الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
17. باب بَيَانِ وُجُوهِ الإِحْرَامِ وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ:
17. باب: احرام کی اقسام کابیان، اور حج افراد، تمتع، اور قران تینوں جائز ہیں، اور حج کا عمرہ پر داخل کرنا جائز ہے، اور حج قارن والا اپنے حج سے کب حلال ہو جائے؟
حدیث نمبر: 2910
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا "، قَالَتْ: فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَدَعِي الْعُمْرَةَ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ، أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ: " هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ "، فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حَلُّوا، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى لِحَجِّهِمْ، وَأَمَّا الَّذِينَ كَانُوا جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا.
مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم حجۃالوداع کے سال (اس کی ادائیگی کے لیے) اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہو ئے اور ہم (میں سے کچھ) نے عمرے کے لیے (احرام باندھ کر) تلبیہ کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " قربانی کا جا نور جس کے ساتھ ہو وہ عمرے کے ساتھ ہی حج کا بھی تلبیہ پکا رے اور اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک دونوں (کے لیے عائد کردہ احرا م کی پابندیوں) سے آزاد نہ ہو جا ئے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب میں مکہ پہنچی تو ایا م مخصوصہ میں تھی میں نے حج کا طواف کیا اور نہ صفا مروہ کے درمیان سعی کی میں نے اس (صورت حال) کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: " اپنے سر کے بال کھولو اور کنگھی کرو (پھر) حج کا تلبیہ پکارنا شروع کردو اور عمرے کو چھوڑدو۔انھوں نے کہا: میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم نے حج ادا کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (میرے بھا ئی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا میں نے (وہاں سے احرا م باندھ کر) عمرہ کیا۔آپ نے فرمایا: " یہ (عمرہ) تمھا رے (اس رہ جا نے والے) عمرے کی جگہ ہے۔جن لوگوں نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا۔انھوں نے بیت اللہ اور صفامروہ کا طواف کیا اور پھر احرام کھول دیے۔پھر جب وہ لو گ (حج کے دورا ن میں) منیٰ سے لوٹے تو انھوں نے اپنے حج کے لیے دوسری بار طواف کیا البتہ وہ لوگ جنھوں نے حج اور عمرے کو جمع کیا تھا (حج قران کیا تھا) تو انھوں نے (صفامروہ کا) ایک ہی طواف کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم نے عمرے کا احرام باندھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس ہدی ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کے لیے بھی تلبیہ کہے، پھر وہ جب تک دونوں سے حلال نہ ہو جائے، اس وقت تک احرام نہ کھولے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں مکہ، حیض کی حالت میں پہنچی، اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی اور نہ ہی صفا و مروہ کی سعی کر سکی تو میں نے اس کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سر کے بال کھول دے اور کنگھی کر لے اور حج کا تلبیہ کہہ اور عمرہ کے افعال چھوڑ دے۔ تو میں نے ایسے ہی کیا، جب ہم حج سے فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مقام تنعیم بھیجا، میں نے عمرہ کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے عمرے کی جگہ ہے۔ تو جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، انہوں نے بیت اللہ، صفا اور مروہ کے چکر لگائے، پھر احرام کھول دیا، پھر جب وہ منیٰ سے واپس آئے تو انہوں نے اپنے حج کے لیے دوبارہ طواف کیا، لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا، انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2911
وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ، وَلَمْ يُهْدِ فَلْيَحْلِلْ، وَمَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَأَهْدَى، فَلَا يَحِلُّ حَتَّى يَنْحَرَ هَدْيَهُ، وَمَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ فَلْيُتِمَّ حَجَّهُ "، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَحِضْتُ فَلَمْ أَزَلْ حَائِضًا حَتَّى كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ وَلَمْ أُهْلِلْ إِلَّا بِعُمْرَةٍ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْ أَنْقُضَ رَأْسِي وَأَمْتَشِطَ، وَأُهِلَّ بِحَجٍّ وَأَتْرُكَ الْعُمْرَةَ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا قَضَيْتُ حَجَّتِي، بَعَثَ مَعِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَمِرَ مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي، الَّتِي أَدْرَكَنِي الْحَجُّ وَلَمْ أَحْلِلْ مِنْهَا ".
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے انھوں نے عروہ بن زبیر سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم حجۃالوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہم میں سے بعض نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا اور بعض نے (صرف) حج کے لیے حتیٰ کہ ہم مکہ پہنچ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا وہ قربانی نہیں لا یا۔ وہ احرا م کھو ل دے۔اور جس نے عمرے کا احرا م باندھا تھا اور ساتھ قربانی بھی لا یا ہے وہ جب تک قربانی ذبح نہ کر لے احرا م ختم نہ کرے۔اور جس نے صرف حج کے لیے تلبیہ کہا تھا وہ اپنا حج مکمل کرے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مجھے (راستے میں) ایام شروع ہو گئے۔میں عرفہ کے دن تک ایام ہی میں رہی اور میں نے صرف عمرے کے لیے تلبیہ پکا را تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے سر کے بال کھولوں لنگھی کروں اور حج کے لیے تلبیہ پکاروں اور عمرے (کے اعمال) چھوڑدوں تو میں نے یہی کیا۔ جب میں نے اپنا حج ادا کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ (میرے بھا ئی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ میں اس عمرے کی جگہ عمرہ کرلوں جسے حج کا دن آجا نے کی بنا پر مکمل کر کے میں اس کاا حرا م نہ کھول پا ئی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم میں سے بعض نے عمرہ کا تلبیہ کہا اور کسی نے حج کا، حتی کہ ہم مکہ پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور اس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ حلال ہو جائے، (تحلیق و تقصیر کر لے) اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی ساتھ لایا ہے تو وہ اس وقت تک احرام نہ کھولے، جب تک ہدی نحر نہ کر لے اور جس نے صرف حج کا احرام باندھا ہے، وہ اپنا حج پورا کر لے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے حیض آنے لگا اور میں عرفہ کے دن تک حائضہ ہی رہی اور میں نے عمرہ کا ہی تلبیہ کہا تھا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں سر کے بال کھول لوں اور کنگھی کر لوں اور حج کا تلبیہ کہوں اور افعال عمرہ چھوڑ دوں تو میں نے ایسے ہی کیا، حتی کہ جب میں اپنے حج سے فارغ ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے عمرہ کی جگہ، تنعیم سے عمرہ کر لوں، جس سے میں حج کا دن آنے تک حلال نہیں ہو سکی تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2912
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ وَلَمْ أَكُنْ سُقْتُ الْهَدْيَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهْلِلْ بِالْحَجِّ مَعَ عُمْرَتِهِ، ثُمَّ لَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا "، قَالَتْ: فَحِضْتُ فَلَمَّا دَخَلَتْ لَيْلَةُ عَرَفَةَ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنِّي كُنْتُ أَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، فَكَيْفَ أَصْنَعُ بِحَجَّتِي؟، قَالَ: " انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَمْسِكِي عَنِ الْعُمْرَةِ وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ "، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَيْتُ حَجَّتِي أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْدَفَنِي، فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي أَمْسَكْتُ عَنْهَا.
معمر نے زہری سے انھوں نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا حجۃ الوداع کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے سفر کے لیے) نکلے۔میں نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا لیکن (اپنے) ساتھ قر بانی نہیں لا ئی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس کے ساتھ قربانی کے جا نور ہوں وہ اپنے عمرے کے ساتھ حج کا تلبیہ پکا رے اور اس وقت تک احرا م نہ کھو لے جب تک ان دونوں سے فارغ نہ ہو جا ئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے ایا م شروع ہو گئے جب عرفہ کی رات آگئی میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!!میں نے تو عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا۔ اب میں اپنے حج کا کیا کروں؟آپ نے فرمایا: "اپنے سر کے بال کھو لو کنگھی کرو اور عمرے سے رک جا ؤ حج کے لیے تلبیہ پکا رو۔انھوں نے کہا: جب میں نے اپنا حج مکمل کر لیا (تو آپ نے میرے بھا ئی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انھوں نے مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا یا اور مقام تنعیم سے اس عمرے کی جگہ جس سے میں رک گئی تھی (دوسرا) عمرہ کروا دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، میں نے عمرہ کا احرام باندھا اور میں نے اپنے ساتھ ہدی نہیں لی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ ہدی ہے، وہ اپنے عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے، پھر وہ اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک دونوں سے حلال نہ ہو جائے۔ تو مجھے حیض شروع ہو گیا تو جب عرفہ کی رات آئی، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے تو عمرہ کا احرام باندھا تھا تو میں اپنے حج کے بارے میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سر کھول دے، کنگھی کر لے اور عمرہ کے افعال سے رک جا اور تلبیہ کہہ۔ تو جب میں اپنے حج سے فارغ ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حکم دیا، اس نے مجھے اپنے پیچھے سوار کر کے میرے اس عمرہ کی جگہ، جس کے ادا کرنے سے میں رک گئی تھی، مجھے تنعیم سے عمرہ کروایا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2913
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ "، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ، وَأَهَلَّ بِهِ نَاسٌ مَعَهُ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِالْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِعُمْرَةٍ، وَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ.
