الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ
روزوں کے احکام و مسائل
35. باب النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ يُفْطِرِ الْعِيدَيْنِ وَالتَّشْرِيقَ وَبَيَانِ تَفْضِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ:
35. باب: صوم دھر یہاں تک کہ عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنے کی ممانعت اور صوم داؤدی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن روزہ نہ رکھنے کی فضلیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2729
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ يَقُولُ: لَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ وَلَأَصُومَنَّ النَّهَارَ مَا عِشْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آنْتَ الَّذِي تَقُولُ ذَلِكَ؟ "، فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ قُلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَصُمْ وَأَفْطِرْ وَنَمْ وَقُمْ وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَذَلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ "، قَالَ قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ "، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا وَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَعْدَلُ الصِّيَامِ "، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍ وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ الثَّلَاثَةَ الْأَيَّامَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي ".
ابن شہاب نے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ وہ (عبداللہ) کہتاہے: میں جب تک زندہ ہوں (مسلسل) رات کا قیام کروں گا اور دن کا روزہ رکھوں گا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ہی ہو جو یہ باتیں کرتے ہو؟"میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !واقعی میں نے ہی یہ کہا ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم یہ کام نہیں کرسکو گے، لہذا روزہ رکھو اور روزہ ترک بھی کرو۔نیند بھی کرو اور قیام بھی کرو، مہینے میں تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی (کا اجر) دس گنا ہے۔اس طرح یہ سارے وقت کے روزوں کی طرح ہے۔"میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دن روزہ رکھو اور دو دن نہ رکھو۔"کہا: "میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دن روزہ رکھو اورایک دن نہ رکھو۔"یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔اور یہ روزوں کا سب سے منصفانہ (طریقہ) ہے۔"کہا: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے افضل کوئی صورت نہیں۔" عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بات مجھے اپنے اہل وعیال سے بھی زیاد عزیز ہے کہ میں (مہینے میں) تین دنوں کی بات تسلیم کرلیتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے بارے میں یہ اطلاع دی گئی کہ وہ کہتا ہے میں زندگی بھر رات کو قیام کروں گا اور دن کو روزہ رکھوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو ہی ہے جو یہ باتیں کرتا ہے؟ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! واقعی میں نے یہ باتیں کہی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یہ کام نہیں کر سکو گے۔ اس لیے روزہ رکھو بھی اور افطار بھی کرو، نیند بھی کرو اور قیام بھی اور ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی کا درجہ کم از کم دس (10) گنا ہے اس طرح یہ روزے ہمیشہ ہمیشہ کے برابر ہو جائیں گے۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو۔ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس سے زیادہ اور بہتر کی طاقت رکھتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن نہ رکھو یہ داؤدی روزہ ہے اور یہ بہترین روزے ہیں۔ میں نے کہا: میں اس سے بہتر کی طاقت رکھتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اگر میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی تین دن کی بات تسلیم کر لیتا تو یہ میرے لیے میرے اہل و مال سے زیادہ پیاری ہوتی (کیونکہ بڑھاپا، کمزوری میں ان کے لیے اپنی بات کی پابندی وقت اور مشقت کا باعث بنی رہی تھی)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2730
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ الرُّومِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَتَّى نَأْتِيَ أَبَا سَلَمَةَ ، فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِ رَسُولًا فَخَرَجَ عَلَيْنَا، وَإِذَا عِنْدَ بَابِ دَارِهِ مَسْجِدٌ، قَالَ: فَكُنَّا فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: إِنْ تَشَاءُوا أَنْ تَدْخُلُوا وَإِنْ تَشَاءُوا أَنْ تَقْعُدُوا هَا هُنَا، قَالَ: فَقُلْنَا: لَا بَلْ نَقْعُدُ هَا هُنَا، فَحَدِّثْنَا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنْتُ أَصُومُ الدَّهْرَ وَأَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ، قَالَ: فَإِمَّا ذُكِرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ لِي: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ الدَّهْرَ وَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ "، فَقُلْتُ: بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَلَمْ أُرِدْ بِذَلِكَ إِلَّا الْخَيْرَ، قَالَ: " فَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ "، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ كَانَ أَعْبَدَ النَّاسِ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَمَا صَوْمُ دَاوُدَ؟، قَالَ: " كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا "، قَالَ: " وَاقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عِشْرِينَ "، قَالَ " قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عَشْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، قَالَ: فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ، قَالَ: وَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكَ لَا تَدْرِي لَعَلَّكَ يَطُولُ بِكَ عُمْرٌ "، قَالَ فَصِرْتُ إِلَى الَّذِي، قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَمَّا كَبِرْتُ وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ قَبِلْتُ رُخْصَةَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عکرمہ بن عمار نے کہا: ہمیں یحییٰ نے حدیث سنائی کہا: میں اور عبداللہ بن یزید حضرت ابو سلمہ کے پاس حاضری کے لیے (اپنے گھروں سے) روانہ ہوئے۔