الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب اللِّعَانِ
لعان کا بیان
1. باب:
1. باب:
حدیث نمبر: 3743
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ : أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: أَرَأَيْتَ يَا عَاصِمُ، لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَسَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ، ومَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ عَاصِمٌ: لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ النَّاسِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا "، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ ".
3743. ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی کہ ابن شہاب سے روایت ہے، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں خبر دی کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: عاصم! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے کیا وہ اسے قتل کر دے، اس پر تو تم اسے (قصاصاً) قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے؟ عاصم! میرے لیے اس مسئلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے۔ چنانچہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے (غیر پیش آمدہ) مسائل کو ناپسند فرمایا اور ان کی مذمت کی، یہاں تک کہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ سے جو بات سنی وہ انہیں بہت گراں گزری۔ جب عاصم رضی اللہ تعالی عنہ واپس اپنے گھر آئے تو عویمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے عویمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: تو میرے پاس بھلائی (کی بات) نہیں لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کو جس کے متعلق میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں رکوں گا یہاں تک کہ میں (خود) اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لوں۔ چنانچہ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کی اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کرے اور آپ (قصاصاً) اسے قتل کر دیں گے یا پھر وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (قرآن) نازل ہو چکا ہے، تم جاؤ اور اسے لے کر آؤ۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ان دونوں نے آپس میں لعان کیا، میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے، عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں نے (اب) اس کو اپنے پاس رکھا تو (گویا) میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی انہوں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا: اس کے بعد یہی لعان کرنے والوں کا (شرعی) طریقہ ہو گیا-
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا، اے عاصم! آپ مجھے بتائیں، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے اور تم اسے (قاتل کو) قتل کر دو؟ یا وہ کیا کرے؟ تو آپ میری خاطر رسول اللہ سے پوچھ کر بتائیں، اے عاصم! تو عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ نے ایسے مسائل (جو ابھی پیش نہیں آئے) کے بارے میں پوچھنا ناپسند کیا، اور اس کی مذمت کی، حتی کہ عاصم نے جو کراہت و ناپسندیدگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، وہ اس پر شاق گزری، تو جب عاصم گھر واپس گئے تو ان کے پاس حضرت عویمر آئے، اور پوچھا، اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا جواب دیا؟ حضرت عاصم نے حضرت عویمر سے کہا، تو میرے لیے خیر کا سبب نہیں بنا، وہ مسئلہ جس کے بارے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ حضرت عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! جب تک اس مسئلہ کے بارے میں، میں آپ سے دریافت نہ کر لوں، میں باز نہیں آؤں گا۔ تو حضرت عویمر چلے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کے درمیان میں پہنچ گئے، اور پوچھا، اے اللہ کے رسول! آپ بتائیں، ایک آدمی دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے پاس پاتا ہے تو کیا اسے قتل کر دے تو آپ اس کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں حکم نازل ہو چکا ہے، تم جا کر اسے لے آو۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو ان دونوں نے لعان کیا، اور میں بھی لوگوں کے ساتھ، آپ کی مجلس میں حاضر تھا، تو جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہو گئے، تو حضرت عویمر نے کہا، اے اللہ کے رسول! اگر اب میں اس کو اپنے پاس رکھوں، تو میں نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے، اس لیے پیش ازیں کے آپ اسے حکم دیتے اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، امام ابن شہاب کہتے ہیں، لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہو گیا (کہ لعان سے دونوں میں تفریق ہو جاتی ہے)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1492
حدیث نمبر: 3744
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّ عُوَيْمِرًا الْأَنْصَارِيَّ مِنْ بَنِي الْعَجْلَانِ، أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَأَدْرَجَ فِي الْحَدِيثِ قَوْلَهُ وَكَانَ فِرَاقُهُ إِيَّاهَا بَعْدُ سُنَّةً فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَزَادَ فِيهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ حَامِلًا فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَى أُمِّهِ، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ أَنَّهُ يَرِثُهَا وَتَرِثُ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهَا.
