الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
27. باب مَا يُقَالُ بَيْنَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ:
27. باب: تکبیر تحریمہ اور قرأت کے بیچ کی دعاؤں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1354
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا كَبَّرَ فِي الصَّلَاةِ، سَكَتَ هُنَيَّةً، قَبْلَ أَنْ يَقْرَأَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، مَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ، كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ ".
جریر نےعمارہ بن قعقاع سے، انھوں نے ابوزرعہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (آغاز) نماز کے لیے تکبیر کہتے تو قراءات کرنے سے پہلے کچھ دیر سکوت فرماتے، میں نےعرض کی: اے اللہ کے رسو ل! میرے ماں باپ آپ پر قربان! دیکھیے یہ جو تکبیر اور قراءت کے درمیان آپ کی خاموشی ہے (اس کے دوران میں) آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں کہتا ہوں: اللہم باعدبینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب اللہم نقنی من خطایای کما ینقی الثوب الابیض من الدنس، اللم اغسلنی من خطایای بالثلج والماء والبرد اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری ڈال دے جس طرح تونے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے۔اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے پاک کر دے برف کے ساتھ، پانی کےساتھ اور اولوں کے ساتھ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر کہتے تو قرأت سے پہلے کچھ سکوت فرماتے تو میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان، فرمایئے آپ تکبیر اور قرأت کے درمیان خاموشی کے دوران کیا پڑھتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہتا ہوں: اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس قدر فاصلہ کر دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان رکھا ہے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے یوں پاک صاف کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 598
حدیث نمبر: 1355
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ جَرِيرٍ.
ابن فضیل اور عبدالواحد بن یاد دونوں نے، عمارہ بن قعقاع سے، اسی سند کے ساتھ، جریر کی حدیث کی طرح روایت کی
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 598
حدیث نمبر: 1356
قَالَ مُسْلِم: وَحُدِّثْتُ عَنْ يَحْيَى بْنِ حَسَّانَ وَغَيْرِهِمَا، وَيُونُسَ الْمُؤَدِّبِ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، اسْتَفْتَحَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَمْ يَسْكُتْ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو (الحمد اللہ رب العٰلمین) سے قراءت کا آغاز کر دیتے (کچھ دیر) خاموشی اختیار نہ فرماتے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو خاموشی اختیار کیے بغیر قرأت کا آغاز (اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) سے فرماتے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 599
حدیث نمبر: 1357
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ ، وَثَابِتٌ ، وَحُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا، جَاءَ فَدَخَلَ الصَّفَّ، وَقَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، فَقَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ، حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا، مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِالْكَلِمَاتِ، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِهَا، فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بَأْسًا، فَقَالَ رَجُلٌ: جِئْتُ وَقَدْ حَفَزَنِي النَّفَسُ، فَقُلْتُهَا. فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا، أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور صف میں شریک ہوا جبکہ اس کی سانس چڑھی ہوئی تھی، اس نے کہا: الحمد اللہ حمد کثیر طیبا مبارکا فیہ تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے، حمد بہت زیادہ، پاک اور برکت والی حمد۔ جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز پوری کرلی تو آپ نے پوچھا تم میں سے یہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ سب لوگوں نے ہونٹ بند رکھے۔ آپ نے دوبارہ پوچھا تم میں یہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ اس نے کوئی ممنوع بات نہیں کہی۔ تب ایک شخص نے کہا: میں اس حالت میں آیا کہ میری سانس پھولی ہوئی تھی تو میں نے اس عالم میں یہ کلمات کہے۔ آپ نے فرمایا: میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا جو (اس میں) ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے کہ کون اسے اوپر لے جاتا ہے۔
مجھے زہیر بن حرب نے عفان کے واسطہ سے حماد کی قتادہ، ثابت اور حمید سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت سنائی ہے کہ ایک آدمی آیا اور صف میں اس حالت میں شریک ہوا کہ اس کا سانس پھول رہا تھا اور اس نے پڑھا اَلحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْداً، یعنی اللہ ہی بہت زیادہ پاک اور برکت والی تعریف و ثنا کا حقدار ہے تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے؟ اس پر سب لوگ خاموش رہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا، تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے؟ اس نے کوئی بری بات نہیں کہی۔ تو ایک شخص نے کہا، میں اس حال میں آیا کہ میرا سانس پھول رہا تھا تو میں نے یہ کلمات کہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا، جو ان کلمات کو اوپر لے جانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے، قَدْ حَفَزَهُ النَّفْسُ: اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اَرَمَّ الْقَوْمُ: لوگ چپ رہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 600
حدیث نمبر: 1358
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟ "، قَالَ رَجُلٌ مِنِ الْقَوْمِ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ "، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَمَا تَرَكْتُهُنَّ، مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ ذَلِكَ.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھون نے کہا: ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ اکبر کبیرا، والحمد للہ کثیرا، وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا اللہ سب سے بڑا ہے بہت بڑا، اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے بہت زیادہ اور تسبیح اللہ ہی کے لیے ہے، صبح و شام۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: فلاں فلاں کلمہ کہنے والا کون ہے؟ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کےرسول! میں ہوں آپ نے فرمایا مجھے ان پر بہت حیرت ہوئی، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی، اس کےبعد سے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔
حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اس اثنا میں لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: (اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا) اللہ بہت بڑا ہے اور اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریف ہے اور صبح و شام اللہ ہی کے لیے پاکیزگی و تسبیح ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ بول کس نے کہا ہے؟ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے کہا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان پر تعجب ہوا، ان کے لیے آسمان سے دروازے کھولے گئے۔ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سننے کے بعد ان کلمات کو کبھی نہیں چھوڑا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 601