ہم نے ایک پیغام لے جانے والا آدمی ان کے پاس بھیجا تو وہ بھی ہمارے لئے باہر نکل آئے۔وہاں ان کے گھر کے دروازے کے پاس ایک مسجد تھی، کہا: ہم مسجد میں رہے یہاں تک کہ وہ بھی ہمارے پاس آگئے۔انھوں نے کہا: اگر تم چاہو تو (گھر میں) داخل ہوجاؤ۔ اور اگر چاہو تو یہیں (مسجد میں) بیٹھ جاؤ۔کہا: ہم نے کہا: نہیں، ہم یہیں بیٹھیں گے، آپ ہمیں احادیث سنائیں۔انھوں نے کہا: مجھے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: میں مسلسل روزے رکھتا تھا اور ہر رات (قیام میں پورے) قرآن کی قراءت کرتاتھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میرا ذکر کیا گیا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیغام بھیجا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا مجھے نہیں بتایا گیا کہ تم ہمیشہ (ہرروز) روزہ رکھتے ہو اور ہر رات (پورا) قرآن پڑھتے ہو؟"میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں نہیں (یہ بات درست ہے) اور ایسا کرنے میں میرے پیش نظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو۔"میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے، " (آخر میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزوں کی طرح روزے رکھو وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔"کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !داود علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔"فرمایا: "قرآن کی قراءت ایک ماہ میں (مکمل کیا) کرو۔"کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا۔اسے ہر بیس دن میں پڑھ لیاکرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا۔اسے ہر دس دن میں پڑھ لیاکرو۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا۔اسے ہر سات دن میں پڑھ لیاکرو۔اس سے زیادہ نہ کرو تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے، تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے، اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے، "کہا: میں نے (اپنے اوپر) سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی۔اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "تم نہیں جانتے شاید تمھاری عمر طویل ہو۔" کہا: میں اسی کی طرف آگیا جو مجھے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا، جب میں بوڑھا ہوگیا تو میں نے پسند کیا (اور تمنا کی) کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کرلی ہوتی۔
یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں اور عبداللہ بن یزید دونوں ابوسلمہ کے پاس گئے اور ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور وہ گھر سے نکلے اور ان کے دروازہ پر ایک مسجد تھی کہ جب وہ نکلے تو ہم سب مسجد میں تھے اور انہوں نے کہا: چاہو گھر چلو، چاہو یہاں بیٹھو، ہم نے کہا: یہیں بیٹھیں گے اور آپ ہم سے حدیثیں بیان فرمائیے، انہوں نے کہا: روایت کی مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اور ہر شب قرآن پڑھتا تھا (یعنی ساری رات) اور کہا: یا تو میرا ذکر آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلا بھیجا غرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کو کیا خبر نہیں لگی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات قرآن پڑھتے ہو۔ میں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! اور میں اسے بھلائی چاہتا ہوں (یعنی ریا و سمعہ مقصود نہیں) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کو اتنا کافی ہے کہ ہر ماہ میں تین دن روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا: اے نبی اللہ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری بی بی کا حق ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے تم پر تو اس لیے تم داؤد علیہ السلام کا روزہ اختیار کرو جو نبی تھے اللہ تعالیٰ کے اور سب لوگوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن ہر ماہ میں ایک بار ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیس روز میں ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس روز میں ختم کرو۔ میں نے عرض کی: اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات روز میں ختم کیا کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو (اس لیے کہ اس سے کم میں تدبر اور تفکر قرآن ممکن نہیں) اس لیے کہ تمہاری بی بی کا حق بھی ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے بدن کا حق ہے تم پر۔ کہا: پس میں نے تشدد کیا سو میرے اوپر تشدد ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم نہیں جانتے شاہد تمہار ی عمر دراز ہو۔ (تو اتنا بار تم پر گراں ہو گا اور امور دین میں خلل آئے گا سبحان اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور انجام بینی تھی اور آخر وہی ہوا) کہا عبداللہ نے پھر میں اسی حال کو پہنچا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے ذکر کیا تھا اور جب میں بوڑھا ہوا تو آرزو کی میں نے کہ کاش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2731
وَحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ فِيهِ بَعْدَ قَوْلِهِ " مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا فَذَلِكَ الدَّهْرُ كُلُّهُ "، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ، قُلْتُ: وَمَا صَوْمُ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ؟، قَالَ: " نِصْفُ الدَّهْرِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ شَيْئًا وَلَمْ يَقُلْ: " وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، وَلَكِنْ قَالَ: " وَإِنَّ لِوَلَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ".