3744. یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، (کہا:) مجھے حضرت سہل بن سعد انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے خبر دی کہ بنو عجلان میں سے عویمر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے، آگے انہوں نے امام مالک کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، انہوں نے ان (ابن شہاب) کا یہ قول حدیث کے اندر شامل کر لیا: اس کے بعد خاوند کی بیوی سے جدائی لعان کرنے والوں کا (شرعی) طریقہ بن گئی۔ اور انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا: حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: وہ عورت حاملہ تھی، اس کے بیٹے کو اس کی ماں کی نسبت سے پکارا جاتا تھا، پھر یہ طریقہ جاری ہو گیا کہ اللہ کے فرض کردہ حصے کے بقدر وہ (بیٹا) اس کا وارث بنے گا اور وہ (ماں) اس کی وارث بنے گی-
حضرت سہل بن سعد انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جو بنو عجلان سے تعلق رکھتے تھے عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے۔ آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، لیکن یہاں حدیث میں زہری کا قول، کہ اس کا اپنی بیوی سے الگ ہو جانا، بعد میں، لعان کرنے والوں میں رائج ہو گیا، داخل کر دیا گیا ہے، اور اس حدیث میں یہ اضافہ ہے وہ عورت حاملہ تھی، اور اس کا بیٹا، اپنی ماں ہی کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، پھر اس پر عمل جاری ہو گیا۔ کہ بیٹا اپنی ماں کا وارث ہو گا اور ماں کو اس سے وہ حصہ ملے گا، جو اللہ نے ماں کے لیے مقرر کیا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1492
حدیث نمبر: 3745
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَعَنِ السُّنَّةِ فيهما، عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَزَادَ فِيهِ، فَتَلَاعَنَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَاكُمُ التَّفْرِيقُ بَيْنَ كُلِّ مُتَلَاعِنَيْنِ.
3745. ابن جریج نے کہا: مجھے ابن شہاب نے، بنو ساعدہ کے فرد حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کے حوالے سے لعان کرنے والوں اور ان کے بارے میں جو طریقہ رائج ہے اس کے متعلق بتایا کہ انصار میں سے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے؟۔۔۔ آگے مکمل قصے سمیت حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا: ان دونوں نے، میری موجودگی میں، مسجد میں لعان کیا اور انہوں نے حدیث میں (یہ بھی) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہی میں اس سے جدا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو لعان کرنے والوں کے درمیان یہ تفریق ہی (شریعت کا حتمی طریقہ) ہے۔
ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابن شہاب نے، لعان کرنے والوں اور اس کے طریقہ کے بارے میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ، جو بنو ساعدہ کے فرد ہیں، کی حدیث کی روشنی میں بتایا کہ ایک انصاری آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! بتائیے، ایک آدمی نے دوسرے مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے؟ اور آگے مذکورہ بالا واقعہ بیان کیا، اور اس حدیث میں یہ اضافہ ہے، تو دونوں نے میری موجودگی میں مسجد میں لعان کیا، اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا، خاوند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنے طور پر، اسے تین طلاقیں دے دیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہی اس سے جدائی اختیار کر لی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعان کرنے والوں کے درمیان اس طرح جدائی ہو گی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1492
حدیث نمبر: 3746
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمْرَةِ مُصْعَبٍ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَمَضَيْتُ إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ: اسْتَأْذِنْ لِي، قَالَ: إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ صَوْتِي، قَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ادْخُلْ فَوَاللَّهِ مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا حَاجَةٌ، فَدَخَلْتُ، فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةً مُتَوَسِّدٌ وِسَادَةً حَشْوُهَا لِيفٌ، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَنْ لَوْ وَجَدَ أَحَدُنَا امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6، " فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ وَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ: " أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ "، قَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ دَعَاهَا فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا: " أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ "، قَالَتْ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ، إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا ".
