الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
41. باب التَّحزِيرِ مِنَ الاِ غتِرَارِ بِزِينَةِ الدُّنيَا وَمَا يَبسُطُ مِنهَا
41. باب: دنیا کی کشادگی اور زینت پر مغرور مت ہو۔
حدیث نمبر: 2421
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: " لَا وَاللَّهِ مَا أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِلَّا مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟، فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: " كَيْفَ قُلْتَ "، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ أَوَ خَيْرٌ هُوَ، إِنَّ كُلَّ مَا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ خَاصِرَتَاهَا، اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ ثَلَطَتْ أَوْ بَالَتْ، ثُمَّ اجْتَرَّتْ فَعَادَتْ فَأَكَلَتْ، فَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ، فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
عیاض بن عبد اللہ بن سعد سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لو گوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: " نہیں اللہ کی قسم!لو گو!مجھے تمھا رے بارے کسی چیز کا ڈر نہیں سوائے دنیا کی اس زینت کے جو اللہ تعالیٰ تمھا رے لیے ظا ہر کرے گا۔ ایک آدمی کہنے لگا۔اے اللہ کے رسول!!کیا خیر شر کو لے آئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھڑی بھر خا مو ش رہے پھر فرمایا: " تم نے کس طرح کہا؟ اس نے کہا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے عرض کی تھی کیا خیر شر کو لا ئے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: " خیر خیر ہی کو لا تی ہے لیکن کیا وہ (دنیا کی زیب و زینت فی ذاتہ) خیر ہے؟ وہ سب کچھ جو بہا ر لگا تی ہے (جا نور کو) اُپھا رے سے ما رڈا لتا ہے یا مو ت کے قریب کر دیتا ہے ایسے سبزہ کھا نے والے جا نور کے سوا جس نے کھا یا اور جب اس کی کو کھیں بھر گئیں (وہ سیر ہو گیا) تو مزید کھا نے کے بجا ئے) اس نے سورج کا رخ کر لیا اور بیٹھ کر گو بر یا پیشاب کیا پھر جگا لی کی اور دوبارہ کھا یا تو (اسی طرح) جو انسا ن اس (مال) کے حق کے مطا بق مال لیتا ہے اس کے لیے اس میں بر کت دا ل دیا جا تی ہے اور جو انسان اس کے حق کے بغیر مال لیتا ہے وہ اس کی طرح ہے جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم! مجھے تمھارے بارے۔اے لوگو! دنیا کی زیب و زینت جو تمھیں حاصل ہو گی کے سوا اور کس چیز کا خطرہ یا خدشہ و اندیشہ نہیں ہے۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر، شر کا سبب بنے گا؟ (خیر کے نتیجہ میں شر پیدا ہو گا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ وقت کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے عرض کیا تھا کیا خیرکے سبب شر پیدا ہو سکتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: خیر، خیر ہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے لیکن کیا دنیا کی زیب و زینت اور اس کی بھجت و رونق خیر ہے جو سبزہ موسم بہارا گاتا ہے وہ اپھارے سے مارڈالتا ہے یا قریب المرگ کر دیتا ہے مگر سبزہ کھانے والا وہ جانور جو کھاتا ہے اور جب اس کی کوکھیں بھر جاتی ہیں (وہ سیر ہو جاتا ہے) وہ سورج کا رخ کرتا ہے اور بیٹھ کر گوبر اور پیشاب کرتا ہے پھر جگالی کرتا ہے اور ہضم کرنے کے بعد دوبارہ چرنے چگنے لگتا ہے تو جو انسان مال جائز طریقہ سے لیتا ہے اس کے لیے وہ برکت کا باعث بنتا ہےاور جو انسان مال ناجائز طریقہ سے حاصل کرتا ہے وہ اس انسان کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1052
حدیث نمبر: 2422