حسین المعلم نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے مانند) حدیث سنائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: "ہر مہینے میں تین دن"کے بعد یہ الفاظ زائد بیان کیے: "تمھارے لئے ہر نیکی کے بدلے میں اس جیسی دس (نیکیاں) ہیں۔، تو یہ سارے سال کے (روزے) ہیں۔" اور (اس) حدیث میں کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے نبی داود علیہ السلام کا روزہ کیاتھا؟فرمایا: "آدھا سال۔"اورانھوں نے حدیث میں قرآن پڑھنے کے حوالے سے کچھ بیان نہیں کیا اور انھوں نے؛"تمھارے مہمانوں کا تم پر حق ہے" کے الفاظ بیا ن نہیں کیے، اس کی بجائے انھوں نے کہا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "اور تمھاری اولاد کا تم پرحق ہے۔"
یہی حدیث مجھے زہیر بن حرب نے یحییٰ ہی کی سند سے سنائی: اس میں ہر ماہ تین روزے کیا کرو کہ بعد یہ اضافہ ہے۔ کیونکہ تجھے ہر نیک کام کا دس گنا اجر ملے گا۔ اس طرح ہمیشہ ہمیشہ کے روزے ہو گئے اور اس حدیث میں یہ بھی ہے میں نے کہا: نبی اللہ داؤد علیہ السلام کے روزے کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نصف الدہر حدیث میں قرآن پڑھنے کا ذکر تک نہیں ہے اور نہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ پر تیرے مہمانوں کا حق ہے۔ لیکن یہ فرمایا: تجھ پر تیری اولاد کا حق ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2732
حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْبَانَ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى بَنِي زُهْرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: وَأَحْسَبُنِي قَدْ سَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي عِشْرِينَ لَيْلَةً "، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ " فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ ".
شیبان نے یحییٰ سے، انہوں نے بنو زہرہ کے مولیٰ محمد بن عبدالرحمان سے، انھوں نے ابو سلمہ سے روایت کی۔ (یحییٰ نے کہا:) میرا اپنے بارے میں خیال ہے کہ میں نے خود بھی یہ حدیث ابو سلمہ سے سنی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "قرآن مجید کی تلاوت مہینے میں (مکمل) کیاکرو۔"میں نے عرض کی: میں (اس سے زیادہ کی) قوت پاتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیس راتوں میں پڑھ لیا کرو۔"میں نے عرض کی: میں (اس سے زیادہ کی) قوت پاتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سات دنوں میں پڑھ لیا کرو۔" اور اس سے زیادہ (قراءت) مت کرنا۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید ہر ماہ ختم کرو۔ میں نے عرض کیا مجھ میں (اس سے زیادہ کی) قوت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیس رات میں پڑھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا: مجھ میں قوت ہے۔ آپ نے فرمایا: ہر سات دن میں ختم کرو۔ اس پر اضافہ نہ کرنا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2733
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ قِرَاءَةً، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ لَا تَكُنْ بِمِثْلِ فُلَانٍ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ ".