سفیان نے زہری سے انھوں نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر حج کے لیے) نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم میں سے جو اکٹھے عمرے اور حج کے لیے تلبیہ پکارنا چا ہے پکا رے۔جو (صرف) حج کے لیے تلبیہ پکارنا چا ہے پکارے اور جو (صرف) عمرے کے لیے پکا رنا چاہے وہ ایسا کر لے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لیے تلبیہ پکارا اور آپ کے ساتھ کئی لوگوں نے (اکیلے حج کے لیے) تلبیہ کہا کئی لوگوں نے عمرے اور حج (دونوں) کے لیے تلبیہ کہا اور کئی لوگوں نے صرف عمرے کے لیے کہا اور میں ان لوگوں میں شامل تھی جنھوں نے صرف عمرے کا تلبیہ کہا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو حج اور عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، ایسا کر لے اور جو صرف حج کا احرام باندھنا چاہے، وہ حج کا احرام باندھ لے اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، وہ اس کا احرام باندھ لے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور میں بھی ان لوگوں میں تھی، جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2914
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، مُوَافِينَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ، فَلَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ "، قَالَتْ: فَكَانَ مِنَ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا، أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ بِي إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَا صَوْمٌ،
عبدہ بن سلمیان نے ہشام سے انھوں نے اپنے والد (عرو) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا ہم حجۃ الوداع کے موقع پر ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے قریب قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم میں سے جو صرف عمرے کے لیے تلبیہ کہنا چا ہے کہے۔اگر یہ بات نہ ہو تی کہ میں قر بانی ساتھ لا یا ہوں تو میں بھی عمرے کا تلبیہ کہتا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنھوں نے صرف عمرے کا تلبیہ کہا اور کچھ ایسے تھے جنھوں نے صرف حج کا تلبیہ کہا اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنھوں نے صرف عمرے کا تلبیہ کہا۔ہم نکل پڑے حتی کہ مکہ آگئے میرے لیے عرفہ کا دن اس طرح آیا کہ میں ایا م میں تھی اور میں نے (ابھی) عمرے (کی تکمیل کر کے اس) کا احرا م کھو لا نہیں تھا میں نے اس (بات) کا شکوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اپنا عمرہ چھوڑدو اپنے سرکی مینڈھیاں کھول دو کنگھی کر لو اور حج کا تلبیہ کہنا شروع کر دو۔انھوں نے کہا: میں نے یہی کیا جب حصبہ کی رات آگئی اور اللہ تعا لیٰ نے ہمارا حج مکمل فر ما دیا تھا تو (آپ نے) میرے ساتھ (میرے بھا ئی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا انھوں نے نجھے ساتھ بٹھا یا اور مجھے لے کر تنعیم کی طرف نکل پڑے وہاں سے میں نے عمرے کا تلبیہ کہا۔اس طرح اللہ نے ہمارا حج پورا کرادیا اور عمرہ بھی۔ (ہشام نے کہا: اس (الگ عمرے) کے لیے نہ قر بانی کا کوئی جا نور (ساتھ لا یا گیا) تھا نہ صدقہ تھا اور نہ روزہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان میں سے کوئی کا م کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر ذوالحجہ کے چاند کے طلوع کے قریبی دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (راستہ میں) فرمایا: تم میں سے جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، وہ اس کا احرام باندھ لے، اگر میں قربانی ساتھ نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔ تو لوگوں میں سے کچھ نے عمرہ کا احرام باندھ لیا اور کچھ نے حج کا احرام باندھ لیا اور میں ان لوگوں میں سے تھی، جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا، ہم چلتے چلتے مکہ پہنچ گئے، مجھے عرفہ کا دن اس طرح آیا کہ میں حائضہ تھی اور میں نے عمرہ کا احرام نہیں کھولا تھا، میں نے اس کا شکوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ کے افعال چھوڑ دو اور اپنا سر کھول دو اور کنگھی کر لو حج کا تلبیہ کہو۔ میں نے ایسے ہی کیا، جب مَحْصَبْ کی رات آ گئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بھیجا، اس نے مجھے پیچھے سوار کر لیا اور مجھے لے کر تنعیم کی طرف نکل کھڑے ہوئے میں نے عمرہ کا احرام باندھا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج اور الگ عمرہ پورا کر دیا۔ (ہشام کہتے ہیں) اس الگ عمرہ کے لے ہدی، صدقہ یا روزہ کی ضرورت نہ پڑی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم 25 ذوالحجہ کو مدینے سے نکلے تھے۔)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2915
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُوَافِينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَبْدَةَ،
ابن نمیر نے ہشام سے سابقہ سند کے ساتھ روایت کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے قریب قریب (حج کے لیے) نکلے اور ہمارے پیش نظر صرف حج ہی تھا۔ (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم میں سے جو عمرے کا تلبیہ پکارنا چاہے وہ (اکیلے) عمرے کا تلبیہ پکا رے۔پھر عبد ہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم ذوالحجہ کے چاند کے قریب دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہمارا خیال صرف حج کرنے کا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو عمرہ کا احرام باندھنا پسند کرے تو وہ عمرہ کا احرام باندھ لے۔ آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2916
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَافِينَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، مِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، فَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمَا، وقَالَ فِيهِ: قَالَ عُرْوَةُ فِي ذَلِكَ: إِنَّهُ قَضَى اللَّهُ حَجَّهَا وَعُمْرَتَهَا، قَالَ هِشَامٌ: وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صِيَامٌ وَلَا صَدَقَةٌ.
وکیع نے ہشام سے سابقہ سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم ذوالحجہ کا چا ند نکلنے کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے مدینہ سے) نکلے ہم میں سے بعض نے عمرے کا تلبیہ پکارا بعض نے حج کا۔اور میں ان لوگوں میں شامل تھی جنھوں نے صرف عمرے کا تلبیہ پکارا تھا۔اور (وکیع نے) آگے ان دونوں (عبدہ اور ابن نمیر) کی طرح حدیث بیان کی۔ اور اس میں یہ کہا عروہ نے اس کے بارے میں کہا: بلا شبہ اللہ نے ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے) اس طرح عمرہ کرنے میں نہ کوئی قر بانی تھی نہ روزہ اور نہ صدقہ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم ذوالحجہ کے چاند کے نظر آنے کے قریبی دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہم میں سے کسی نے عمرہ کا احرام باندھا اور ہم میں سے کسی نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور ہم میں سے بعض نے صرف حج کا احرام باندھا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا، آگے مذکورہ بالا دونوں روایتوں کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے، عروہ نے اس کے بارے میں کہا، اللہ تعالیٰ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حج اور عمرہ دونوں مکمل کر دے اور ہشام کہتے ہیں، عمرہ کو حج میں داخل کرنے کی بنا پر قربانی یا روزے یا صدقہ لازم نہیں آیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2917
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَحَلَّ، وَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحِلُّوا، حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ ".
محمد بن عبد الرحمٰن بن نوفل نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم حجۃ الودع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ہممیں سے کچھ ایسے تھے جنھوں نے (صرف) عمرےکا تلبیہ کہا بعض نے حج اور عمرے دونوں کا اور بعض نے صرف حج کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ پکارا۔جس نے عمرے کا تلبیہ کہا تھا وہ تو (عمرے کی تکمیل کے بعد) حلال ہو گیا اور جنھوں نے صرف حج کا یا حج اور عمرے فونوں کا تلبیہ کہا تھا اور قربانی کے جا نور ساتھ لا ئے تھے وہ لوگ قربانی کا دن آنے تک احرا م کی پابندیوں سے آزاد نہیں ہو ئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم میں سے بعض کو عمرہ کا احرام تھا، بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور بعض نے صرف حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا، جن لوگوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا، وہ (عمرے کے افعال ادا کرنے کے بعد) حلال ہو گئے، رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا، یا حج اور عمرہ کا احرام باندھا تھا، انہوں نے احرام نہ کھولا، یہاں تک کہ قربانی کا دن آ گیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2918
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " أَنَفِسْتِ " يَعْنِي الْحَيْضَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " إِنَّ هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَغْتَسِلِي "، قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ.