3746. عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں عبدالملک بن ابی سلیمان نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت معصب رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ امارت میں مجھ سے لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا، کیا ان دونوں کو جدا کر دیا جائے گا؟ کہا: (اس وقت) مجھے معلوم نہ تھا کہ (جواب میں) کیا کہوں، چنانچہ میں مکہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گیا، میں نے غلام سے کہا: میرے لیے اجازت طلب کرو۔ اس نے کہا: وہ دوپہر کی نیند لے رہے ہیں۔ (اسی دوران میں) انہوں نے میری آواز سن لی تو انہوں نے پوچھا: ابن جبیر ہو؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اندر آ جاؤ، اللہ کی قسم! تمہیں اس گھڑی کوئی ضرورت ہی (یہاں) لائی ہے۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ ایک گدے پر لیٹے ہوئے تھے اور کھجور کی چھال بھرے ہوئے ایک تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کی: ابوعبدالرحمان! کیا لعان کرنے والوں کو آپس میں جدا کر دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! ہاں، اس کے بارے میں سب سے پہلے فلاں بن فلاں (عویمر بن حارث عجلانی) نے سوال کیا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے پائے تو وہ کیا کرے؟ اگر وہ بات کرے تو ایک بہت بڑے معاملے (قذف) کی بات کرے گا اور اگر وہ خاموش رہے تو اسی جیسے (ناقابلِ برداشت) معاملے میں خاموشی اختیار کرے گا۔ کہا: اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا اور سے کوئی جواب نہ دیا، پھر جب وہ اس (دن) کے بعد آپ کے پاس آیا تو کہنے لگا: میں نے جس کے بارے میں آپ سے سوال کیا تھا، اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں یہ آیات نازل کر دی تھیں: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ﴾ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے ان کی تلاوت فرمائی، اسے وعظ اور نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عورت) کو بلوایا۔ اسے وعظ اور نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! وہ (خاوند) جھوٹا ہے۔ اس پر آپ نے مرد سے (لعان کی) ابتدا کی، اس نے اللہ (کے نام) کی چار گواہیاں دیں کہ وہ سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ (کہا) کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوسری باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دی۔ تو اس نے اللہ (کے نام) کی چار گواہیاں دیں کہ وہ (خاوند) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ (کہا) کہ اگر وہ (خاوند) سچوں میں سے ہے، تو اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کو الگ کر دیا-
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے مصعب ابن زبیر کے دور حکومت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے گی؟ تو پتہ نہ چلا، کہ میں اس کا کیا جواب دوں، اس لیے میں مکہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے گھر کی طرف چلا، اور (جا کر) غلام سے کہا، میرے لیے اجازت طلب کرو، اس نے کہا، وہ قیلولہ کر رہے ہیں، تو انہوں نے میری آواز سن لی، پوچھا، ابن جبیر ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں، کہا، آجاؤ۔ اللہ کی قسم! تم اس وقت کسی ضرورت کے تحت ہی آئے ہو۔ تو میں اندر داخل ہو گیا۔ تو وہ ایک آتھر (چٹائی) پر لیٹے ہوئے تھے، اور ایک تکیہ کا سہارا لیا ہوا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا، اے ابو عبدالرحمان! کیا لعان کرنے والوں میں تفریق پیدا کر دی جائے گی؟ انہوں نے (حیرت و استعجاب سے) کہا، سبحان اللہ! ہاں، سب سے پہلے اس مسئلہ کے بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا تھا۔ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! بتائیے، ہم میں سے کوئی اگر بیوی کو بے حیائی کا کام کرتے ہوئے پائے، تو کیا کرے؟ اگر وہ کسی سے کلام کرے گا، تو انتہائی ناگوار بات کرے گا اور اگر خاموشی اختیار کرے گا تو بھی ایسی ہی صورت حال ہو گی۔ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے، اور اسے کوئی جواب نہ دیا تو وہ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی، جس مسئلہ کے بارے میں، میں نے آپ سے دریافت کیا تھا، میں اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیات اتاریں: اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں (آیت: 6 سے لے کر آیت: 9 تک)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاوت فرمائی اور اسے وعظ و نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب (حد قذف، اَسی کوڑے) آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں بہت ہلکا ہے۔ اس نے کہا، نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، میں نے اس پر جھوٹ نہیں باندھا، پھر آپ نے اس کی بیوی کو بلایا اور اسے نصیحت و تذکیر کی، اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب (سنگسار کرنا) آخرت کے مقابلہ میں ہلکا ہے عورت نے کہا، نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ وہ (خاوند) جھوٹا ہے تو آپ نے مرد سے ابتدا فرمائی۔ اس نے چار مرتبہ گواہی دی، اللہ کی قسم، میں سچا ہوں، اور پانچویں بار گواہی دی اگر میں جھوٹوں میں سے ہوں، تو مجھ پر اللہ کی پھٹکار۔ پھر دوسری بار، عورت کو بلایا، تو اس نے اللہ کی قسم اٹھا کر چار گواہیاں دیں، میرا خاوند جھوٹا ہے، اور پانچویں شہادت یہ دی اگر وہ سچا ہو تو اس پر (مجھ پر) اللہ کا عذاب نازل ہو، پھر آپ نے ان کے درمیان تفریق پیدا کر دی۔ حضرت مصعب بن زبیر اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں عراق کے گورنر تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1493
حدیث نمبر: 3747
وحَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ زَمَنَ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، فَلَمْ أَدْرِ مَا أَقُولُ، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ.