اوزاعی نے کہا: مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے (عمر) بن حکم بن ثوبان سے حدیث سنائی، کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے عبداللہ!فلاں شخص کی طرح نہ ہوجانا وہ رات کوقیام کرتاتھا، پھر اس نے رات کا قیام ترک کردیا۔"
حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے عبد اللہ! فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا وہ رات کو قیام کرتا تھا پھر اس نے رات کا قیام چھوڑدیا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2734
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يَزْعُمُ، أَنَّ أَبَا الْعَبَّاسِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَصُومُ أَسْرُدُ وَأُصَلِّي اللَّيْلَ فَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ وَإِمَّا لَقِيتُهُ، فَقَالَ: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ وَلَا تُفْطِرُ، وَتُصَلِّي اللَّيْلَ فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ حَظًّا، وَلِنَفْسِكَ حَظًّا، وَلِأَهْلِكَ حَظًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ، وَصُمْ مِنْ كُلِّ عَشْرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَلَكَ أَجْرُ تِسْعَةٍ "، قَالَ: إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: " فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: وَكَيْفَ كَانَ دَاوُدُ يَصُومُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟، قَالَ: " كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى "، قَالَ: مَنْ لِي بِهَذِهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟، قَالَ: " عَطَاءٌ "، فَلَا أَدْرِي كَيْفَ ذَكَرَ صِيَامَ الْأَبَدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ "،
عبدالرزاق نے کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا: میں نے عطاء سے سنا وہ کہتے تھے کہ ابو عباس نے ان کوخبر دی کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ میں روزے رکھتا ہوں، لگاتار رکھتا ہوں اور رات بھر قیام کرتاہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیغام بھیجا یا میری آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا مجھے نہیں بتایا گیا کہ تم روزے رکھتے ہواور (کوئی روزہ) نہیں چھوڑتے اور رات بھر نماز پڑھتے ہو؟تم ایسا نہ کرو کیونکہ (تمھارے وقت میں سے) تمھاری آنکھ کا بھی حصہ ہے۔ (کہ وہ نیند کے دوران میں آرام کرے) اور تمھاری جان کا بھی حصہ ہے۔اور تمھارے گھر والوں کا بھی حصہ ہے۔لہذا تم روزے رکھو بھی اور ترک بھی کرو، نماز پڑو آرام بھی کرو، اور ہردس دن میں سے ایک دن کاروزہ رکھو اور تمھیں (باقی) نو دنوں کا (بھی) اجر ملے گا۔"کہا: اے اللہ کے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں خود کو اس سے زیادہ طاقت رکھنے والا پاتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "توپھر داودعلیہ السلام کے سے روزے رکھو۔"کہا: اے اللہ کے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )!داودعلیہ السلام کے روزے کس طرح تھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے ایک دن افطار کرتے تھے اورجب (دشمن سے) آمنا سامنا ہوتا تو بھاگتے نہیں تھے۔"کہا: اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اس کی ضمانت کون دےگا (کہ میری زندگی کا ہردن روزے سے شمار ہوگا؟) عطاء نے کہا: میں نہیں جانتا کہ انھوں نے ہمیشہ روزہ رکھنے کا ذکر کس طرح کیا۔تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نے روزہ نہیں رکھا جس نے (وقفے کے بغیر) ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے روزہ نہیں رکھا جس نے ہمیشہ روزہ رکھا۔" اس نے روزہ نہیں رکھا جس نے ہمیشہ روزہ رکھا۔"
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور رات بھر قیام کرتا ہوں یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، یا میں خود آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ تم روزے رکھتے ہو۔ ناغہ نہیں کرتے ہو؟ اور رات بھر نماز پڑھتے ہو؟ ایسے نہ کرو کیونکہ تیری آنکھ کا بھی حق (حصہ) ہے اور تیرے نفس کا حق (حصہ) ہے اور تیرے اہل (بیوی بچے) کا حق (حصہ) ہے لہٰذا روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو نماز بھی پڑھو اور سوؤ بھی اور ہر دس دن میں ایک دن روزہ رکھو اور باقی نو کا تجھے ثواب مل جائے گا۔ میں نے عرض کیا: میں اپنے اندر اس سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: داؤدی روزے رکھ لیا کرو۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: داؤدی روزے کس طرح تھے؟ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن چھوڑتے تھے اور لڑائی میں بھاگتے نہیں تھے۔ عبد اللہ نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس کی ضمانت کون دے سکتا ہے؟ کہ میں لڑائی میں بھاگوں گا نہیں۔ عطاء کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں صیام دہر کا (ہمیشہ ہمیشہ کا روزہ) ذکر کیسے ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ نہیں رکھا (کیونکہ عادت بن جانے کی بنا پر روزہ کا احساس اور اثر ختم ہو جائے گا) جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ نہیں رکھا، جس نے ہر دن روزہ رکھا اس نے روزہ نہیں رکھا (کیونکہ روزے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2735
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: إِنَّ أَبَا الْعَبَّاسِ الشَّاعِرَ أَخْبَرَهُ، قَالَ مُسْلِم: أَبُو الْعَبَّاسِ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ ثِقَةٌ عَدْلٌ.
