الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
22. بَابُ جَوَازِ تَعْلِيقِ الْإِحْرَامِ وَهُوَ أَنْ يُحْرِمَ بِإِحْرَامٍٍ كَإِحْرَامِ فُلَانٍ فَيَصِير مُحْرِمًا بِإِحْرَامٍ مِثْلَ إِحْرَامِ فُلَانٍ
22. باب: اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کر نے کا جواز۔
حدیث نمبر: 2957
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ لِي: " أَحَجَجْتَ؟ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَقَدْ أَحْسَنْتَ، طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَأَحِلَّ "، قَالَ: فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ بَنِي قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ، قَالَ: فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ النَّاسَ حَتَّى كَانَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ رُوَيْدَكَ بَعْضَ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا فَلْيَتَّئِدْ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ فَائْتَمُّوا، قَالَ: فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ،
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کنکریلی زمین میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے (یعنی وہاں منزل کی ہوئی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جس نیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ پس میں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا (یہ ان کی محرم تھی) تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھو دیا۔ پھر میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا۔ (یعنی جو بغیر قربانی کے حج پر آئے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر یوم الترویہ 8۔ ذوالحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے لیکن) ایک مرتبہ میں حج کے مقام پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا، اس نے کہا کہ (تو تو احرام کھولنے کا فتویٰ دیتا ہے) آپ جانتے ہیں کہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے متعلق نیا کام شروع کر دیا۔ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ عمرہ کر کے احرام کو کھولنا نہیں چاہئے) تو میں نے کہا اے لوگو! ہم نے جس کو اس مسئلے کا فتویٰ دیا ہے اس کو رک جانا چاہئے۔ کیونکہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آنے والے ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے کہا، امیرالمؤمنین آپ نے قربانی کے متعلق یہ کیا نیا مسئلہ بتایا ہے؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ اللہ کی کتاب قرآن پر عمل کریں تو قرآن کہتا ہے: ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ۃَ لِلَّـہِ ۚ)) یعنی حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو (یعنی احرام نہ کھولو) اور اگر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو ان کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے احرام اس وقت تک نہ کھولا جب تک قربانی نہ کر لی۔ (آپ عمرہ اورحج کے درمیان حلال نہیں ہوئے)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے، آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: کیا حج کا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے کیسے تلبیہ کہا ہے؟ میں نے کہا، حاضر ہوں (لبیک) اس اہلال (احرام) کی نیت سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احرام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اچھا کیا ہے، بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کرو اور احرام ختم کر کے حلال ہو جاؤ۔ میں نے بیت اللہ، اور صفا و مروہ کا طواف کیا، پھر (اپنے قبیلہ) بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں، پھر میں نے حج کا احرام باندھا، اور میں لوگوں کو اس کا فتویٰ دیا کرتا تھا، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا دور آ گیا، تو مجھے ایک آدمی نے کہا، اے ابو موسیٰ! یا اے عبداللہ بن قیس! اپنے بعض فتوؤں سے رک جاؤ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں ہے، تیرے بعد امیر المؤمنین نے حج کے بارے میں کیا نیا فرمان جاری کیا ہے، تو حضرت ابو موسیٰ نے کہا، اے لوگو! جسے ہم نے فتویٰ دیا ہے، وہ ذرا توقف کرے، کیونکہ امیر المؤمنین آ رہے ہیں، انہیں کی اقتدا کرنا (پیروی کرنا)، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے، تو میں نے ان سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے فرمایا، اگر ہم کتاب اللہ پر عمل پیرا ہوں، تو وہ ہمیں (حج اور عمرہ الگ الگ) پورا کرنے کا حکم دیتی ہے، اور اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک حلال نہیں ہوئے، جب تک ہدی اپنے محل پر نہیں پہنچ گئی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نحر سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1221
حدیث نمبر: 2958
وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
معاذ بن معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سندسے اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
یہی روایت امام صاحب ایک دوسرے استاد سے بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1221
حدیث نمبر: 2959
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟ "، قُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ "، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ فِي إِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ وَإِمَارَةِ عُمَرَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ بِالْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ بِشَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ، فَائْتَمُّوا فَلَمَّا قَدِمَ، قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذَا الَّذِي أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ؟، قَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196 وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَام فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ،