قاسم نے اپنے والد (محمد بن ابی بکر) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہمارے پیش نظر حج کے سوا اور کچھ نہ تھا۔جب ہم مقام سرف یاس کے قریب پہنچے تو مجھے ایام شروع ہو گئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لا ئے اور مجھے روتا ہوا پا یا۔آپ نے فرمایا: " کیا تمھا رے ایام شروع ہو گئے ہیں؟ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے جواب دیا: جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بلا شبہ یہ چیز اللہ تعا لیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ (کر مقدر کر) دی ہے تم (سارے) کا م ویسے ہی سر انجا م دو جیسے حاجی کرتے ہیں سوائے یہ کہ جب تک غسل نہ کر لو بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا (اس حج میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گا ئے کی قربانی کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور اس وقت ہمارا خیال صرف حج کرنے کا تھا، حتی کہ جب ہم مقام سرف پر پہنچے یا اس کے قریب پہنچے، مجھے ماہواری آ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، جبکہ میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا تجھے نفاس یعنی حیض آ گیا ہے، میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایسی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لازم ٹھہرایا ہے، (ان کی طبیعت و مزاج کا جزہے) جو کام حاجی کرتے ہیں، وہ کرو، ہاں اتنی بات ہے کہ پاکیزگی کے غسل سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2919
حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى جِئْنَا سَرِفَ، فَطَمِثْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ "، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: " مَا لَكِ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي "، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمْتُ مَكَّةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: " اجْعَلُوهَا عُمْرَةً "، فَأَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، قَالَتْ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ طَهَرْتُ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ، قَالَتْ: فَأُتِيَنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟، فَقَالُوا: أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ، قَالَتْ: " فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي عَلَى جَمَلِهِ "، قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَذْكُرُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، أَنْعَسُ فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ، حَتَّى جِئْنَا إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهْلَلْتُ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ جَزَاءً بِعُمْرَةِ النَّاسِ الَّتِي اعْتَمَرُوا،
عبد الرحمٰن ابن سلمہ ماجثون نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے انھوں نے اپنے والد (قاسم) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔ (انھوں نے) کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور حج ہی کا ذکر کر رہے تھے۔جب ہم سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ (اس اثنا میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے (حجرے میں) داخل ہو ئے تو میں رو رہی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا: تمھیں کیا رلا رہا ہے؟میں نے جواب دیا اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی۔آپ نے پو چھا: تمھا رے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمھیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ میں نے کہا: جی ہاں آپ نے فرمایا: "یہ چیز تو اللہ نے آدم ؑ کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔تم تمام کا م ویسے کرتی جاؤ جیسے (تمام) حا جی کریں مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: " تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو۔جن کے پاس قربانیا ں تھیں ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اسی کے مطا بق عمرے کا) تلبیہ پکارنا شروع کر دیا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا اور قربانیاں (صرف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و عمر اور (بعض) اصحاب ثروت رضوان اللہ عنھم اجمعین (ہی) کے پاس تھیں۔جب وہ چلے تو انھوں نے (حج) کا تلبیہ پکارا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب قر بانی کا دن آیا تو میں پاک ہو گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے طواف (افاضہ) کر لیا۔ (انھوں نے) کہا: ہمارے پاس گا ئے کا گو شت لا یا گیا میں نے پو چھا: یہ کیا ہے؟ انھوں (لا نے والوں) نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گا ئے کی قر بانی دی ہے۔جب (مدینہ کے راستے منیٰ کے فوراً بعد کی منزل) محصب کی رات آئی تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول!! لو گ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لو ٹیں اور میں (اکیلا) حج کر کے لوٹوں؟ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھا ئی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھا یا۔انھوں نے) کہا: مجھے یا د پڑ تا ہے کہ میں (اس وقت نو عمر لرکی تھی (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجا وے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا (اور میں اس سے محروم رہ گئی تھی) عمرے کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ پکا را
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج پیش نظر تھا، حتی کہ ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض شروع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! میری خواہش ہے کہ میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے کیا ہوا؟ شاید تمہیں حیض شروع ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لازم ٹھہرایا ہے، جو کام حاجی کرتے ہیں، تم بھی کرو، صرف اتنی بات ہے کہ جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ تو جب میں مکہ پہنچی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا: اپنے حج کو عمرہ بنا ڈالو۔ تو تمام لوگ ان کے سوا جن کے پاس ہدی تھی، حلال ہو گئے اور ہدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور اصحاب ثروت رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تھی، پھر جب وہ منیٰ کی طرف چلے تو انہوں نے احرام باندھ لیا تو جب قربانی کا دن آ گیا، میں پاک ہو گئی، (حیض آنا بند ہو گیا) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کا حکم دیا، پھر ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ہدی میں گائے ذبح کی ہے، جب مَحصَب کی رات ہوئی، میں نے عرض کیا، لوگ الگ حج اور عمرہ کر کے لوٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا، اس نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے سوار کر لیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نو عمر لڑکی تھی، مجھے اونگھ آ جاتی تو میرا چہرہ پالان کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا، حتی کہ ہم تنعیم پہنچ گئے، میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا جو لوگوں کے اس عمرہ کی جگہ تھا، جو انہوں نے کیا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2920
وحَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ الْمَاجِشُونِ، غَيْرَ أَنَّ حَمَّادًا لَيْسَ فِي حَدِيثِهِ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، وَلَا قَوْلُهَا: وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ أَنْعَسُ، فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ.
حماد (بن سلمہ) نے عبد الرحمٰن سے حدیث بیان کی انھوں نے اپنے والد (قاسم) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم نے حج کا تلبیہ پکا را جب ہم سرف مقام پر تھے میرے ایام شروع ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (میرے حجرے میں) داخل ہو ئے تو میں رورہی تھی (حماد نے) اس سے آگے ماجثون کی حدیث کی طرح بیان کیا مگر حماد کی حدیث میں یہ (الفا ظ) نہیں: قربانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و عمر اور اصحاب ثروت رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے پاس تھی۔پھر جب وہ چلے تو انھوں نے تلبیہ پکارا۔اور نہ یہ قول (ان کی حدیث میں ہے) کہ میں نو عمر لڑکی تھی مجھے اونگھ آتی تو میرا سر (بار بار) پالان کی پچھلی لکڑی کو لگتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، ہم نے حج کا تلبیہ کہا، حتی کہ جب ہم سرف جگہ پر پہنچے تو مجھے حیض آنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی، اس کے بعد اوپر والی ماجشون کے روایت کے مطابق ہے، ہاں اتنی بات حماد کی اس روایت میں یہ نہیں ہے کہ ہدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور صاحب ثروت حضرات کے پاس تھی، پھر جب متمتع منیٰ کو چلے تو انہوں نے احرام باندھا اور نہ ہی اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول ہے، میں کم عمر لڑکی تھی، میں اونگھنے لگتی تو میرا چہرہ پالان کی پچھلی لکڑی کو لگتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2921
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، حَدَّثَنِي خَالِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْرَدَ الْحَجَّ ".
مالک نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے انھوں نے اپنے والد (قاسم) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلا حج (افراد) کیا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج مفرد کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2922
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَفْلَحَ بْنِ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَفِي حُرُمِ الْحَجِّ وَلَيَالِي الْحَجِّ، حَتَّى نَزَلْنَا بِسَرِفَ فَخَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ مِنْكُمْ هَدْيٌ، فَأَحَبَّ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلَا "، فَمِنْهُمُ الْآخِذُ بِهَا وَالتَّارِكُ لَهَا مِمَّنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ وَمَعَ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِهِ لَهُمْ قُوَّةٌ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ "، قُلْتُ سَمِعْتُ كَلَامَكَ مَعَ أَصْحَابِكَ، فَسَمِعْتُ بِالْعُمْرَةِ، قَالَ: " وَمَا لَكِ؟ "، قُلْتُ: لَا أُصَلِّي، قَالَ ": " فَلَا يَضُرُّكِ فَكُونِي فِي حَجِّكِ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْزُقَكِيهَا، وَإِنَّمَا أَنْتِ مِنْ بَنَاتِ آدَمَ، كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكِ مَا كَتَبَ عَلَيْهِنَّ "، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ فِي حَجَّتِي حَتَّى نَزَلْنَا مِنًى فَتَطَهَّرْتُ، ثُمَّ طُفْنَا بِالْبَيْتِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَصَّبَ، فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: " اخْرُجْ بِأُخْتِكَ مِنَ الْحَرَمِ فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ لِتَطُفْ بِالْبَيْتِ فَإِنِّي أَنْتَظِرُكُمَا هَا هُنَا "، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا فَأَهْلَلْتُ، ثُمَّ طُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَجِئْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَنْزِلِهِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: " هَلْ فَرَغْتِ؟ "، قُلْتُ: نَعَمْ، فَآذَنَ فِي أَصْحَابِهِ بِالرَّحِيلِ، فَخَرَجَ فَمَرَّ بِالْبَيْتِ فَطَافَ بِهِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَدِينَةِ.