محمد بن بکر نے ہم سے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ابن جریج نے اسی سند سے (سابقہ حدیث کے مانند) حدیث سنائی اور کہا کہ ابو عباس الشاعر نے ان کوخبر دی۔ امام مسلم ؒ نے کہا: ابو عباس سائب بن فروخ اہل مکہ سے ہیں، ثقہ اورعدول ہیں۔
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے ابن جریج ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں اس میں عطاء کہتے ہیں ابو العباس الشاعر نے خبر دی ہے امام مسلم فرماتے ہیں ابو العباس السائب بن فروغ مکہ کا باشندہ ثقہ اور عادل ہے (عام شاعروں کی طرح غیر معتبر نہیں ہے)-
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2736
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، سَمِعَ أَبَا الْعَبَّاسِ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، إِنَّكَ لَتَصُومُ الدَّهْرَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ، وَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ الْعَيْنُ، وَنَهَكَتْ لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ صَوْمُ الشَّهْرِ كُلِّهِ "، قُلْتُ فَإِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى "،
شعبہ نے ہمیں حبیب سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے ابو عباس (سائب بن فروخ) سے سنا، انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے سنا، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے عبداللہ بن عمرو!تم ہمیشہ (بلاوقفہ روازانہ) روزے رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو اور جب تم ایسا ہی کرو گے تو (ایسا کرنے والے کی) آنکھیں اندر دھنس جائیں گی اور (جا گ جاگ کر) کمزور ہوجائیں گی، (اور جہاں تک اجر کا تعلق ہے تو) جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے روزہ نہ رکھا، مہینے میں سے تیس دن کے روزے پورے مہینے کے روزے (متصور) ہوں گے۔"میں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ (روزے رکھنے) کی طاقت رکھتاہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم داود علیہ السلام کے روزے کی طرح روزے رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ترک کرتے تھے اور (دشمن سے) آمنے سامنے کے وقت بھاگتے نہیں تھے۔"
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد اللہ بن عمرو! تم روزانہ روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو اور تم جب ایسا کرتے رہو گے تو تمھاری آنکھیں اندر دھنس جائیں گی اور کمزور ہو جائیں گی جس نے ہر دن روزہ رکھا اس نے روزہ نہیں رکھا ہر ماہ تین روزہ رکھنا پورے ماہ کے روزے رکھنا ہے میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو داؤدی روزے رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن چھوڑتے تھے اور مقابلہ کے وقت بھاگتے نہیں تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2737
وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: " وَنَفِهَتِ النَّفْسُ ".
مسعر سے روایت ہے، کہا:) ہمیں حبیب بن ابی ثابت نے اسی سند کےساتھ (سابقہ حدیث کے مانند) حدیث سنائی اور کہا: "اور (ہمیشہ روزے رکھنے والے کی) جان درماندہ ہوجائے گی۔"
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں اس میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارا نفس تھک ہار جائے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2738
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ "، قُلْتُ: إِنِّي أَفْعَلُ ذَلِكَ، قَالَ: " فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ عَيْنَاكَ، وَنَفِهَتْ نَفْسُكَ، لِعَيْنِكَ حَقٌّ، وَلِنَفْسِكَ حَقٌّ، وَلِأَهْلِكَ حَقٌّ، قُمْ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ ".
