الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْكُسُوفِ
سورج اور چاند گرہن کے احکام
5. باب ذِكْرِ النِّدَاءِ بِصَلاَةِ الْكُسُوفِ: «الصَّلاَةَ جَامِعَةً» :
5. باب: نماز کسوف کے لئے «الصّلاةُ جَامِعَةٌ» ‏‏‏‏ کہہ کر پکارنا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 2113
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهُوَ شَيْبَانُ النَّحْوِيُّ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ خَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَمَّا انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُودِيَ بِالصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ، ثُمَّ جُلِّيَ عَنِ الشَّمْسِ ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا رَكَعْتُ رُكُوعًا قَطُّ وَلَا سَجَدْتُ سُجُودًا قَطُّ كَانَ أَطْوَلَ مِنْهُ ".
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گرہن ہواتو" الصلواۃ جامعۃ " (کے الفاظ کے ساتھ) اعلان کیاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے اور ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر سورج سے گرہن زائل کردیا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے نہ کبھی ایسا رکوع کیا اور نہ کبھی ایسا سجدہ کیا جو اس سے زیادہ لمبا ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گہن لگا تو الصلواة جامعة کے ذریعے اعلان کیا گیا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے اور ایک رکعت میں دو رکوع کیے، پھر سورج روشن ہورگیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے نہ ا س سے کبھی لمبا رکوع کیا اور نہ کبھی اس سے لمبا سجدہ کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 910
حدیث نمبر: 2114
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِمَا عِبَادَهُ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا، فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ ".
ہشیم نے اسماعیل سے، انھوں نے قیس بن ابی حازم سے، اور انھوں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو خوف دلاتاہے۔اور ان دونوں کو انسانوں میں سے کسی کی موت کی بناء پر گرہن نہیں لگتا، لہذا جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ کو پکارو یہاں تک کہ جو کچھ تمہارے (ساتھ ہوا) ہے وہ کھل جائے۔"
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی (قدرت اور جلال و جبروت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بے نور کر کے (اپنی ربوبیت اور قدرت و سطوت کا اظہار کر کے) اپنے بندوں کو (نافرمانی سے) ڈراتا ہے۔ اور یہ دونوں لوگوں میں سے کسی کی موت پر بے نور نہیں ہوتے لہٰذا جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ کو پکارو حتی کہ تمہاری یہ مصیبت دور کر دی جائے، یعنی گہن دور ہو جائے
ترقیم فوادعبدالباقی: 911
حدیث نمبر: 2115
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيْسَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَقُومُوا فَصَلُّوا ".
معتمر نے اسماعیل سے، انھوں نے قیس سے اور انھوں نے حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورج اور چاند کو لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر گرہن نہیں لگتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سےدو نشانیاں ہیں۔لہذا جب تم اس (گرہن) کو دیکھو تو قیام کرو اور نماز پڑھو۔"
حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند کو لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر گہن نہیں لگتا، لیکن وہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں،اور جب تم یہ نشانی دیکھوتو اٹھو اور نماز پڑھو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 911
حدیث نمبر: 2116
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وَمَرْوَانُ كلهم، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، وَوَكِيعٍ " انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ النَّاسُ انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ ".
وکیع، ابواسامہ، ابن نمیر، جریر، سفیان، اورمروان سب نے اسماعیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، سفیان اوروکیع، کی روایت میں ہے کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن سورج کو گرہن لگا تو لوگوں نے کہا: سورج کو ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی بناء پر گرہن لگا ہے۔
امام صاحب ا پنے بہت سے اساتذہ سے اسماعیل کی اس سند سے روایت بیان کرتے ہیں۔ سفیان اور وکیع کی روایت میں ہے کہ ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کے دن سورج کو گہن لگا، تو لوگوں نے کہا، سورج کو گہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے لگا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 911
حدیث نمبر: 2117
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ، حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَقَامَ يُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ، مَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُهُ فِي صَلَاةٍ قَطُّ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا، فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ ". وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ الْعَلَاءِ: " كَسَفَتِ الشَّمْسُ "، وَقَالَ: " يُخَوِّفُ عِبَادَهُ ".