سفیان ثوری نے قیس (بن مسلم) سے، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے باہروادی) بطحاء میں سواریاں بٹھائے ہوئے (پڑاؤڈالے ہوئے) تھےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ "تم نے کون سا تلبیہ پکارا ہے؟ (حج کا، عمرے کا، یا دونوں کا؟) "میں نے عرض کی: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ پس میں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا (یہ ان کی محرم تھی) تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھو دیا۔ پھر میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا۔ (یعنی جو بغیر قربانی کے حج پر آئے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر یوم الترویہ 8۔ ذوالحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے لیکن) ایک مرتبہ میں حج کے مقام پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا، اس نے کہا کہ (تو تو احرام کھولنے کا فتویٰ دیتا ہے) آپ جانتے ہیں کہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے متعلق نیا کام شروع کر دیا۔ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ عمرہ کر کے احرام کو کھولنا نہیں چاہئے) تو میں نے کہا اے لوگو! ہم نے جس کو اس مسئلے کا فتویٰ دیا ہے اس کو رک جانا چاہئے۔ کیونکہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آنے والے ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے کہا، امیرالمؤمنین آپ نے قربانی کے متعلق یہ کیا نیا مسئلہ بتایا ہے؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ اللہ کی کتاب قرآن پر عمل کریں تو قرآن کہتا ہے: ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ۃَ لِلَّـہِ ۚ)) یعنی حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو (یعنی احرام نہ کھولو) اور اگر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو ان کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے احرام اس وقت تک نہ کھولا جب تک قربانی نہ کر لی۔
حضرت ابو موسیٰ رضي الله تعاليٰ عنه بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ بطحائے مکہ میں قیام کیے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تو نے کس طرح احرام باندھا ہے؟ میں نے جواب دیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ہدی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بیت اللہ، صفا اور مروہ کا طواف کرو، پھر حلال ہو جاؤ میں نے بیت اللہ، اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا، میں لوگوں کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دور خلافت میں اس کے مطابق فتویٰ دیتا تھا، (کہ حج تمتع کرو) میں حج کے ایام میں کھڑا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا، تمہیں معلوم نہیں ہے، امیر المومنین نے حج کے بارے میں کیا نیا حکم جاری فرمایا ہے، تو میں نے کہا، اے لوگو! جسے ہم نے کوئی فتویٰ دیا ہے، وہ ذرا توقف کرے (اس پر عمل سے رک جائے) یہ امیر المؤمنین آپ کے پاس پہنچ رہے ہیں، انہیں کی پیروی کرنا، جب وہ پہنچ گئے، میں نے کہا، اے امیر المؤمنین! یہ حج کے بارے میں آپ نے کیا نیا فرمان جاری کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، اگر ہم کتاب اللہ پر عمل پیرا ہوں، تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (حج اور عمرہ دونوں کو (الگ الگ) اللہ کے لیے پورا کرو۔) اور اگر ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کریں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کے نحر کرنے تک حلال نہیں ہوئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1221
حدیث نمبر: 2960
وحَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ: فَوَافَقْتُهُ فِي الْعَامِ الَّذِي حَجَّ فِيهِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا مُوسَى كَيْفَ قُلْتَ حِينَ أَحْرَمْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ إِهْلَالًا كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هَلْ سُقْتَ هَدْيًا؟ "، فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَانْطَلِقْ فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَحِلَّ "، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَسُفْيَانَ.
ابو عمیس نے ہمیں قیس بن مسلم سے خبر دی، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجاتھا، پھر میری آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سال ملاقات ہوئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا: "ابو موسیٰ!"تم نے کون سا تلبیہ پکارا ہے؟ (حج کا، عمرے کا، یا دونوں کا؟) "میں نے عرض کی: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ آگے (ابو عمیس نے) شعبہ اور سفیان ہی کی طرح حدیث بیان کی۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تھا، اور میری واپسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سال ہوئی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے ابو موسیٰ! جب تم نے احرام باندھا تھا تو کیا کہا تھا؟ میں نے عرض کیا، میں نے کہا تھا، (لَبَّيْكَ اِهْلاَلاً كَاِهْلاَلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام جیسا احرام باندھ کر حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ہدی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ، بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرو، پھر حلال ہو جاؤ۔ آگے شعبہ اور سفیان کی طرح روایت ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1221
حدیث نمبر: 2961
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ، حَتَّى لَقِيَهُ بَعْدُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ : " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ، وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعْرِسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُونَ فِي الْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ ".
ابراہیم بن ابی موسیٰ نے حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حج تمتع (کرنے) کافتویٰ دیاکرتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: اپنےبعض فتووں میں زرا رک جاؤ، تم نہیں جانتے کہ اب امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے مناسک (حج) کے متعلق کیا نیا فرمان جاری کیا ہے۔بعد میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (حکم صادر) کیا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اس پرعمل) کیا، لیکن مجھے یہ بات ناگوارمعلوم ہوئی کہ لوگ عرفات کے پاس وادی عرفہ کے قریب اراک مقام میں (یا پیلو کے درختوں کی اوٹ میں) اپنی عورتوں کےساتھ لطف اندوز ہوتے رہیں۔پھر جب وہ (آٹھ ذوالحجہ یوم الترویہ کی) صبح حج کے لئے چلیں تو (غسل جنابت کریں اور) ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حج تمتع کا فتویٰ دیا کرتا تھا، تو مجھے ایک آدمی نے کہا، اپنے اس فتویٰ سے باز رہو، کیونکہ تمہیں پتہ نہیں ہے، تیرے بعد امیر المؤمنین نے حج کے بارے میں کیا نیا حکم جاری کیا ہے، حتی کہ بعد میں ان کی ملاقات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی، تو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، مجھے خوب معلوم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حج تمتع کیا ہے، لیکن میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے اپنی عورتوں سے تعلق قائم کریں، پھر حج کرنے کے لیے چلیں، اور ان کے سروں سے پانی کے قطرات گر رہے ہوں (غسل جنابت کے سبب)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1222