سفیان بن عینیہ نے عمر و سے، انھوں نے ابوعباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سےروایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: "کیا مجھے خبر نہیں دی گئی کہ تم رات بھر قیام کرتے ہو اور (روزانہ) دن کا روزہ رکھتے ہو؟"میں نے عرض کی: میں یہ کام کرتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم یہ کام کرو گے تو (اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ) تمھاری آنکھیں اندر کو دھنس جائیں گی۔اور تمھاری جان کمزورہوجائے گی۔تم پر تمھاری آنکھ کا حق ہے۔تمھاری اپنی ذات کا حق ہے۔اور تمھارے گھر والوں کاحق ہے۔قیام کرو اورنیند بھی لو، روزہ رکھو بھی اور روزہ چھوڑو بھی۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا مجھے اطلاع نہیں ملی کہ رات قیام کرتے ہو اور ہر دن روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں یہ کام کرتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم یہ کام کرتے رہو گے تیری آنکھیں اندر دھنس جائیں گی اور تیرا نفس عاجز آ جائے گا تیری آنکھ کا حق ہے تیرے نفس کا حق ہے اور تیرے گھر والوں کا حق ہے قیام کرو نیند کرو، روزہ رکھو اور افطار کرو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2739
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحَبَّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، وَأَحَبَّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَيَقُومُ ثُلُثَهُ، وَيَنَامُ سُدُسَهُ، وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا ".
ہمیں سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے حدیث بیان کی، انھوں نے عمرو بن اوس سے اور انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ (نفلی) روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ (نفلی) نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے۔وہ آدھی رات تک سوتے تھے اور اس کا ایک تہائی قیام کرتے تھے اور اس کے (آخری) چھٹےحصے میں سوجاتے تھے۔اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اورایک دن افطارکرتے (روزہ نہ رکھتے) تھے۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب روزوں سے زیادہ پسند داؤدی روزے ہیں اور سب نفلی نمازوں سے داؤد علیہ السلام کی نماز پسند ہے وہ آدھی رات تک سوتے پھر تہائی رات قیام کرتے اور آخری چھٹے حصہ میں سو جاتے (گویا رات کا صرف تہائی حصہ قیام کرتے اور رات کے اول اور آخر میں نیند کرتے تھے) اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2740
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ نِصْفَ الدَّهْرِ، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَرْقُدُ شَطْرَ اللَّيْلِ، ثُمَّ يَقُومُ ثُمَّ يَرْقُدُ آخِرَهُ، يَقُومُ ثُلُثَ اللَّيْلِ بَعْدَ شَطْرِهِ "، قَالَ: قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: أَعَمْرُو بْنُ أَوْسٍ كَانَ يَقُولُ يَقُومُ ثُلُثَ اللَّيْلِ بَعْدَ شَطْرِهِ؟، قَالَ: نَعَمْ.
ہمیں ابن جریج نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی کہ ان کو عمرو بن اوس نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے (یہ) خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں۔ وہ آدھا زمانہ روزے رکھتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے، وہ آدھی رات تک سوتے تھے پھر قیام کرتے تھے، پھر اس کے آخری حصے میں سوجاتے تھے، وہ آدھی رات کے بعدرات کا ایک تہائی حصہ قیام کرتے تھے۔" حدیث نمبر۔میں (ابن جریج) نے عمرو بن دینارسے پوچھا: کیا عمرو بن اوس یہ کہتے تھے: "وہ آدھی رات کے بعد رات کاتہائی حصہ قیام کرتے تھے؟"انھوں نے جواب دیا: ہاں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب روزوں سے زیادہ پسند روزے داؤد علیہ السسلام ہیں۔ وہ نصف الدہر (ایک دن روزہ ایک دن ناغہ) روزے رکھتے تھے اور اللہ کو سب نمازوں سے زیادہ (رات کی نماز) داؤد علیہ السلام کی نماز پسند ہے وہ آدھی رات تک سوتے پھر (تہائی رات) قیام کرتے پھر آخر میں سو جاتے آدھی رات کے بعد تہائی رات قیام کرتے تھے۔ ابن جریج کہتے ہیں میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا: کیا عمرو بن اوس یہ کہتے تھے کہ وہ آدھی رات کے بعد تہائی رات قیام کرتے تھے اس نے جواب دیا ہاں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2741
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الْمَلِيحِ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِيكَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَحَدَّثَنَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذُكِرَ لَهُ صَوْمِي فَدَخَلَ عَلَيَّ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَجَلَسَ عَلَى الْأَرْضِ وَصَارَتِ الْوِسَادَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَقَالَ لِي: " أَمَا يَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ؟ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " خَمْسًا ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " سَبْعًا ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " تِسْعًا "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " أَحَدَ عَشَرَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَوْمَ فَوْقَ صَوْمِ دَاوُدَ، شَطْرُ الدَّهْرِ، صِيَامُ يَوْمٍ وَإِفْطَارُ يَوْمٍ ".