ابو عامر اشعری عبداللہ بن براد اور محمد بن علاء نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے برید سے حدیث سنائی، انھوں نے ابو بردہ سے اور انھوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو آپ تیزی سے اٹھے، آپ کو خوف لاحق ہوا کہ مبادا قیامت (آگئی) ہو، یہاں تک کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے اور آپ کھڑے ہوئے بہت طویل قیام، رکوع اورسجدے کے ساتھ نماز پڑھتے رہے، میں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا تھا کہ کسی نماز میں (آپ نے) ایسا کیا ہو، پھر آپ نے فرمایا: "یہی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔یہ کسی کی موت یا زندگی کی بناء پر نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ ان کو بھیجتا ہے تاکہ ان کے زریعے سے اپنے بندوں کو (قیامت سے) خوف دلائے، اس لئے جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو جلد از جلد اس کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف لپکو، "ابن علاء کی ر وایت میں"خسفت الشمس" کے بجائے) کسفت الشمس (سورج کو گرہن لگا) کے الفاظ ہیں (معنی ایک ہی ہے) اور انھوں نے (یخوف بہا عبادہ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے کے بجائے) یخوف عبادہ (اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے) کہا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج کو گہن لگ گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم خوف زدہ ہو کر اس طرح اٹھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت قائم ہونے کا ڈر ہو حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آ گئے اور آپ نے انتہائی طویل قیام، رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھی میں نے آپ کو کسی نماز میں کبھی ایسے کرنے نہیں دیکھا تھا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی بناء پر نہیں ہوتیں، لیکن اللہ ان کو اپنے بندوں کی تخویف (ڈرانے) کے لیے بھیجتا ہے تو جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو فوراً اس کے ذکر، دعا اور استغفار کی پناہ لو ابن العلاء کی روایت میں ہے:"كسفت الشمس"یعنی"خَسَفَتْ " کی جگہ اور کہا" يُخَوِّفُ عِبَادَهُ "یعنی" يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ "کی جگہ۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 912
حدیث نمبر: 2118
وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا أَرْمِي بِأَسْهُمِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَنَبَذْتُهُنَّ، وَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا يَحْدُثُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْكِسَافِ الشَّمْسِ الْيَوْمَ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَدْعُو وَيُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ، حَتَّى جُلِّيَ عَنِ الشَّمْسِ، فَقَرَأَ سُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ".
بشر بن مفضل نے کہا: جریری نے ہمیں ابو علاء حیان بن عمیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے تیروں کے ذریعے سے تیر اندازی کر رہا تھا کے سورج کو گرہن لگ گیا، تو نے ان کو پھینکا اور (دل میں) کہا کہ میں آج ہر صورت دیکھوں گا کہ سورج گرہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوتی ہے۔میں آپ کے پاس پہنچا تو (دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، (اللہ کو) پکار رہے تھے، اس کی بڑائی بیان کر رہے تھے، اس کی حمد و ثنا بیان کر رہے تھے اور «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کا ورد فرما رہے تھے، یہاں تک کہ سورج سے گرہن ہٹا دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہررکعت میں) دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں ادا کیں۔
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسی اثنا میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنے تیر چلا رہا تھا کہ سورج کو گہن لگ گیا، تو میں نے ان کو پھینک دیا اور جی میں کہا کہ میں آج دیکھوں گا کہ سورج گہن کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نیا کام کرتے ہیں، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دعا، تکبیر، تحمید اور تہلیل کہہ رہے تھے حتی کہ سورج روشن ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 913
حدیث نمبر: 2119