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا "، قَالُوا: وَمَا زَهْرَةُ الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " بَرَكَاتُ الْأَرْضِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ قَالَ: " لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ، فَإِنَّهَا تَأْكُلُ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، ثُمَّ اجْتَرَّتْ وَبَالَتْ وَثَلَطَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ، فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
زید بن اسلم نے عطا ء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت خدری رضی اللہ عنہ سے روا یت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر دنیا کی اس شادابی اور زینت سے ہے جو اللہ تعا لیٰ تمھا رے لیے ظا ہر کر ے گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی دنیا کی شادا بی اور زینت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: " زمین کی بر کا ت۔انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کو لے آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: " خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی وہ سب کچھ جو بہا ر اگا تی ہے وہ (زیادہ کھا نے کی وجہ سے ہو نے والی بد ہضمی کا سبب بن کر) مار دیتا ہے یا موت کے قریب کر دیتا ہے سوائے اس چارہ کھا نے والے جا نور کے جو کھا تا ہے یہاں تک کہ جب اس کی دونوں کو کھیں پھول جا تی ہیں (وہ سیر ہو جا تا ہے) تو وہ (مزید کھا نا چھوڑ کر) سورج کی طرف منہ کر لیتا ہے پھر جگا لی کرتا ہے پیشاب کرتا ہے گو بر کرتا ہے پھر لو ٹتا ہے اور کھاتا ہے بلا شبہ یہ ما ل شادا ب اور شیریں ہے جس نے اسے اس کے حق کے مطا بق لیا اور حق (کے مصرف) ہی میں خرچ کیا تو وہ (مال) بہت ہی معاون و مددد گا ر ہو گا اور جس نے اسے حق کے بغیر لیا وہ اس انسان کی طرح ہو گا جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ اور اندیشہ دنیا کی اس زینت اور تازگی کا ہے جو اللہ تعالیٰ تمھیں دے گا۔ صحابہ نے عرض کیا: دنیا کی رونق اور ترو تازگی سے کیا مراد ہے؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین کی برکات انھوں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کے لانے کا سبب بن جاتا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر، خیر ہی کے لانے کا سبب بنتا ہے۔ خیر، خیر ہی لاتا ہے۔ خیر، خیر کا ہی پیش خیمہ ہے۔ جو سبزہ اور نباتات موسم بہار اگاتا ہے وہ قتل کر دیتا ہے یا قریب الموت کر دیتا ہے مگر وہ چرنے والا جانور جو چرتا چگتا ہے جب اس کی دونوں کوکھیں پھول جاتی ہیں (وہ سیر ہو جاتا ہے (وہ سیر ہو جاتا ہے) وہ سورج کا رخ کر کے بیٹھ جاتا ہے پھر جگالی کرتا ہے اور بیٹھ کر گوبر اور پیشاب کرتا ہے پھر اٹھ کر دوبارہ کھانا شروع کر دیتا ہے یہ مال سرسبز و شاداب اور شریں ہے تو جو اسے جائز طریقہ سے لے گا اور جائز موقع و محل پر خرچ کرے گا تو وہ بہت ہی معاون و مددگار ہے اور اسے ناجائز طریقہ سے لے گا وہ اس انسان کی طرح ہے جو کھاتا ہے سیر نہیں ہوتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1052
حدیث نمبر: 2423
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتَوَائِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، فَقَالَ: " إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا "، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُكَلِّمُكَ؟، قَالَ: وَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ يَمْسَحُ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ، وَقَالَ: " إِنَّ هَذَا السَّائِلَ وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ "، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ فَإِنَّهَا أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ خَاصِرَتَاهَا، اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، ثُمَّ رَتَعَتْ وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ هُوَ، لِمَنْ أَعْطَى مِنْهُ الْمِسْكِينَ وَالْيَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلَ "، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَيَكُونُ عَلَيْهِ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