3747. عیسیٰ بن یونس نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں عبدالملک بن ابی سلیمان نے حدیث سنائی، کہا: میں نے سعید بن جبیر سے سنا، کہا: معصب بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں مجھ سے لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کیا کہوں، چنانچہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا، میں نے کہا: لعان کرنے والوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا ان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے گا۔۔۔ پھر ابن نمیر کی حدیث کی طرح بیان کیا-
سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں، مجھ سے مصعب بن زبیر کے عہد میں، لعان کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو مجھے پتہ نہ چل سکا کہ میں کیا جواب دوں، تو میں عبداللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا، بتائیے کیا لعان کرنے والوں میں تفریق کی جائے گی آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1493
حدیث نمبر: 3748
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي؟ قَالَ: " لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا ". قَالَ زُهَيْرٌ فِي رِوَايَتِهِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
3748. یحییٰ بن یحییٰ، ابوبکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے ہمیں حدیث بیان کی۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں، یحییٰ نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے خبر دی جبکہ دوسروں نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی۔۔ انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے فرمایا: تم دونوں کا (اصل) حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ (اب) تمہارا اس (عورت) پر کوئی اختیار نہیں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا مال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے کوئی مال نہیں، اگر تم نے سچ بولا ہے تو یہ اس کے عوض ہے جو تم نے (اب تک) اس کی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال کیے رکھا، اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تو یہ (مال) تمہارے لیے اس کی نسبت بھی بعید تر ہے۔ زہیر نے اپنی روایت میں کہا: ہمیں سفیان نے عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور الفاظ یحییٰ کے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں کو فرمایا: تمہارا محاسبہ اللہ کرے گا اور تم میں سے ایک بہرحال جھوٹا ہے، اب تمہارا اس عورت پر کوئی حق نہیں ہے۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا مال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا کوئی مال نہیں ہے، اگر تم نے اس کے بارے میں سچ بولا ہے تو وہ اسے ملے گا کیونکہ تم نے اس کی شرم گاہ کو اپنے لیے روا کر لیا ہے (اس سے فائدہ اٹھا چکے ہو) اور اگر تم نے اس پر افترا باندھا ہے، تو اس کے سبب تم اس سے بہت دور ہو چکے ہو۔ زہیر کی روایت میں عمرو کے سعید سے اور سعید کے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سماع کی تصریح ہے، عنعنہ نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1493
حدیث نمبر: 3749
وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: " اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ ".
3749. حماد نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان سے تعلق رکھنے والے دو افراد (میاں بیوی) کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور فرمایا: اللہ (خوب) جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، کیا تم میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے میاں اور بیوی میں تفریق کر دی اور فرمایا: اللہ جانتا ہے، تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی توبہ کرنے کے لیے تیار ہے؟
ترقیم فوادعبدالباقی: 1493
حدیث نمبر: 3750
وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ : عَنِ اللِّعَانِ، فَذَكَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
3750. سفیان نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کے بارے میں پوچھا۔ اس کے بعد انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند بیان کیا-
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر کہتے ہیں، میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1493
حدیث نمبر: 3751
وحَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِلْمِسْمَعِيِّ، وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: لَمْ يُفَرِّقْ الْمُصْعَبُ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، قَالَ سَعِيدٌ: فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، فَقَالَ: " فَرَّقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ ".
