الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ
جنازے کے احکام و مسائل
6. باب الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ:
6. باب: میت پر رونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2134
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : لَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، قُلْتُ: غَرِيبٌ وَفِي أَرْضِ غُرْبَةٍ، لَأَبْكِيَنَّهُ بُكَاءً يُتَحَدَّثُ عَنْهُ، فَكُنْتُ قَدْ تَهَيَّأْتُ لِلْبُكَاءِ عَلَيْهِ، إِذْ أَقَبَلَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الصَّعِيدِ تُرِيدُ أَنْ تُسْعِدَنِي، فَاسْتَقْبَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " أَتُرِيدِينَ أَنْ تُدْخِلِي الشَّيْطَانَ بَيْتًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ " فَكَفَفْتُ عَنِ الْبُكَاءِ، فَلَمْ أَبْكِ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، میں نے (دل میں) کہا: پردیسی، پردیس میں (فوت ہوگیا) میں اس پر ایسا روؤں گی کہ اس کا خوب چرچا ہوگا، چنانچہ میں نے اس پر رونے کی تیاری کرلی کہ اچانک بالائی علاقے سے ایک عورت آئی، وہ (رونے میں) میرا ساتھ دینا چاہتی تھی کہ اسے سامنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مل گئےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"کیا تم شیطان کو اس گھر میں (دوبارہ) داخل کرنا چاہتی ہو۔جہاں سے اللہ نے اس کو نکال دیا ہے؟" دوبار (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات کہے) تو میں ر ونے سے رک گئی اور نہ روئی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، جب ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات پا گئے، تو میں نے دل میں سوچا: پردیسی،پردیس میں فوت ہوگیا، میں اس پر اتنا روؤں گی کہ اس کا چرچا ہو گا، اس لیے میں نے اس پر رونے اور گریہ کرنے کی تیاری کرلی کہ اچانک مدینہ کے بالائی علاقے سے میرا ساتھ دینے اور مجھے مدد دینے کے لیے ایک عورت آئی، اور اسے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ چاہتی ہو کہ جس گھر سے اللہ تعالی نے شیطان کو نکال دیا ہے اس میں شیطان کو پھر سے داخل کر دو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو بار فرمایا، تو میں ر ونے سے رک گئی اور نہ روئی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 922
حدیث نمبر: 2135
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ إِحْدَى بَنَاتِهِ تَدْعُوهُ وَتُخْبِرُهُ، أَنَّ صَبِيًّا لَهَا أَوِ ابْنًا لَهَا فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ لِلرَّسُولِ: ارْجِعْ إِلَيْهَا، فَأَخْبِرْهَا أَنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَمُرْهَا فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ "، فَعَادَ الرَّسُولُ، فَقَالَ: إِنَّهَا قَدْ أَقْسَمَتْ لَتَأْتِيَنَّهَا، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَامَ مَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمْ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ كَأَنَّهَا فِي شَنَّةٍ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ ".