افلح بن حمید نے قاسم سے انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم حج کا تلبیہ کہتے ہو ئے حج کے مہینوں میں حج کی حرمتوں (پابندیوں) میں اور حج کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں روانہ ہو ئے حتی کہ سرف کے مقا م پر اترے۔ (وہاں پہنچ کر) آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: " تم میں سے جس کے ہمرا ہ قربانی نہیں ہے۔اور وہ اپنے حج کو عمرے میں بدلنا چاہتا ہے توا یسا کر لے اور جس کے ساتھ قربانی کے جا نور ہیں وہ (ایسا) نہ کرے۔ان میں سے کچھ نے جن کے پاس قربانی نہیں تھی اس (عمرے) کو اختیار کر لیا اور کچھ لوگوں نے رہنے دیا۔البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ کے ساتھ بعض صاحب استطاعت صحابہ کے ساتھ قربانیاں تھیں۔پھر آپ میرے پاس تشریف لا ئے تو میں رو رہی تھی۔آپ نے فرمایا: " کیوں روتی ہو؟ میں نے جواب دیا میں نے آپ کی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ گفتگو سنی ہے اور عمرے کے متعلق بھی سن لیا ہے میں عمرے سے روک دی گئی ہوں۔آپ نے پو چھا: (کیوں) تمھیں کیا ہے؟میں نے جواب دیا: میں نماز ادا نہیں کر سکتی۔آپ نے فرمایا: " یہ (ایام عمرے حج میں) تمھارے لیے نقصان دہ نہیں تم اپنے حج میں (لگی) رہو امید ہے کہ اللہ تعا لیٰ تمھیں یہ (عمرے کا) اجر بھی دے گا تم آدم ؑکی بیٹیوں میں سے ہو۔اللہ تعا لیٰ نے تمھارے لیے بھی وہی کچھ لکھ دیا ہے جو ان کی قسمت میں لکھا ہے کہا (پھر) میں احرا م ہی کی حا لت میں) اپنے حج کے سفر میں نکلی حتیٰ کہ ہم منیٰ میں جا اترے اور (تب) میں ایام سے پاک ہو گئی پھر ہم سب نے بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی محصب میں پڑاؤ ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ (میرے بھا ئی) کو بلا یا اور ان سے) فرمایا: " اپنی بہن کو حرم سے باہر (تنعیم) لے جاؤ تا کہ یہ (احرام باندھ کر) عمرے کا تلبیہ کہے اور (عمرے کے لیے بیت اللہ (اور صفامروہ) کا طواف کر لے۔میں (تمھا ری واپسی تک) تم دونوں کا یہیں انتظار کروں گا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: ہم نکل پڑے میں نے (احرا م باندھ کر) بیت اللہ اور صفامروہ کا طواف کیا۔ہم لوٹ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت اپنی منزل ہی پر تھے۔آپ نے (مجھ سے) پو چھا: " کیا تم (عمرے سے) فارغ ہو گئی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں پھر آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کو چ کے اعلان کا حکم دیا۔ آپ (وہاں سے) نکلے بیت اللہ کے پاس سے گزرے اور فجر کی نماز سے پہلے اس کا طواف (وداع) کیا پھر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے مہینوں میں حج کے اوقات میں اور حج کی راتوں میں، حج کا احرام باندھ کر نکلے، حتی کہ ہم نے مقام سرف پر پڑاؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے پاس گئے اور فرمایا: تم میں سے جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ اس حج کے احرام کو عمرہ کا احرام بنانا چاہے، تو وہ ایسا کر لے اور جس کے پاس ہدی ہے، وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ تو بعض نے جن کے پاس ہدی نہ تھی، اس کو عمرہ بنا لیا اور بعض نے رہنے دیا، رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب استطاعت کچھ ساتھیوں کے پاس ہدی تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیوں روتی ہو؟ میں نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو فرمائی ہے، میں نے سن لی ہے، میں نے عمرہ کے بارے میں بھی سن لیا ہے (اور میں عمرہ نہیں کر سکتی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا، میں نماز نہیں پڑھ سکتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ تیرے لیے نقصان کا باعث نہیں، حج کا احرام برقرار رکھو، امید ہے، اللہ تمہیں عمرہ کی توفیق بھی دے گا تو بھی تو آدم علیہ السلام کی بیٹیوں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی لکھا ہے جو ان کے لیے لکھا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں اپنے حج کے احرام میں رہی، حتی کہ ہم نے منیٰ میں پڑاؤ کیا تو میں نے غسل کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی مَحصَب میں اترے تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بلوایا اور فرمایا: اپنی بہن کو حرم سے باہر لے جاؤ، تاکہ، وہ عمرہ کا احرام باندھے، پھر بیت اللہ کا طواف کرے اور میں تم دونوں کا یہیں انتظار کروں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم حرم سے نکلے اور میں نے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف کیا، صفا اور مروہ کے چکر لگائے اور ہم آدھی رات واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر ہی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا فارغ ہو گئی ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں میں کوچ کا اعلان کر دیا، وہاں سے چل کر بیت اللہ سے گزرے اور صبح کی نماز سے پہلے اس کا طواف کیا، پھر مدینہ کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2923
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " مِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، وَمِنَّا مَنْ قَرَنَ، وَمِنَّا مَنْ تَمَتَّعَ "،
عبید اللہ بن عمرنے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے فرمایا (جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلے تھے تو) ہم میں سے بعض نے اکیلے حج (افراد) کا تلبیہ کہا بعض نے ایک ساتھ دونوں (قرن) اور بعض نے حج تمتع کا ارادہ کیا۔
حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم میں سے بعض نے حج مفرد کا احرام باندھا، بعض نے قران کیا اور بعض نے تمتع کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2924
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (صرف) حج کےلئے آئیں تھیں
قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حج کا احرام باندھ کر آئی تھیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2925
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، حَتَّى إِذَا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ، أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا فَقِيلَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ "، قَالَ يَحْيَى: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: أَتَتْكَ وَاللَّهِ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ،
یحییٰ بن سعید نے عمرہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرما رہی تھیں: ذوالعقدہ کے پانث دن باقی تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔جب ہم مکہ کہ قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فر مایا: " "جس کے ہمراہ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر لے تو احرا م کھول دے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: عید کے دن ہمارے پاس گا ئے گو شت لا یا گیا۔میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟بتا یا گیا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کی طرف سے (یہ گا ئے) ذبح کی ہے یحییٰ نے کہا: میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد بن قاسم کے سامنے پیش کی تو (انھوں نے) فرمایا: اللہ کی قسم اس (عمرہ) نے تمھیں یہ حدیث بالکل صحیح صورت میں پہنچا ئی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم ذوالقعدہ کے پانچ دن رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہمارا خیال یہی تھا کہ حج کرنا ہے، حتی کہ جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کرنے کے بعد احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نحر کے دن ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو بتایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے، یحییٰ کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! اس نے (یعنی عمرہ نے) تمہیں حدیث صحیح طور پر بتائی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2926
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. ح وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
‏‏‏‏ یحییٰ سے بھی اس کی مثل حدیث موجود ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 2926]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2927
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ . ح وَعَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ وَأَصْدُرُ بِنُسُكٍ وَاحِدٍ، قَالَ: " انْتَظِرِي فَإِذَا طَهَرْتِ فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي مِنْهُ "، ثُمَّ الْقَيْنَا عِنْدَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: أَظُنُّهُ، قَالَ: غَدًا وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَصَبِكِ، أَوَ قَالَ: نَفَقَتِكِ،
ابرا ہیم نے اسود اور قاسم سے ان دونوں نے ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت کی، ام المومنین رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے عرض کی: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !لوگ) حج اور عمرہ دودو مناسک ادا کر کے (اپنے گھروں کو) لو ٹیں گے اور میں صرف ایک منسک (حج) کر کے لو ٹوں گی؟آپ نے فرمایا: " تم ذرا انتظار کرو!جب تم پاک ہو جاؤ تو تنعیم (کی طرف) چلی جا نا اور وہاں سے (احرا م باندھ کر عمرے کا) تلبیہ پکا رنا پھر فلاں مقام پر ہم سے آملنا۔۔۔ابرا ہیم نے) کہا: میرا خیال ہے آپ نے فرمایاتھا: کل۔۔۔اور (فرمایا:) لیکن وہ (تمھا رے عمرے کا اجر)۔۔۔تمھا ری مشقت یا فرمایا: خرچ ہی کے مطا بق ہو گا۔"
حضرت ام المومنین (عائشہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ دو (مستقل) عبادتیں کر کے واپس جائیں گے اور میں ایک عبادت (مستقل طور پر) کر کے لوٹوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انتظار کرو، جب تم پاک ہو جاؤ تو تنعیم کی طرف نکل جانا اور وہاں سے احرام باندھ لینا اور پھر ہمیں فلاں فلاں جگہ کے قریب آ ملنا۔ (راوی کہتے ہیں، میرا خیال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کل) لیکن اس کا ثواب تمہاری مشقت یا فرمایا تھا تمہارے خرچ کے مطابق ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2928
وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، وَإِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: لَا أَعْرِفُ حَدِيثَ أَحَدِهِمَا مِنَ الْآخَرِ، أَنَّ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