3751. عزرہ نے سعید بن جبیر سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت معصب ؓ نے لعان کرنے والوں کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا۔ سعید نے کہا: میں نے یہ بات حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو بتائی تو انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان سے تعلق رکھنے والے دو افراد (میاں بیوی) کو ایک دوسرے سے جدا کیا تھا-
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، الفاظ مسمعی اور ابن مثنی کے ہیں، سعید بن جبیر کہتے ہیں، مصعب نے لعان کرنے والوں میں تفریق نہ کی۔ سعید کہتے ہیں، اس بات کا تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے بھائیوں، یعنی میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دی تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1493
حدیث نمبر: 3752
وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح، وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِمَالِك : حَدَّثَكَ نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ، قَالَ: نَعَمْ ".
3752. یحییٰ بن یحییٰ نے کہا۔۔ اور الفاظ انہی کے ہیں۔۔ میں نے امام مالک سے پوچھا: کیا آپ سے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی سے لعان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور بچے (کے نسب) کو اس کی ماں کے ساتھ ملا دیا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی بیوی سے لعان کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی ڈال دی اور بچے کو ماں کے ساتھ ملایا، امام مالک نے نافع سے اس روایت کے سماع کی تصدیق کی، اس لیے کہا: ہاں میں نے سنا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1494
حدیث نمبر: 3753
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَامْرَأَتِهِ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا ".
3753. ابواسامہ اور عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا اور ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دی-
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کروایا اور ان میں جدائی ڈال دی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1494
حدیث نمبر: 3754
3754. یحییٰ قطان نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی-
امام صاحب مذکورہ بالا روایت دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1494
حدیث نمبر: 3755
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وإسحاق بن إبراهيم ، واللفظ لزهير، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: إِنَّا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَتَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللَّهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَتَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ، أَوْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ افْتَحْ، وَجَعَلَ يَدْعُو "، فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6 هَذِهِ الْآيَاتُ، فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَلَاعَنَا، فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، فَذَهَبَتْ لِتَلْعَنَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْ، فَأَبَتْ، فَلَعَنَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا، قَالَ: " لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا "، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا.
3755. جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم جمعے کی رات مسجد میں تھے کہ انصار میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے اور بات کرے تو آپ لوگ اسے (قذف کے) کوڑے لگاؤ گے، یا اسے قتل کر دے تو آپ لوگ اسے (قصاصاً) قتل کر دو گے۔ اور اگر وہ خاموش رہے تو غیظ و غضب (کی کیفیت) پر خاموش رہے گا (جو ناقابلِ برداشت ہے۔) اللہ کی قسم! میں ہر صورت اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کروں گا، جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے اور بولے تو آپ اسے (قذف کے) کوڑے لگائیں گے، یا اسے قتل کر دے تو آپ اسے (قصاص میں) قتل کر دیں گے، اگر وہ خاموش رہے تو غیظ و غضب (کے بھڑکتے الاؤ) پر خاموش رہے گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے اللہ! (اس عقدے کو) کھول دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل دعا فرماتے رہے (پھر حضرت ہلال بن امیہ کا واقعہ پیش آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور زیادہ الحاح سے دعا فرمائی) تو لعان کی آیت نازل ہوئی: وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے اپنے علاوہ ان کا کوئی گواہ نہ ہو۔۔ (پہلے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے لعان کیا، پھر) لوگوں میں سے وہی آدمی (جس نے آ کر اس حوالے سے سوال کیا تھا) اس میں مبتلا ہوا، تو وہ اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان دونوں نے باہم لعان کیا، مرد نے اللہ (کے نام) کی چار شہادتیں دیں (قسمیں کھائیں) کہ وہ سچوں میں سے ہے، پھر پانچویں مرتبہ اس نے لعنت بھیجی کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر اس کے بعد وہ لعان کرنے لگی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: رکو (جھوٹی قسم نہ کھاؤ، لعنت کی سزاوار نہ بنو) تو اس نے انکار کر دیا اور لعان کیا، جب وہ دونوں پیٹھ پھیر کر مڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو سکتا ہے وہ سیاہ فام رنگ گھنگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دے تو (واقعی) اس نے سیاہ فام گھنگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دیا-