حماد بن زید نے عاصم احول سے، انھوں نے ابو عثمان نہدی سے اور انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ کی بیٹیوں میں سے ایک نے آپ کو بلاتے ہوئے اور اطلاع دیتے ہوئے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ اس کابچہ۔۔۔یااس کا بیٹا۔۔۔موت (کے عالم) میں ہے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیام لانے والےسے فرمایا: "ان کے پاس واپس جا کر ان کو بتاؤ کہ اللہ ہی کا ہے جو اس نے لے لیا اوراسی کا ہے۔جو اس نے دیا تھا اور اس کے ہاں ہر چیز کا وقت مقرر ہے، اور ان کو بتادو کہ وہ صبر کریں اور اجر وثواب کی طلب گار ہوں۔"پیام رساں دوبارہ آیا اور کہا: انھوں نے (آپ کو) قسم دی ہے کہ آپ ان کے پاس ضرور تشریف لائیں۔کہا: اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا، آپ کے سامنے بچے کو پیش کیا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑا ہواتھا، (جسم اس طرح مضطرب تھا) جیسے اس کی جان پرانے مشکیزے میں ہوتو آپ کی آنکھیں بہہ پڑیں، اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا؛"یہ رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں ہی پر رحم فرماتا ہے۔"
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں موجود تھے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سے ایک نے آپ کو بلانے کے لیے ہوئے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجااور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ ان کا بچہ یا بیٹا قریب المرگ ہے۔ (مر رہا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام بر سے فرمایا: ان سے پاس واپس جا کر ان کو بتاؤ کہ اللہ ہی کا ہے جو اس نے لیا اوراسی کا ہے۔ جو اس نے دیا ہے اور ہر چیز کا اس کے ہاں وقت مقرر ہے، اس لیے ان لیےان سن کہو صبر کریں اور ثواب کی نیت کریں پیغم بر دوبارہ آیا اور اس نے کہا، انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دی ہے کہ آپ ان کے پاس ضرور پہنچیں اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سعد ابن عبادہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہما بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بچہ پیش کیا گیا اور اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا، گویا وہ پرانی مشک میں ہے اور اس سے آواز پیدا ہورہی ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئےاس پر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یہ کیا ہے؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے جواب دیا یہ رحمت و شفقت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے اور اللہ بھی اپنے انہی بندوں پر رحم فرماتا ہے جو رحم دل اور مہربان ہوتے ہیں
ترقیم فوادعبدالباقی: 923
حدیث نمبر: 2136
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، جَمِيعًا، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّ حَدِيثَ حَمَّادٍ أَتَمُّ وَأَطْوَلُ.
ابن فضیل اور ابو معاویہ ہر ایک نے عاصم احول سے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کی مانند) حدیث بیان کی، البتہ حماد کی حدیث زیادہ مکمل اور زیادہ لمبی ہے۔
اور امام صاحب اپنے بعض دوسرے اساتذہ سے، مذکورہ سند سےہی مذکورہ بالاروایت بیان کرتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں حماد کی مذکورہ روایت،کامل اور طویل ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 923
حدیث نمبر: 2137
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ وَجَدَهُ فِي غَشِيَّةٍ، فَقَالَ: " أَقَدْ قَضَى "، قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا، فَقَالَ: " أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ، وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ، وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا، وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ، أَوْ يَرْحَمُ ".
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اپنی بیماری میں مبتلا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کےساتھ ان کی عیادت کے لئے ان کے پاس تشریف لے گئے۔جب آپ ان کے ہاں داخل ہوئے تو انھیں غشی کی حالت میں پایا، آپ نے پوچھا: "کیا انھوں نے اپنی مدت پوری کرلی (وفات پاگئے ہیں)؟"لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روپڑے، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھاتو انہوں نے بھی روناشروع کردیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم سنو گے نہیں کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے غم پر سزا نہیں دیتا بلکہ اس۔۔۔آپ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کیا۔۔۔کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم کرتا ہے۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ بیمار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عبدالرحمان بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی معیت میں ان کی عیادت کے لئے آئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس اندر تشریف لائے تو انہیں سخت تکلیف میں دیکھا، یا ینہیں گھر والوں کی بھیڑ میں دیکھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ختم ہو چکے ہیں؟ لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نہیں۔ ابھی فوت نہیں ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کی کیفیت دیکھ کر) رونے لگے، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو پڑے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم سن نہیں رہے؟ یعنی اچھی طرح سن لو، اللہ تعالی آنگھ کے آنسو اور دل کے رنج و غم پر تو سزا نہیں دیتا، لیکن اس کی (غلط روی پر، یعنی زبان سے نوحہ اور ماتم کرنے پر) سزا بھی دیتا ہے اور اس کے (اناللہ پڑھنے پر اور دعاء واستغفار کرنے پر) رحمت بھی فرماتا ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 924