرہ برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے، پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم نےاس میں کسی صاحبِ خیر کو نہیں چھوڑا۔ اور ابو سعید خدریؓ فرمایا کرتے تھے: اگرتم میری اس حدیث کی تصدیق نہیں کرتے، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو بے شک اللہ! ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرے گا اور نیکی ہوگی تو اس کو بڑھائے گا، اور اپنی طرف سے اجرِ عظیم دے گا۔ (النساء: 40) پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، انبیاءؑ نے سفارش کرلی اور مومن سفارش کر چکے اور ارحم الراحمین کے سوا کوئی نہیں رہا، تو وہ آگ سے ایک مٹھی بھرے گا، تو وہ ایسے لوگوں کو اس سے نکالے گا جنھوں کبھی نیکی نہیں کی ہوگی اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، تو وہ انھیں جنت کے دروازوں پر ایک نہر میں ڈال دے گا۔ جس کو زندگی کی نہر کہا جاتا ہے، تو وہ اس طرح پھلے پھولیں گے، جس طرح قدرتی بیج سیلاب کے خس وخاشاک میں نشوون پاتا ہے۔ کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو؟ کبھی وہ پتھر کے پاس ہوتا ہے، اور کبھی درخت کے پاس جو سورج کے رخ پر ہوتا ہے۔ وہ زرد اور سبز ہوتا ہے، اور جو سایہ میں ہوتا ہے، وہ سفید ہوتا ہے۔ تو صحابہ ؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ! گویا کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ لوگ (نہر سے) موتی کی طرح نکلیں گے، ان کی گردنوں میں نشانی ہو گی۔ اہلِ جنت ان کو پہچانتے ہوں گے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انھوں نے کیا ہو، اور بغیر کسی خیر کے جو انھوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر اللہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ! اور تم نے جو کچھ دیکھا وہ تمھارا ہے۔ تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمھارے لیے میرے پاس اس سے بھی افضل (برتر)چیز ہے۔ تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! اس سے افضل چیز کون سی ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میری خوشنودی و رضا اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 183
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ﴾ برقم (4581) وفي التوحيد، باب: قول الله تعالی ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾ برقم (4739) انظر ((التحفة)) برقم (4172)»

حدیث نمبر: 455
قَالَ مُسْلِم: قَرَأْتُ عَلَى عِيسَى بْنِ حَمَّادٍ زُغْبَةَ الْمِصْرِيِّ، هَذَا الْحَدِيثَ فِي الشَّفَاعَةِ، وَقُلْتُ لَهُ: أُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْكَ، أَنَّكَ سَمِعْتَ مِنَ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ لِعِيسَى بْنِ حَمَّادٍ : أَخْبَرَكُمُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ إِذَا كَانَ يَوْمٌ صَحْوٌ؟ قُلْنَا: لَا "، وَسُقْتُ الْحَدِيثَ حَتَّى انْقَضَى آخِرُهُ وَهُوَ نَحْوُ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ: بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا قَدَمٍ قَدَّمُوهُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: لَكُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: بَلَغَنِي أَنَّ الْجِسْرَ، أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرَةِ وَأَحَدُّ مِنَ السَّيْفِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ وَمَا بَعْدَهُ، فَأَقَرَّ بِهِ عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ.
امام مسلم نے کہا: میں نے شفاعت کے بارے میں یہ حدیث عیسیٰ بن حماد زغبہ مصری کے سامنے پڑھی اور ان سے کہا: (کیا) یہ حدیث میں آپ کے حوالے سے بیان کروں کہ آپ نے اسے لیث بن سعد سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! (امام مسلم نےکہا:) میں نے عیسیٰ بن حماد سے کہا: آپ کو لیث بن سعد نےخالدبن یزید سے خبر دی، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے، انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے کہاکہ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب چمکتا ہوا بے ابر دن ہو تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں۔ (امام مسلم نے کہا:) میں حدیث پڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ ختم ہوگئی اور (سعید بن ابی ہلال کی) یہ حدیث حفص بن میسرہ کی (مذکورہ) حدیث کی طرح ہے۔ انہوں نے کیا اور بغیر کسی قدم کے جوانہوں نے آگے بڑھایا کے بعد یہ اضافہ کیا: چنانچہ ان سے کہا جائے گا: تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جو تم نے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ پل بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی ادھار سے زیادہ تیز ہو گا۔ لیث کی روایت میں یہ الفاظ: تووہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا اور اس کے بعد کے الفاظ نہیں ہیں۔ چنانچہ عیسیٰ بن حماد نے اس کا اقرار کیا (کہ انہوں نے اوپر بیان کی گئی سند کے ساتھ لیث سے یہ حدیث سنی۔)
امام مسلم فرماتے ہیں: میں نے سفارش کے بارے میں یہ حدیث عیسیٰ بن حماد زغبہ مصری کو سنائی، اور اس سے کہا: یہ حدیث میں آپ سے بیان کرتا ہوں، آپ نے اسے لیث بن سعید سے سنا ہے؟ تو اس (عیسیٰ) نے کہا: ہاں! میں نے عیسیٰ بن حماد کو کہا: آپ کو لیث بن سعد نے خالد بن یزید کے واسطہ سے سعید بن ابی ہلال کی زید بن اسلم سے عطاء بن یسار کی ابو سعید خدری ؓ سے خبر دی ہے، کہ انھوں نے کہا: ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مطلع صاف ہو، کیا تم آفتاب کے دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں! امام مسلم فرماتے ہیں: میں نے آخر تک عیسیٰ کو حدیث سنائی جو حفص بن میسرہ کی حدیث جیسی ہے۔ اس نے اس کے بعد کہ بغیر اس کے انھوں نے کوئی عمل کیا ہو، یا نیکی آگے بھیجی ہو۔ یہ اضافہ کیا، تو انھیں کہا جائے گا: تمھارے لیے ہے جو تم نے دیکھا، اور اتنا ہی اس کے ساتھ اور۔ ابو سعید بیان کرتے ہیں، مجھے یہ بات پہنچی ہے، کہ پُل بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہو گا۔ لیث کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں، تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا اور اس کامابعد، عیسیٰ بن حماد نے میری اس حدیث کا اقرار کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 183
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (453)»

حدیث نمبر: 456
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، بِإِسْنَادِهِمَا نَحْوَ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ إِلَى آخِرِهِ، وَقَدْ زَادَ، وَنَقَصَ شَيْئًا.
زید بن اسلم کے ایک اور شاگرد ہشام بن سعد نے بھی ان دونوں (حفص اور سعید) کی مذکورہ سندوں کے ساتھ حفص بن میسرہ جیسی حدیث (: 454) آخرتک بیان کی اور کچھ کمی و زیادتی بھی کی۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک دوسری سند سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں کچھ کمی بیشی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 183
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (453)»