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، الفاظ زہیر کے ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جمعہ کی رات مسجد میں حاضر تھے کہ ایک انصاری آدمی آیا اور اس نے پوچھا، اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو دیکھے اور اس کے بارے میں زبان کھولے تو تم اسے کوڑے لگاؤ گے اور اگر قتل کر دے تو تم اسے قتل کر دو گے اور اگر کوئی چپ رہے، تو غیظ و غضب کے ساتھ چپ رہے گا۔ اللہ کی قسم! میں یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر رہوں گا، تو جب اگلا دن ہوا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور کہا، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے اور اس کے بارے میں گفتگو کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کوڑے لگائیں گے اور اگر قتل کر دے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل کر دیں گے یا غیظ و غضب کے ساتھ چپ رہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ، اس مسئلہ کا حکم واضح فرما۔ اور دعا فرمانے لگے، تو آیت لعان اتری اور جو خاوند اپنی بیوی پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس، اپنے سوا کوئی گواہ نہیں ہے۔ یہ ساری آیات اتریں۔ اور لوگوں میں وہی انسان اس مسئلہ سے دوچار ہوا، تو وہ اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لعان کیا، مرد نے اللہ کے نام کی چار شہادتیں دیں کہ وہ سچا ہے (سچوں میں سے ہے) پانچویں دفعہ لعنت بھیجی کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو (جھوٹا ہو) تو اس پر اللہ کی پھٹکار، وہ عورت بھی لعان کرنے لگی تو آپ نے فرمایا: رک جا، باز رہ۔ اس نے انکار کر دیا اور لعان کیا، تو جب میاں بیوی پشت پھیر کر چل دئیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید، بچہ سیاہ فام، گھٹے جسم کا پیدا ہو گا تو وہ سیاہ، گھٹے جسم والا پیدا ہوا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1495
حدیث نمبر: 3756
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، جَمِيعًا، عَنْ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
3756. عیسیٰ بن یونس اور عبدہ بن سلیمان نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی-
امام صاحب دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1495
حدیث نمبر: 3757
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، وَأَنَا أُرَى أَنَّ عِنْدَهُ مِنْهُ عِلْمًا، فَقَالَ: إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، وَكَانَ أَخَا الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ لِأُمِّهِ، وَكَانَ أَوَّلَ رَجُلٍ لَاعَنَ فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَلَاعَنَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ، فَهُ وَلِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَهُ وَلِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ "، قَالَ: فَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ.
3757. محمد (بن سیرین) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور میرا خیال تھا کہ ان کو اس کے بارے میں علم ہے، انہوں نے کہا: ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (ملوث ہونے کا) الزام لگایا۔ وہ (شریک) ماں کی طرف سے براء بن مالک رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا اور وہ (ہلال رضی اللہ عنہ) پہلا آدمی تھا جس نے اسلام میں لعان کیا، کہا: اس نے عورت سے لعان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اس (عورت) پر نگاہ رکھنا، اگر تو اس نے سفید رنگ کے، سیدھے بالوں اور بیمار آنکھوں والے بچے کو جنم دیا تو وہ ہلال بن امیہ کا ہو گا اور اگر اس نے سرمئی آنکھوں، گھنگھریالے بالوں اور باریک پنڈلیوں والے بچے کو جنم دیا تو وہ شریک بن سحماء کا ہو گا۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھے خبر دی گئی کہ اس عورت نے سرمئی آنکھوں، گھنگھریالے بالوں اور باریک پنڈلیوں والے بچے کو جنم دیا-
محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیونکہ میں سمجھتا تھا انہیں اس کا علم ہے، انہوں نے بتایا، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ غلط کاری کی تہمت لگائی۔ جو براء بن مالک کا اخیافی (ماں کی طرف سے) بھائی تھا۔ یہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے اسلام کے دور میں لعان کیا، اس نے بیوی سے لعان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عورت پر نظر رکھنا، اگر اس نے بچہ، سفید اور کھلے بالوں والا اور خراب آنکھوں والا جنا تو وہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کا ہے، اور اگر بچہ سرمئی آنکھوں والا، گھنگھریالے بالوں والا، باریک پنڈلیوں والا جنا تو وہ شریک بن سحماء کا ہو گا۔ تو مجھے بتایا گیا کہ اس نے سرمئی آنکھوں والا، گھنگھریالے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1496
حدیث نمبر: 3758
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، وَعِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيَّانِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رُمْحٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا آدَمَ كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا "، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ.