ابن ابی عدی نے ابن عون سے حدیث بیان کی، انھوں نے قاسم اور ابرا ہیم سے روایت کی (ابن عون نے) کہا: میں ان میں سے ایک کی حدیث دوسرے کی حدیث سے الگ نہیں کر سکتا۔ام المومنین (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!لوگ دومنسک (حج اور عمرہ) کر کے لو ٹیں۔اور آگے (اسی طرح) حدیث بیان کی۔
ابن عون ام قاسم اور ابراہیم سے روایت کرتے ہیں، لیکن دونوں کی حدیث میں امتیاز نہیں کر سکتے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ دو عبادتیں کر کے واپس جائیں گے، اس کے بعد مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2929
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ: فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ، وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ الْهَدْيَ فَأَحْلَلْنَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ، قَالَ: " أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ؟ "، قَالَتْ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ مَوْعِدُكِ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا "، قَالَتْ صَفِيَّةُ: مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَكُمْ، قَالَ: " عَقْرَى حَلْقَى أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ "، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: " لَا بَأْسَ انْفِرِي "، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُصْعِدٌ مِنْ مَكَّةَ وَأَنَا مُنْهَبِطَةٌ عَلَيْهَا، أَوْ أَنَا مُصْعِدَةٌ وَهُوَ مُنْهَبِطٌ مِنْهَا، وَقَالَ إِسْحَاق: مُتَهَبِّطَةٌ وَمُتَهَبِّطٌ،
منصور نے ابرا ہیم سے، انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم اس کو حج ہی سمجھتے تھے۔جب ہم مکہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: جو اپنے ساتھ قربانی نہیں لا یا وہ احرا م کھو ل دے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جتنے لو گ بھی قربانی ساتھ نہیں لا ئے تھے۔انھوں نے احرا م ختم کر دیا۔آپ کی ازواج بھی اپنے ساتھ قربانیا ں نہیں لا ئیں تھیں تو وہ بھی احرا م سے باہر آگئیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: (لیکن) میرے ایام شروع ہو گئے تھے اور میں بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی جب حصبہ کی رات آئی، کہا: تو میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!!لوگ حج اور عمرہ کر کے لو ٹیں اور میں صرف حج کر کے لو ٹو ں گی؟آپ نے فرمایا: "جن راتوں (تاریخوں) میں ہم مکہ آئے تھے کیا تم نے طواف نہیں کیا تھا؟ میں نے کہا۔جی نہیں آپ نے فرمایا: " تو پھر اپنے بھا ئی (عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مقام تنعیم تک چلی جا ؤ اور وہاں سے (عمرے کا حرا م باندھ کر) عمرے کا تلبیہ پکارو (اور عمرہ کر لو) پھر تم فلاں مقام پر آملنا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: میں اپنے بارے میں سمجھتی ہوں کہ میں (بھی) آپ کو روکنے والی ہوں گی۔آپ نے فرمایا: " (اپنی قوم کی زبان میں عقریٰ حلقٰی (بے اولاد، بے بال، یہود حائضہ عورت کے لیے یہی لفظ بو لتے تھے) کیا تم نے عید کے دن طواف نہیں کیا تھا؟کہا: کیوں نہیں (کیا تھا!) آپ نے فرمایا: " (تو پھر) کوئی بات نہیں، اب چل پڑو۔" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: دوسری صبح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے (اس وقت) ملے جب آپ مکہ سے چڑھا ئی پر آرہے تھے اور میں مکہ کی سمت اتر رہی تھی۔۔۔یا میں چڑھا ئی پر جا رہی تھی اور آپ اس سے اتر رہے تھے (واپس آرہے تھے)۔۔۔اور اسحاق نے متہبطہ (اترنےوالی) اور متہبط (اترنے والے) کے الفاظ کہے۔ (مفہوم وہی ہے)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعلیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور ہمارا تصور یہی تھا کہ ہم حج کریں گے، جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی لوگوں کو جو ہدی ساتھ نہیں لائے تھے احرام کھول دینے کا حکم دے دیا، وہ بیان کرتی ہیں کہ جو لوگ ہدی ساتھ نہیں لائے تھے، انہوں نے احرام کھول دیا، (حلال ہو گئے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہدی نہیں لائی تھیں، اس لیے وہ بھی حلال ہو گئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، مجھے حیض شروع ہو گیا، اس لیے میں بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی تو جب مَحصَب کی طرف لوٹ آئی، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ عمرہ اور حج کر کے لوٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا جن راتوں ہم مکہ پہنچے تھے تو نے طواف نہیں کیا تھا؟ میں نے عرض کیا، جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم کے پاس جاؤ اور عمرہ کا احرام باندھ لو، پھر فلاں فلاں جگہ آ کر ہم سے مل جانا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعلیٰ عنہا نے عرض کیا، میرا خیال ہے، میں آپ حضرات کو (جانے سے) روک لوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زخمی، سرمنڈی، کیا تم نے قربانی کے دن طواف نہیں کیا تھا؟ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا، کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں، چلو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس حال میں ملے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے فراز (بلندی) کو چڑھ رہے تھے اور میں، مکہ کی طرف اتر رہی تھی، یا میں چڑھ رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اتر رہے تھے، اسحاق نے مُنْهَبطَةٌ اور مُنهَبط کی جگہ مَتَهَبّطَةٌ اور مُتَهَبِّط کہا، معنی ایک ہی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2930
وحَدَّثَنَاه سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُلَبِّي، لَا نَذْكُرُ حَجًّا وَلَا عُمْرَةً "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ مَنْصُورٍ.
اعمش نے ابرا ہیم سے، انھوں نے اس3ود کے واسطے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تلبیہ کہتے ہو ئے نکلے ہم حج یا عمرے کا ذکر نہیں رہے تھے۔اور آگے (اعمش نے) منصور کے ہم معنی ہی حدیث بیان کی،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، تلبیہ کہتے ہوئے چل پڑے، حج یا عمرہ کی تعیین نہیں کر رہے تھے، آ گے منصور کی مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2931
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ ذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ أَوْ خَمْسٍ، فَدَخَلَ عَلَيَّ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَقُلْتُ: مَنْ أَغْضَبَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ؟، قَالَ: " أَوَمَا شَعَرْتِ أَنِّي أَمَرْتُ النَّاسَ بِأَمْرٍ، فَإِذَا هُمْ يَتَرَدَّدُونَ "، قَالَ الْحَكَمُ: كَأَنَّهُمْ يَتَرَدَّدُونَ، أَحْسِبُ، " وَلَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا سُقْتُ الْهَدْيَ مَعِي حَتَّى أَشْتَرِيَهُ، ثُمَّ أَحِلُّ كَمَا حَلُّوا "،
محمد بن جعفر (غندر) نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی، انھوں نے (زین العابدین) علی بن حسین سے، انھوں نے ذاکون مولیٰ عائشہ رضی اللہ عنہا سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے فر مایا: ذوالحجہ کے چار یا پانچ دن گزر چکے تھے کہ آپ میرے پاس (خیمے میں تشریف لا ئے، آپ غصے کی حالت میں تھے، میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو کس نے غصہ دلایا؟ اللہ اسے آگ میں دا خل کرے۔آپ نے جواب دیا: " کیا تم نہیں جا نتیں!میں نے لوگوں کو ایک حکم دیا (کہ جو قر بانی ساتھ نہیں لا ئے، وہ عمرے کے بعد احرا م کھول دیں) مگر اس پر عمل کرنے میں پس و پیش کررہے ہیں۔۔۔۔حکم نے کہا: میرا خیال ہے (کہ میرے استا علی بن حسین نے) "ایسا لگتا ہے وہ پس و پیش کررہے ہیں۔"کہا۔۔۔اگر اپنے اس معاملے میں وہ بات پہلے میرے سامنے آجا تی جو بعد میں آئی تو میں اپنے ساتھ قربانی نہ لا تا حتیٰ کہ میں اسے (یہاں آکر) خریدتا پھر میں ویسے احرام سے باہر آجا تا جیسے یہ سب (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین عمرے کے بعد) آگئے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار یا پانچ ذوالحجہ کو میرے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے تو میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے ناراض کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈالے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پتہ نہیں چلا، میں نے لوگوں کو ایک کام کا (احرام کھولنے کا) حکم دیا ہے تو وہ اس کی تعمیل میں پس و پیش کر رہے ہیں، (حکم کہتے ہیں، میرے خیال میں آپ نے تردد کے معنی پر دلالت کرنے والا لفظ بولا تھا)، اگر مجھے جس چیز کا بعد میں علم ہوا ہے، مجھے اس کا پہلے علم ہو جاتا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا، حتی کہ اس کو یہاں خرید لیتا، پھر میں بھی ان کی طرح حلال ہو جاتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2932
وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعٍ أَوْ خَمْسٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ "، بِمِثْلِ حَدِيثِ غُنْدَرٍ، وَلَمْ يَذْكُرِ الشَّكَّ مِنَ الْحَكَمِ فِي قَوْلِهِ: يَتَرَدَّدُونَ.
عبید اللہ بن معاذ نے کہا: مجھے میرے والد نے شعبہ سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حدیث بیان کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کی چار یا پانچ راتیں گزرنے کے بعد مکہ تشریف لا ئے آگے (عبید اللہ بن معاذ نے) غندر کی روایت کے مانند ہی حدیث بیان کی انھوں نے پس و پیش کرنے کے حوالےسے حکم کا شک ذکر نہیں کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار یا پانچ ذوالحجہ کو مکہ پہنچے تھے، آ گے منذر کی مذکورہ بالا حدیث کی طرح ہے اور اس میں يُرَدُّوْنَ پس و پیش کر رہے ہیں کے لفظ کے بارے میں حَکَم کے شک کا ذکر نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2933
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا أَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ فَقَدِمَتْ وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَاضَتْ فَنَسَكَتِ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا وَقَدْ أَهَلَّتْ بِالْحَجِّ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّفْرِ: " يَسَعُكِ طَوَافُكِ لِحَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ "، فَأَبَتْ، فَبَعَثَ بِهَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ.