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنْتُ أَرْتَمِي بِأَسْهُمٍ لِي بِالْمَدِينَةِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ كَسَفَتِ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهَا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا حَدَثَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ قَائِمٌ فِي الصَّلَاةِ رَافِعٌ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يُسَبِّحُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ وَيُكَبِّرُ وَيَدْعُو حَتَّى حُسِرَ عَنْهَا، قَالَ: فَلَمَّا حُسِرَ، عَنْهَا قَرَأَ سُورَتَيْنِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ نے جریری سے، انھوں نے حیان بن نمیر سے اور انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے تھے، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک د ن مدینہ میں ا پنے تیروں سے نشانے لگا رہا تھا کہ اچانک سورج کو گرہن لگ گیا، اس پر میں نے انھیں (تیروں کو) پھینکا اور (دل میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ضرور د یکھوں گا کہ سورج کے گرہن کے اس و قت میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوئی ہے۔کہا: میں آپ کے پاس آیا، آپ نماز میں کھڑے تھے، دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، پھر آپ نے تسبیح، حمد و ثنا «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» اور اللہ کی بڑائی کا ورد اور د عا مانگنی شروع کر دی یہاں تک کہ سورج کا گرہن چھٹ گیا، کہا: اور جب سورج کا گرہن چھٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ايک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں میں اپنے تیروں سے تیر اندازی رہا تھا کہ اچانک آفتاب گہن میں آ گیا تو میں اپنے تیر پھنک دیئے اور جی میں کہا: اللہ کی قسم! چل کر دیکھوں گا کہ اس وقت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوتی ہے یا آپصلی اللہ علیہ وسلم کیا نیا کام کرتے ہیں میں آپ کے پاس آیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے آپصلی اللہ علیہ وسلم تسبیح، تحمید، تہلیل، تکبیر اور دعا کرنے لگے، (اور یہ دعا و نماز کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا حتی کہ سورج کا گہن چھٹ گیا، اور وہ روشن ہو گیا)۔ اور جب سورج روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 913
حدیث نمبر: 2120
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَتَرَمَّى بِأَسْهُمٍ لِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ خَسَفَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمَا.
سالم بن نوح نے کہا: ہمیں جریری نے حیان بن عمیر سے خبر دی اور انھوں نے عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا، پھر (سالم بن نوح نے) ان دونوں (بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا،پھر(سالم بن نوح نے) ان دونوں(بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔حدیث حاشیہ: 'Abdul Rahman bin ahadeeth reported: I was shooting some of my arrows during the lifetime of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) that the sun eclipsed. The rest of the hadith is the same.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر سنایا کرتے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یقیناً سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں،جب تم انھیں(اس طرح) دیکھو تو نماز پڑھو۔"حدیث حاشیہ: عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ نے جریری سے،انھوں نے حیان بن نمیر سے اور انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے تھے،انھوں نے کہا:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک د ن مدینہ میں ا پنے تیروں سے نشانے لگا رہا تھا کہ اچانک سورج کو گرہن لگ گیا،اس پر میں نے انھیں(تیروں کو) پھینکا اور(دل میں) کہا:اللہ کی قسم!میں ضرور د یکھوں گا کہ سورج کے گرہن کے اس و قت میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا نئی کیفیت طاری ہوئی ہے۔کہا:میں آپ کے پاس آیا،آپ نماز میں کھرے تھے،دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے،پھر آپ نے تسبیح،حمد و ثنا لاالٰہ الا اللہ اور اللہ کی بڑائی کا ورد اور د عا مانگنی شروع کردی یہاں تک کہ سورج کا گرہن چھٹ گیا،کہا:اور جب سورج کا گرہن چھٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعت نماز ادا کی۔