ابو قلابہ (بن زید بن عامر الجرمی البصری) نے کہا: مجھے ابوملیح نے خبر دی، کہا: میں تمھارے والد کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو انھوں نے ہمیں حدیث سنائی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میرے روزوں کاذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چمڑے کاایک تکیہ رکھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور تکہہ میرے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: "کیا تمھیں ہر مہینے میں سے تین دن (کے روزے) کافی نہیں؟"میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ۔" میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات۔" میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نو۔" میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گیارہ۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: داود علیہ السلام کے روزوں سے بڑھ کر کوئی ر وزے نہیں ہیں، آدھا زمانہ، ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا۔"
ابو قلابہ بیان کرتے ہیں مجھے ابو المسیح نے بتایا کہ میں تیرے باپ کے ساتھ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا تو اس نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میرے روزوں کا ذکر کیا گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک تکیہ پیش کیا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم زمین پر فروکش ہو گئے اور تکیہ میرے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: کیا تجھے ہر ماہ تین روزے کفایت نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! (یہ کافی نہیں ہیں) آپ نے فرمایا: پانچ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گیارہمیں نے عرض کیا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: داؤدی روزوں سے اوپر کوئی روزہ نہیں، آدھا زمانہ، ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2742
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ فَيَّاضٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عِيَاضٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " صُمْ يَوْمًا وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ يَوْمَيْنِ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ أَرْبَعَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ أَفْضَلَ الصِّيَامِ عِنْدَ اللَّهِ، صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا ".
زیاد بن فیاض سے روایت ہے، کہا: میں نے ابو عیاض سے سنا، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے رویت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا: "ایک دن کاروزہ رکھو اور تمھارے لئے ان (دنوں) کا اجر ہے جوباقی ہیں۔کہا: میں اس سےزیادہ طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دودن روزے رکھو اور تمہارے لئے ان (دنوں) کا اجر ہے جو باقی ہیں۔ کہا: میں اس سےزیادہ طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین دن روزے رکھو اور تمہارے لئے ان (دنوں) کا اجر ہے جو باقی ہیں۔ کہا: میں اس سےزیادہ طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چاردن روزے رکھو اور تمہارے لئے ان (دنوں) کا اجر ہے جو باقی ہیں۔ کہا: میں اس سےزیادہ طاقت رکھتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے روزے، یعنی داود علیہ السلام کے روزے کی طرح (روزے) رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور باقی کا تمھیں ثواب مل جائے گا۔ میں نے عرض کیا اب اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو دن روزے رکھو باقی (عشرے) کا تمھیں ثواب مل جائے گا۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن روزے رکھو باقی کا اجر تمھیں مل جائے گا۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ہاں بہترین روزے صوم داؤد ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159
حدیث نمبر: 2743
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ جميعا، عَنِ ابْنِ مَهْدِيٍّ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، بَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَلَا تَفْعَلْ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَلِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، صُمْ وَأَفْطِرْ، صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بِي قُوَّةً، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا "، فَكَانَ يَقُولُ: يَا لَيْتَنِي أَخَذْتُ بِالرُّخْصَةِ.
سعید بن میناء نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: عبداللہ بن عمرو عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے عبداللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم (روزانہ) دن کاروزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا مت کرو کیونکہ تم پرتمھارے جسم کا حصہ (ادا کرناضروری) ہے، تم پر تمھاری آنکھ کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) تم پر تمھاری بیوی کا حصہ (ادا کرنا ضروری ہے) روزے رکھو اور ترک بھی کرو، ہر مہینے میں سے تین دن کے روزے رکھ لیا کرو۔یہ سارے وقت کے روزوں (کے برابر) ہیں۔"میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے اندر (زیادہ روزے رکھنے کی) قوت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم داود علیہ السلام کے روزے کی طرح (روزے) رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔" وہ کہا کرتے تھے: کاش! میں نے رخصت کو قبول کیا ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد اللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو، کیونکہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے تیری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حصہ ہے روزہ رکھوبھی اور روزہ افطار بھی کرو، ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو تو یہ صوم الدہر ہو جائیں گے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے اندر قوت پاتا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو داؤد علیہ السلام کے روزے رکھو ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔ (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں) کہا کرتے تھے۔ اے کاش! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رخصت قبول کر لیتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1159