طاوس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے عمرے کا تلبیہ پکارا تھا مکہ پہنچیں، ابھی بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا کہ ایا م شروع ہو گئے، انھوں نے حج کا تلبیہ کہا اور تمام مناسک (حج) ادا کیے۔واپسی کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (مخاطب ہو کر) فر مایا: " تمھا را طواف تمھارے حج اور عمرے (دونوں) کے لیے کا فی ہے۔ (اب تمھیں مزید عمرے کی ضرورت نہیں) "مگر وہ نہ مانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (ان کے بھا ئی) عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا اور انھوں نے حج کے بعد (ایک اور) عمرہ ادا کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، وہ مکہ آئیں تو بیت اللہ کے طواف سے پہلے ہی حیض شروع ہو گیا، انہوں نے تمام احکام ادا کیے، کیونکہ انہوں نے حج کا احرام باندھ لیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوچ کے دن فرمایا: تیرا یہ طواف تیرے حج اور عمرہ کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے اس پر اکتفاء کرنے سے انکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ عبدالرحمٰن کو تنعیم بھیجا تو انہوں نے حج کے بعد عمرہ کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2934
وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا حَاضَتْ بِسَرِفَ فَتَطَهَّرَتْ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُجْزِئُ عَنْكِ طَوَافُكِ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ عَنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ ".
مجا ہد نے حضرت عا ئشہ سے روایت کی کہ انھیں مقام سرف سے ایام شروع ہو ئے پھر وہ عرفہ میں جا کر پاک ہو ئیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: "تمھا ری طرف سے تمھارا صفا مروہ کا طواف تمھا رے حج اور عمرے (دونوں) کے لیے کا فی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں حیض مقام سرف میں شروع ہوا اور وہ اس سے عرفہ کے دن پاک ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: تیرا صفا اور مروہ کا طواف تمہیں تمہارے حج اور عمرہ کے لیے کفایت کرے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2935
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ ، حَدَّثَتْنَا صَفِيَّةُ بِنْتُ شَيْبَةَ ، قَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: " يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَرْجِعُ النَّاسُ بِأَجْرَيْنِ وَأَرْجِعُ بِأَجْرٍ؟ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَنْطَلِقَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ، قَالَتْ: فَأَرْدَفَنِي خَلْفَهُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَرْفَعُ خِمَارِي أَحْسُرُهُ عَنْ عُنُقِي، فَيَضْرِبُ رِجْلِي بِعِلَّةِ الرَّاحِلَةِ، قُلْتُ: لَهُ وَهَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟، قَالَتْ: فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْحَصْبَةِ ".
صفیہ بنت شیبہ نے بیان کیا، کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لو گ تو وہ (عملوںکا) ثواب لے کر لو ٹیں گے اور میں (صرف) ایک (عمل کا) ثواب لے کر لوٹوں؟ تو (عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات سن کر) آپ نے عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ انھیں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو) تنعیم تک لے جائے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: چنانچہ عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ پر مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیا (راستے میں) اپنی اوڑھنی کو اپنی گردن سے سر کا نے کے لیے (بار بار) اسے اوپر اٹھا تی تو (عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہا) سواری کو مارنے کے بہانے میرے پاؤں پر مارتے (کہااوڑھنی کیوں اٹھا رہی ہیں؟) میں ان سے کہتی: آپ یہاں کسی (اجنبی) کو دیکھ رہے ہیں؟ (جو مجھے ایسا کرتا ہوا دیکھ لے گا) فرماتی ہیں: میں نے (وہاں سے) عمرے کا احرا م باندھ کر) تلبیہ پکارا (اور عمرہ کیا) پھر ہم (واپس آئے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔آپ (اس وقت) مقام حصبہ پر تھے۔
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا لوگ دو ثواب لے کر لوٹیں گے اور میں ایک اجر لے کر واپس جاؤں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اس کو لے کر تنعیم جاؤ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے سوار کر لیا تو میں اپنی گردن کو ننگی کرنے کے لیے اپنے دوپٹے کو اٹھانے لگی تو وہ سواری کے بہانے میرے پاؤں پر مارتے (کہ پردہ کیوں نہیں کرتی ہو) میں نے اس سے کہا، تجھے کوئی نظر آ رہا ہے (جس سے پردہ کروں) میں نے عمرہ کا احرام باندھا، پھر ہم آ گے بڑھے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مَحصَب میں پہنچ گئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211
حدیث نمبر: 2936
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، أَخْبَرَهُ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَهُ أَنْ يُرْدِفَ عَائِشَةَ فَيُعْمِرَهَا مِنَ التَّنْعِيمِ ".
عمرو بن اوس نے خبر دی کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے انھیں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے لیں اور انھیں مقام تنعیم سے عمرہ کروائیں۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیچھے سوار کر کے، اسے تنعیم سے عمرہ کروائے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1212
حدیث نمبر: 2937
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ جميعا، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِعُمْرَةٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ عَرَكَتْ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟، قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ "، فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا، وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا أَرْبَعُ لَيَالٍ، ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَوَجَدَهَا تَبْكِي، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكِ؟ "، قَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ، وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أَحْلِلْ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الْآنَ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ فَاغْتَسِلِي، ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ "، فَفَعَلَتْ وَوَقَفَتِ الْمَوَاقِفَ، حَتَّى إِذَا طَهَرَتْ طَافَتْ بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ قَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا "، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَجَجْتُ، قَالَ: " فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ "، وَذَلِكَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ،
قتیبہ نے کہا: ہم سے لیث نے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو زبیر سے انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکیلے حج (افرا د) کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے آئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صرف عمرے کی نیت سے آئیں۔جب ہم مقام سرف پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایام شروع ہو گئے حتی کہ جب ہم مکہ آئے تو ہم نے کعبہ اور صفا مروہ کا طواف کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جس کسی کے ہمرا ہ قربانی نہیں، وہ (احرا م چھوڑ کر) حلت (عدم احرا م کی حالت) اختیا ر کرلے۔ہم نے پو چھا: کو ن سی حلت؟آپ نے فرمایا: مکمل حلت (احرا م کی تمام پابندیوں سے آزادی۔) "تو پھر ہم اپنی عورتوں کے پاس گئے خوشبو لگا ئی اور معمول کے) کپڑے پہن لیے۔ (اور اس وقت) ہمارے اور عرفہ (کو روانگی) کے درمیان چار راتیں باقی تھیں۔پھر ہم نے ترویہ والے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) تلبیہ پکارا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خیمے میں دا خل ہو ئے تو انھیں روتا ہوا پا یا۔پوچھا: "تمھا را کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے ایام شروع ہو گئے ہیں۔ لو گ حلال (احرا م سے فارغ) ہو چکے ہیں اور میں ابھی نہیں ہو ئی اور نہ میں نے ابھی بیت اللہ کا طواف کیا ہے لو گ اب حج کے لیے روانہ ہو رہے ہیں آپ نے فرمایا: " (پریشان مت ہو) یہ (حیض) ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم ؑ کی بیٹیوں کی قسم میں لکھ دیا ہے تم غسل کر لو اور حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ پکارو۔"انھوں نے ایسا ہی کیا اور وقوف کے ہر مقام پر وقوف کیا (حاضری دی دعائیں کیں) اور جب پا ک ہو گئیں تو عرفہ کے دن) بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا۔پھر آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: " تم اپنے حج اور عمرے دونوں (مکمل کر کے ان کے احرا م کی پابندیوں) سے آزاد ہو چکی ہو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے دل میں (ہمیشہ) یہ کھٹکا رہے گا کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی۔آپ نے فرمایا: "اے عبد الرحمٰن! انھیں 0لے جاؤ اور) تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ۔اور یہ (منیٰ سے واپسی پر) حصبہ (میں قیام والی رات کا واقعہ ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد کا احرام باندھ کر چلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ کا احرام باندھ کر چلیں، حتی کہ جب ہم سرف مقام پر پہنچ گئے، انہیں حیض آنا شروع ہو گیا، حتی کہ جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ احرام کھول دے تو ہم نے پوچھا، حلال ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل حلت۔ تو ہم بیویوں کے پاس گئے اور خوشبو لگائی اور اپنے کپڑے پہن لیے، ہمارے اور عرفہ کے درمیان چار دن باقی تھے، پھر ہم نے ترویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے تو انہیں روتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا، میری حالت یہ ہے، میں حائضہ ہوں، لوگ احرام کھول چکے ہیں اور میں نے احرام نہیں کھولا اور نہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا ہے اور لوگ اب حج کے لیے جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کی فطرت میں رکھ دی ہے، تم غسل کر کے، حج کا احرام باندھ لو۔ تو میں نے ایسے ہی کیا اور تمام مقامات پر وقوف کیا، (ٹھہری) حتی کہ جب پاک ہو گئی تو کعبہ اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئی ہو۔ تو اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے دل میں کھٹک محسوس کر رہی ہوں کہ میں حج سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی، (حالانکہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمٰن! اسے لے جاؤ اور اسے تنعیم سے عمرہ کرواؤ۔ اور یہ مَحصَب کی رات کا واقعہ ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1213
حدیث نمبر: 2938
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا وَقَالَ عبدَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: " دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَهِيَ تَبْكِي "، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ إِلَى آخِرِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا قَبْلَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ،
ابن جریج نے خبر دی کہا: مجھے ابو زبیر نے خبر دی، انھوں نے جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے سنا، کہہ رہے تھے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خیمے میں دا خل ہو ئے تو وہ رو رہی تھیں۔پھر (آخر تک) لیث کی روایت کردہ حدیث کے مانند روایت بیان کی، لیکن لیث کی حدیث میں اس سے پہلے کا جو حصہ ہے وہ بیان نہیں کیا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے، جبکہ وہ رو رہی تھیں، آ گے لیث کی مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے، لیکن اس سے پہلے کا جو حصہ لیث نے بیان کیا ہے، وہ اس حدیث میں نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1213