حدیث حاشیہ: سالم بن نوح نے کہا:ہمیں جریری نے حیان بن عمیر سے خبر دی اور انھوں نے عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا،پھر(سالم بن نوح نے) ان دونوں(بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر سنایا کرتے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یقیناً سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں،جب تم انھیں(اس طرح) دیکھو تو نماز پڑھو۔" حدیث حاشیہ: سالم بن نوح نے کہا:ہمیں جریری نے حیان بن عمیر سے خبر دی اور انھوں نے عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باہر نکل کر اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا کہ سورج گرہن ہوگیا،پھر(سالم بن نوح نے) ان دونوں(بشر اور عبدالاعلیٰ) کی حدیث کی طرح بیان کیا۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2157٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)913.02٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)1520.01٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)913.02٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)2103٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)913.02٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام2120 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × سورج یا چاند کوگرہن لگنا انسانوں کے لئے غیر معمولی اور بہت بڑا واقعہ ہے سورج اور چاند دن اور رات میں روشنی کا منبع ہیں۔زمین پر رہنے والےتمام جانداروں،خصوصاًانسانوں کاجسمانی نظام اس طرح بنا ہواہے کہ ان کے پروگرام کا بنیادی اوراہم حصہ سورج نکلنے اور غروب ہونے یا دن اوررات کے ساتھ وابستہ ہے۔دیکھنا،رنگوں کی پہچان،سونا جاگنا،نشاط کار اورارتکاز توجہ وغیرہ کا تعلق دن اور رات کی تقسیم کے ساتھ جڑا ہواہے جب گرہن لگتاہے تو تمام جانداروں کے جسمانی نظام اس کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں۔جدید سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب مکمل سورج گرہن ہوتا ہے تو رات کو سو جانےوالے جانوروں پر نیند طاری ہوجاتی ہے،پرندے بھی بے حس وحرکت ہوجاتے ہیں۔وہ جاندار جن کا جسمانی پروگرام دن کو سونے اور رات کو جاگنے کے لئے ہے وہ نیند سے بیدا ہوجاتے ہیں اور کچھ دیر بعد سورج گرہن زائل ہونے پرپریشان اور"Confuse"ہوجاتے ہیں۔انسانوں کے جسمانی پروگرام پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں،سائنس یہ کہتی ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر بسا اوقات"سائے کی پٹیاں"(Shadow bands)سامنےآجاتی ہیں۔ابتداء میں یہ زمین پربچھی ہوئی نظر آتی ہیں،پھر یہ رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں،ایسا لگتا ہے کہ وہ تمہاری طرف بڑھی چلی آرہی ہیں،انسانوں کے لئے ان کو دیکھنا ایک خوف پیدا کرنے والا تجربہ ہوتاہے ان کے بارے میں(Draco Report) کی چند سطور کا ترجمہ یہ ہے۔"چاہے آپ کو معلوم ہو کہ اس کی حقیقت کیا ہے،یہ ایک خوفزدہ کردینے والا تجربہ ہوسکتا ہے۔آپ کا جسم اس کےبارے میں اپنی رائے رکھتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے(اور کیا غلط) زمین پر آپ کی طرف رینگتی ہوئی پٹیاں اس کے لئے قابل قبول نہیں۔۔۔چاہے آپ کا دماغ کہہ رہا ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہے،پھر بھی آپ کا جسم یہی چاہے گا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے اور کہیں چھپ جائے۔" سورج گرہن،سورج اور زمین کے درمیان چاند کے حائل ہونے سے اور چاند گرہن،سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔یہ ان سیاروں کی غیر معمولی پوزیشن ہے۔بعض مواقع پر چاند عام معمول کی نسبت زمین سے زیادہ قریب ہوتاہے۔اور بعض مواقع پر عام معمول سے زیادہ سورج کے قریب ہوجاتا ہے،قرآن مجید نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے۔کہ چاند کو گرہن لگے گا،اس کے بعد ایسی پوزیشن پر آئے گا کہ سورج اور چاند ایک ہوجائیں گے۔کہکشاؤں میں ایسا ہوتا رہتاہے۔بڑے سیارے بے نور ہونے کے بعد ارد گرد کے نسبتاً چھوٹے سیاروں کو نگلنا شروع کردیتے ہیں۔قرآن کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے۔کہ گرہن کے موقع پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں جلدی سے نماز شروع کردیتے،یہ موقع قیامت کے قیام کے موقع سے بے حد مشابہت رکھتاہے۔