ہلال بن ابی میمونہ نے عطا ء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فر ما ہوئے اور ہم آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: " مجھے اپنے بعد تمھا رے بارے میں جس چیز کا خوف ہے وہ دنیا کی شادابی اور زینت ہے جس کے دروازے تم پر کھول دیے جا ئیں گے۔تو ایک آدمی نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!! کیا خیر شر کو لے آئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں (کچھ دیر) خا مو ش رہے اس سے کہا گیا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتے ہو (جبکہ) وہ تم سے بات نہیں کر رہے؟ کہا: اور ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی ہے پھر آپ پسینہ پو نچھتے ہو ئے اپنے معمول کی حا لت میں آگئے اور فرمایا: " یہ سا ئل کہاں سے آیا؟ گو یا آپ نے اس کی تحسین فر ما ئی۔۔۔پھر فرمایا: "واقعہ یہ ہے کہ خیر شر کو نہیں لا تی اور بلا شبہ مو سم بہار جو اگا تا ہے وہ (اپنی دفرت شادابی اور مرغوبیت کی بنا پر) مار دیتا ہے یا مو ت کے قریب کر دیتا ہے سوائے سبز دکھا نے والے اس حیوان کے جس نے کھا یا یہاں تک کہ جب اس کی کو کھیں بھرگئیں تو اس نے سورج کی آنکھ کی طرف منہ کر لیا (اور آرام سے بیٹھ کر کھا یا ہوا ہضم کیا) پھر لید کی، پیشاب کیا اس کے بعد (پھر سے) گھا س کھا ئی۔یقیناً یہ ما ل شاداب اور شریں ہے اور یہ اس مسلمان کا بہترین ساتھی ہے جس نے اس میں سے مسکین یتیم اور مسافر کو دیا۔۔۔یا الفا ظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما ئے۔۔۔اور حقیقت یہ ہے جو اسے اس کے حق کے بغیر لیتا ہے وہ اس آدمی کی طرح ہے جو کھا تا ہے اور سیر نہیں ہو تا اور قیامت کے دن وہ (مال) اس کے خلاف گواہ ہو گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مجھے اپنے بعد تمھا رے بارے میں جس چیز کا خطرہ اور خدشہ ہے وہ دنیا کی رونق و شادابی اور زینت ہے جو تمہارے لیے وافرکر دی جائے گی۔ تو ایک آدمی نے عرض کیا: کیا خیر ر لاتا ہے۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جواب دینے سے خاموش رہے۔ اسے کہا گیا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتا ہٰے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیری گفتگو کا جواب نہیں دیتے۔ اور ہم نے دیکھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتاری جا رہی ہے۔ آپ پسینہ پونچھتے ہوئے اپنے معمول کی حالت میں آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سائل (قابل قدر اور لائق تعریف ہے) گویا کہ آپ نے اس کی تحسین فرمائی۔ اور فرمایا: (واقعہ یہ ہے کہ خیر، شر کا سبب نہیں بنتا لیکن) مو سم ربیع جو چارہ اور کھاس اگاتا ہے (اس کا زیادہ استعمال) قتل کر دیتا ہے یا قریب الموت کر دیتا ہے مگر سبزہ کھانے والا وہ حیوان، جو کھاتا ہے، حتی کہ جب اس کی کوکھیں بھر جاتی ہیں تو وہ سورج کی ٹکیہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا ہے پھر گوبرلید اور پیشاب کرتا ہے (ہضم کرنے کےبعد) پھر دوبارہ چرتا چگتا ہے اور بلا سبہ یہ (دنیا کا) مال سر سبز و شاداب شریں ہے اور یہ کسلمان کا بہترین ساتھی ہے جس نے اس میں سے مسکین، یتیم اور مسافر کو دیتا ہے (یا جو الفا ظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے) اور حقیقت یہ ہے جو اس کو ناحق طور پر لیتا ہے وہ اس انسان کی طرح جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا اور وہ قیامت کے دن وہ اس کے خلاف گواہ بنے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1052