حدیث نمبر: 2939
وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ يَعْنِي ابْنَ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ: " وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا سَهْلًا إِذَا هَوِيَتِ الشَّيْءَ تَابَعَهَا عَلَيْهِ، فَأَرْسَلَهَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مِنَ التَّنْعِيمِ "، قَالَ مَطَرٌ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: فَكَانَتْ عَائِشَةُ إِذَا حَجَّتْ صَنَعَتْ كَمَا صَنَعَتْ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مطر نے ابو زبیر سے، انھوں نے جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج (حجۃ الوداع) کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرے کا (احرام باندھ کر) تلبیہ پکارا تھا۔مطر نے آگے لیث کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی، (البتہ اپنی) حدیث میں یہ اضا فہ کیا کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت نرم خوتھے۔وہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) جب بھی کوئی خواہش کرتیں، آپ اس میں ان کی بات مان لیتے۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور انھوں نے تنعیم سے عمرے کا تلبیہ پکا را (اور عمرہ ادا کیا۔) مطرؒ نے کہا: ابو زبیر نے بیان کیا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب بھی حج فر ما تیں تو وہی کرتیں جو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا تھا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج میں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عمرے کا احرام باندھا تھا، آ گے لیث کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھیوں کے لیے آسانی چاہتے تھے، (نرم اخلاق کے مالک تھے) جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی چیز کی خواہش یا فرمائش کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات مان لیتے، فرمائش پوری فرما دیتے) اس لیے، اس کے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیا اور اس نے (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1213
حدیث نمبر: 2940
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ مَعَنَا النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ طُفْنَا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ "، قَالَ: قُلْنَا: أَيُّ الْحِلِّ؟، قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ؟ "، قَالَ: فَأَتَيْنَا النِّسَاءَ وَلَبِسْنَا الثِّيَابَ وَمَسِسْنَا الطِّيبَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ وَكَفَانَا الطَّوَافُ الْأَوَّلُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِي بَدَنَةٍ ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا لبیک پکارتے ہوئے ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے، پھر جب مکہ آئے طواف کیا بیت اللہ کا اور سعی کی صفا اور مروہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے اور حلال ہو جائے۔ ہم نے کہا: کیسا حلال ہونا؟ انہوں نے کہا: پورا۔ پھر ہم عورتوں کے پاس آئے (یعنی جماع کیا) اور کپڑے پہنے اور خوشبو لگائی پھر جب آٹھویں تاریخ ہوئی۔ حج کی لبیک پکاری اور کفایت کر گئی ہم کو سعی صفا اور مروہ کی جو کہ پہلے کی تھی اور حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شریک ہو جائیں اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 2940]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1213
حدیث نمبر: 2941
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَحْلَلْنَا أَنْ نُحْرِمَ إِذَا تَوَجَّهْنَا إِلَى مِنًى "، قَالَ: فَأَهْلَلْنَا مِنَ الْأَبْطَحِ.
ابن جریج سے روایت ہے (کہا:) مجھے ابو زبیر نے جا بربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہا: جب ہم " حلت"" کی کیفیت میں آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب منیٰ کا رخ کرنے لگیں تو احرا م باند ھ لیں۔ (حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو ہم نے مقام ابطح سے تلبیہ پکارنا شروع کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حلال ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جب منیٰ کا رخ کریں تو حج کا احرام باندھ لیں، تو ہم نے ابطح سے احرام باندھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1214
حدیث نمبر: 2942
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: " لَمْ يَطُفْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَصْحَابُهُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلَّا طَوَافًا وَاحِدًا "، زَادَ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ: " طَوَافَهُ الْأَوَّلَ ".
یحییٰ بن سعید اور عبد بن حمید نے محمد بن بکر کے واسطے سے ابن جریج سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابو زبیر نے خبر دی کہانھوں نے جا بر بن عبد اللہ سے سنا، وہ فر ما رہے تھے َنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صفا مروہ کے در میان طواف (سعی) ایک ہی مرتبہ کیا تھا۔ (عبد بن حمید نے) محمد بن بکر کی حدیث میں یہ اضا فہ کیا: (صفا مروہ کے درمیان) اپنا پہلا طواف (یعنی سعی جو وہ پہلی مرتبہ کر چکے تھے۔)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے صفا اور مروہ کے درمیان ایک ہی طواف کیا تھا، محمد بن بکر کی روایت میں اضافہ ہے، جو پہلے کر چکے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1215
حدیث نمبر: 2943
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي نَاسٍ مَعِي، قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ، قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ " حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ "، قَالَ عَطَاءٌ: وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، فَقُلْنَا لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا، فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ، قَالَ: يَقُولُ جَابِرٌ: بِيَدِهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَوْلِهِ بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: " قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ، فَحِلُّوا "، فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا "، قَالَ: وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا، فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟، فَقَالَ: " لِأَبَدٍ ".
ابن جریج نے کہا: مجھے عطا ء نے خبر دی کہ میں نے اپنے متعدد فقاء کے ساتھ جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (احرا م کے وقت) صرف اکیلے حج ہی کا تلبیہ پکا را۔عطا ء نے کہا: حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ پہنچے تھے۔آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال (احرا م کی پابندیوں سے فا رغ) ہو جا ئیں۔عطاء نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا تھا: " حلال ہو جاؤ اور اپنی عورتوں کے پاس جاؤ۔عطا ء نے کہا: (عورتوں کی قربت) آپ نے ان پر لا زم قرار نہیں دی تھی بلکہ بیویوں کو ان کے لیے صرف حلال قراردیا تھا۔ہم نے کہا: جب ہمارے اور یوم عرفہ کے درمیان محض پانچ دن باقی ہیں آپ نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جا نے کی اجازت مرحمت فر ما دی ہے تو (یہ ایسا ہی ہے کہ) ہم (اس) عرفہ آئیں گے تو ہمارے اعضا ئے مخصوصہ سے منی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔عطاء نے کہا جابر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ سے (ٹپکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ایسا لگتا ہے میں اب بھی ان کے حرکت کرتے ہاتھ کا اشارہ دیکھ رہا ہوں۔جا بر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) ہم میں کھڑے ہو ئے اور فرمایا: "تم (اچھی طرح) جا نتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا، تم سب سے زیادہ سچا اور تم سب سے زیادہ پارسا ہوں۔اگر میرے ساتھ قر بانی نہ ہو تی تو میں بھی ویسے حلال (احرا م سے فارغ) ہو جا تا جیسے تم حلال ہو ئے ہو، اگر وہ چیز پہلے میرے سامنے آجا تی جو بعد میں آئی تو میں قربانی اپنے ساتھ نہ لا تا، لہٰذا تم سب حلال (احرا م سے فارغ) ہو جاؤ۔چنانچہ پھر ہم حلال ہو گئے۔ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو) سنا اور اطاعت کی۔عطاء نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: (اتنے میں) حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ذمہ داری سے (عہد ہبر آہو کر) پہنچ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پو چھا: (علی) تم نے کس (حج) کا تلبیہ پکا را تھا؟"انھوں نے جواب دیا: جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "قربانی کرو اور احرا م ہی کی حالت میں رہو۔ (جا بر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا: حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اپنے ہمراہ قربانی (کے جا نور) لا ئے تھے۔سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول!!یہ (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا) صرف ہمارے اسی سال کے لیے (جا ئز ہوا) ہے یا ہمیشہ کے لیے؟آپ نے فرمایا: "ہمیشہ کے لیے۔
حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے، صرف خالص حج کا احرام باندھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حلال ہونے کا حکم دیا، عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال ہو جاؤ اور اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرو۔ عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلقات قائم کرنا ان کے لیے ضروری قرار نہ دیا لیکن ان کے لیے انہیں جائز قرار دے دیا۔ ہم نے آپس میں کہا، جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن رہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس جانے کے لیے فرما دیا ہے تو ہم عرفہ جائیں گے اور ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپک رہی ہو گی، یعنی تھوڑا عرصہ پہلے ہم تعلقات قائم کر چکے ہوں گے، عطاء کہتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ کو حرکت دے رہے تھے، گویا کہ میں آپ (جابر) کے ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم خوب جانتے ہو، میں تم میں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ اطاعت گزار ہوں اور اگر میرے پاس ہدی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح حلال ہو جاتا۔ اگر مجھے پہلے اس چیز کا پتہ چل جاتا، جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا، اس لیے تم احرام کھول دو۔ تو ہم نے بات سنی اور اطاعت کرتے ہوئے احرام کھول دیا، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے فرائض سر انجام دے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے احرام کس نیت سے باندھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جس نیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: قربانی کیجئے اور محرم ٹھہریے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ہدی لائے تھے، حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ ہمارے اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ کے لیے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1216
حدیث نمبر: 2944
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ وَنَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْنَا وَضَاقَتْ بِهِ صُدُورُنَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا نَدْرِي أَشَيْءٌ بَلَغَهُ مِنَ السَّمَاءِ أَمْ شَيْءٌ مِنْ قِبَلِ النَّاسِ، فَقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ أَحِلُّوا، فَلَوْلَا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي، فَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتُمْ "، قَالَ: فَأَحْلَلْنَا حَتَّى وَطِئْنَا النِّسَاءَ، وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلَالُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، وَجَعَلْنَا مَكَّةَ بِظَهْرٍ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ.