یہ صرف اس حوالے سے خوف کا موقع نہیں کہ سائے کی پٹیاں رینگتی ہوئی لگتی ہیں بلکہ اس وجہ سے خوف کا سبب ہے کہ یہی کیفیت قیامت برپا ہونے کے وقت ہوگی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرہن شروع ہوتے ہی نماز کسوف شروع کرتے۔اس کی ادائیگی کا طریقہ بھی دوسری تمام نمازوں سے مختلف ہے۔امام مسلم ؒ نے اس کتاب میں جو احادیث بیان کیں ان میں نماز کسوف کا خاص طریقہ بھی ہے کہ اس میں سجود سے پہلے بار بار قیام اور رکوع ہوتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نمازوں کے ساتھ دعاؤں اور ذکر ونصیحت کو بھی شامل کیا،نماز کسوف کے دوران میں آپ کو ان امور غیبیہ کا مشاہدہ کرایاگیا جو ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔آپ نے اپنے اس مشاہدے سے بھی اُمت کو آگاہ کیا،گرہن کا مشہور ترین موقع اس دن تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ بات اچھی طرح سے واضح فرمائی کہ سورج اور چاند کو کسی کی موت کی بناء پر گرہن نہیں لگتا۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔قرآن مجید نے بھی وضاحت سے یہی بتایا ہے کہ رات دن اور سورج چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔"اور اسی (اللہ) کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند بھی ہیں۔"(حٰم السجدۃ۔41:37)إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ "بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے اختلاف میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔"(آل عمران۔190۔3)وَخَسَفَ الْقَمَرُ‌ ﴿٨﴾ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ‌ "اور چاند بے نور ہوجائے گا۔اور جمع کردیئے جائیں گے سورج اور چاند۔"(القیامۃ۔75: 9،8) انسانی زندگی کےساتھ ان کے تعلق پر غور کرنے والا اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہتا کہ خالق کائنات علیم حکیم بھی ہے۔اور قادر مطلق بھی۔اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں کے زریعے سے اپنے بندوں کے دلوں میں خوف پیدا فرماتا ہے۔جو انسان کے سیدھے راستے پر رہنے،اللہ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی سے بچنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔ غیر معمولی واقعہ ہونے کی وجہ سے قدیم زمانے میں انسان،گرہن کے معاملے میں بہت سے توہمات کا شکار رہا ہے۔یہ توہم بہت اہم رہا کہ کسی عظیم ہستی کی موت پر سورج یا چاند کو گرہن لگ جاتاہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 913
حدیث نمبر: 2121
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا ".
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر سنایا کرتے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یقیناً سورج اور چاند کو کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں، جب تم انھیں (اس طرح) دیکھو تو نماز پڑھو۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند کسی شحص کی موت و حیات کے سبب بے نور نہیں ہوتے۔ لیکن وہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں پس جب تم ان کر بے نور دیکھو تو نماز پڑھو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 914
حدیث نمبر: 2122
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُصْعَبٌ وَهُوَ ابْنُ الْمِقْدَامِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عِلَاقَةَ ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ زِيَادُ بْنُ عِلَاقَةَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ ، يَقُولُ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَادْعُوا اللَّهَ، وَصَلُّوا حَتَّى تَنْكَشِفَ ".
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا، اسی دن جب ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتاہے اور نہ کسی کی زندگی سے اس لئے جب تم ان کو (گرہن لگا) دیکھو تو اللہ کو پکارو اور نماز پڑھو یہاں تک کہ گرہن زائل ہوجائے۔"
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے سورج کو گہن لگ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شمس و قمر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، (جن کے گہن سے اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور اس کی سطوت و شوکت کا اظہار ہوتا ہے) ان کو نہ کسی کی موت سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی حیات کے سبب، پس جب تم ان کو (گہن لگا) دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور نماز پڑھو، حتی کہ وہ روشن ہو جائیں
ترقیم فوادعبدالباقی: 915