عبد الملک بن ابی سلیمان نے عطا ء سے انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ کہا۔جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہو جا ئیں اور اسے (حج کی نیت کو) عمرے میں بدل دیں، یہ بات ہمیں بہت گراں (بڑی) لگی اور اس سے ہمارے دل بہت تنگ ہو ئے (ہمارے اس قلق کی خبر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی۔معلوم نہیں کہ آپ کو آسمان سے (بذریعہ وحی) اس چیز کی خبر پہنچی یا لوگوں کے ذریعے سے کوئی چیز معلوم ہوئی۔آپ نے فرمایا: "اے لوگو!حلال ہو جاؤ (احرا م کھول دو) اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جس طرح تم نے کیا ہے (جابر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا: ہم حلال (احرا م سےآزاد) ہو گئے حتی کہ اپنی بیویوں سے قربت بھی کی اور (وہ سب کچھ) کیا جو حلال (احرا م کے بغیر) انسان کرتا ہے۔ حتی کہ ترویہ کا دن (آٹھ ذوالحجہ) آگیا۔اور ہم نے مکہ کو پیچھے چھوڑ ا (خیر باد کہا) اور حج کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ کہنے لگے۔ حدیث نمبر۔2945۔موسیٰ بن نافع نے کہا: میں عمرے کی نیت سے یو م ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے چار دن پہلے مکہ پہنچا لوگوں نے کہا: اب تو تمھا رمکی حج ہو گا۔ (میں ان کی باتیں سن کر) عطاء بن ابی رباح کے ہاں حاضر ہوا اور ان سے (اس مسئلے کے بارے میں) فتویٰ پوچھا۔عطاء نے جواب دیا: مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ انھوں نے اُس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی تھی لوگوں نے حج افراد کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا: "اپنے احرا م سے فارغ ہو جاؤ۔ بیت اللہ کا اور صفا و مروہ کا طواف (سعی کرو۔اپنے بال چھوٹے کرو الو اورحلال (احرام سے آزاد) ہو جاؤ جب تویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن آجا ئے تو حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ کہو۔ اور (حج افراد کو) جس کے لیے تم آئے تھے اسے حج تمتع بنا لو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: (اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم اسے کیسے حج تمتع بنا لیں؟ہم نے تو صرف حج کا نام لے کر تلبیہ کہا تھا آپ نے فر مایا: " میں نے تمھیں جو حکم دیا ہے وہی کرو۔اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا تو اسی طرح کرتا جس طرح تمھیں حکم دے رہا ہوں۔لیکن مجھ پر (احرام کی وجہ سے) حرام کردہ چیزیں اس وقت تک حلال نہیں ہو ں گی جب تک کہ قربانی اپنی قربان گا ہ میں نہیں پہنچ جا تی۔اس پر لوگوں نے ویسا ہی کیا (جس کا آپ نے حکم دیا تھا)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله تعالی عنهما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھا تو جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے اور حج کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا تو یہ چیز ہمارے لیے انتہائی ناگواری کا باعث بنی اور اس سے ہمارے سینے میں تنگی (گھٹن) پیدا ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچ گئی، اس کا ہمیں علم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم آسمانی وحی سے ہوا، یا لوگوں کی طرف سے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! احرام کھول دو، اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس پر ہم حلال ہو گئے، حتی کہ عورتوں سے تعلقات قائم کئے اور حلال والا ہر کام کیا، حتی کہ جب ترویہ کا دن آیا اور ہم مکہ سے روانہ ہو گئے تو ہم نے حج کا احرام باندھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1216
حدیث نمبر: 2945
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ مُتَمَتِّعًا بِعُمْرَةٍ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِأَرْبَعَةِ أَيَّامٍ، فَقَالَ النَّاسُ: تَصِيرُ حَجَّتُكَ الْآنَ مَكِّيَّةً، فَدَخَلْتُ عَلَى عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ عَطَاءٌ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَجَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ سَاقَ الْهَدْيَ مَعَهُ، وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ فَطُوفُوا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَقَصِّرُوا وَأَقِيمُوا حَلَالًا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ، وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً "، قَالُوا: كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَقَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ؟، قَالَ: " افْعَلُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، فَإِنِّي لَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ، لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ لَا يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَفَعَلُوا ".
موسیٰ بن نافع نے کہا: میں عمرے کی نیت سے یو م ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے چار دن پہلے مکہ پہنچا لوگوں نے کہا: اب تو تمھا رمکی حج ہو گا۔ (میں ان کی باتیں سن کر) عطاء بن ابی رباح کے ہاں حاضر ہوا اور ان سے (اس مسئلے کے بارے میں) فتویٰ پوچھا۔عطاء نے جواب دیا: مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ انھوں نے اُس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی تھی لوگوں نے حج افراد کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا: "اپنے احرا م سے فارغ ہو جاؤ۔ بیت اللہ کا اور صفا و مروہ کا طواف (سعی کرو۔اپنے بال چھوٹے کرو الو اورحلال (احرام سے آزاد) ہو جاؤ جب تویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن آجا ئے تو حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ کہو۔ اور (حج افراد کو) جس کے لیے تم آئے تھے اسے حج تمتع بنا لو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: (اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم اسے کیسے حج تمتع بنا لیں؟ہم نے تو صرف حج کا نام لے کر تلبیہ کہا تھا آپ نے فر مایا: " میں نے تمھیں جو حکم دیا ہے وہی کرو۔اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا تو اسی طرح کرتا جس طرح تمھیں حکم دے رہا ہوں۔لیکن مجھ پر (احرام کی وجہ سے) حرام کردہ چیزیں اس وقت تک حلال نہیں ہو ں گی جب تک کہ قربانی اپنی قربان گا ہ میں نہیں پہنچ جا تی۔اس پر لوگوں نے ویسا ہی کیا (جس کا آپ نے حکم دیا تھا)
موسیٰ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے احرام باندھ کر ترویہ کے دن سے چار دن پہلے مکہ پہنچا تو لوگوں نے کہا، اب تیرا حج مکی ہو گا (یعنی میقات سے حج کا احرام باندھنے والا ثواب نہیں ملے گا) تو میں عطاء بن ابی رباح کے پاس گیا اور ان سے مسئلہ پوچھا، عطاء نے بتایا، مجھے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا، میں نے اس سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی ساتھ لے کر گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، لوگوں نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا احرام کھول دو، یعنی حج کی بجائے عمرہ قرار دے لو، بیت اللہ کا طواف کرو اور درمیان صفا اور مروہ کے، سر کتروا لو اور حلال ہو جاؤ۔ جب ترویہ کا دن آ جائے تو حج کا احرام باندھ لینا اور جس حج کا احرام باندھا ہے، اس کو حج تمتع بنا لو۔ لوگوں نے عرض کیا، ہم اس کو تمتع کیسے بنا لیں جبکہ ہم نے حج (مفرد) کا احرام باندھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حکم میں دیتا ہوں، اس پر عمل کرو اور اگر میں ہدی ساتھ نہ لایا ہوتا تو جس کا تمہیں حکم دے رہا ہوں، میں بھی اسی طرح کرتا، لیکن اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا، جب تک ہدی اپنے حلال ہونے کی جگہ نہیں پہنچتی۔ تو لوگوں نے ایسے ہی کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1216
حدیث نمبر: 2946
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ رِبْعِيٍّ الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً وَنَحِلَّ، قَالَ: وَكَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً ".
ابو بشر نے عطاء بن ابی رباح سے انھوں نے جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: ہم حج کا تلبیہ کہتے ہو ئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مکہ) آئے آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس (حج کی نیت اور احرا م کو) عمرے میں بدل دیں اور (عمرے کے بعد) حلال (عمرے سے فارغ) ہو جائیں (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی تھی اس لیے آپ اپنے حج کو عمرہ نہیں بنا سکتے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر (مکہ) پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسے عمرہ قرار دینے کا حکم دیا اور اس بات کا حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چونکہ ہدی تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عمرہ قرار نہ دے سکے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1216