3758. لیث نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لعان کا تذکرہ کیا گیا تو عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں کوئی بات کہی، پھر وہ چلے گئے، تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک آدمی شکایت لے کر آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پایا ہے۔ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں اس مسئلے میں محض اپنی بات کی وجہ سے مبتلا ہوا ہوں، چنانچہ وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اس نے آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتایا جسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا اور وہ (تہمت لگانے والا) آدمی زرد رنگت، کم گوشت اور سیدھے بالوں والا تھا، اور جس کے متعلق اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے وہ بھری پنڈلیوں، گندمی رنگ اور زیادہ گوشت والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! (معاملہ) واضح فرما۔ تو اس عورت نے (بعد ازاں جب بچے کو جنم دیا تو) اس آدمی کے مشابہ بچے کو جنم دیا جس کا اس کے خاوند نے ذکر کیا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کروایا تھا۔ مجلس میں ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہسے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: نہیں، وہ عورت اسلام میں (داخل ہو جانے کے باوجود) علانیہ برائی (زنا) کرتی تھی۔ (لیکن مکمل گواہیاں دستیاب نہ ہوتی تھیں-)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لعان کا ذکر چھڑا تو عاصم نے اس کے بارے میں گفتگو کی، پھر مجلس سے چلے گئے۔ تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک آدمی یہ شکایت لے کر آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرد کو پایا ہے۔ تو عاصم نے کہا، میں اس معاملے سے اپنی بات کی بنا پر دو چار ہوا ہوں۔ تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کو اس کی بیوی کی صورت حال کی خبر دی، اور وہ آدمی (عویمر) زرد اور دبلا پتلا اور کھلے بالوں والا تھا۔ اور جس آدمی کے بارے میں دعویٰ کیا کہ اسے اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، وہ بھری پنڈلیوں والا، گندمی رنگ والا اور بہت موٹا تازہ تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! واضح فرما۔ تو اس نے اس مرد کے مشابہہ بچہ جنا، جس کے بارے میں اس کے خاوند نے بتایا تھا کہ وہ اس عورت کے پاس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں لعان کروایا تو مجلس میں سے ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، کیا اس عورت کے بارے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر میں کسی کو گواہوں کے بغیر رجم کرتا، تو اس کو رجم کر دیتا؟ ابن عباس نے جواب دیا۔ نہیں، وہ ایسی عورت تھی جو مسلمان ہو کر بے حیائی کے کام کرتی تھی۔ یعنی اس کی چال ڈھال اور ہیئیت سے اس کے فاحشہ ہونے کا پتہ چلتا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں گواہ موجود نہیں تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1497
حدیث نمبر: 3759
وحَدَّثَنِيهِ أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَي ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ الْمُتَلَاعِنَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَزَادَ فِيهِ، بَعْدَ قَوْلِهِ كَثِيرَ اللَّحْمِ، قَالَ: جَعْدًا قَطَطًا.
3759. سلیمان بن بلال نے مجھے یحییٰ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن قاسم نے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا گیا۔۔۔ آگے لیث کی حدیث کے مانند ہے اور انہوں نے زیادہ گوشت والا کے الفاظ کے بعد یہ اضافہ کیا، کہا: بہت زیادہ اور گھنگھریالے بالوں والا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا گیا، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے۔ اس حدیث میں کثیر اللحم
ترقیم فوادعبدالباقی: 1497
حدیث نمبر: 3760
وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ : وَذُكِرَ الْمُتَلَاعِنَانِ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ ابْنُ شَدَّادٍ: أَهُمَا اللَّذَانِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُهَا "، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ أَعْلَنَتْ. قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ.
3760. عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ الفاظ عمرو کے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابوزناد سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے روایت کی، انہوں نے کہا: عبداللہ بن شداد نے کہا: ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ ہوا تو ابن شداد نے پوچھا: کیا یہی دونوں تھے جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: نہیں، وہ عورت علانیہ (برائی) کرتی تھی، ابن ابی عمر نے قاسم بن محمد سے بیان کردہ اپنی روایت میں کہا کہ انہوں (قاسم) نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے سنا۔
عبداللہ بن شداد بیان کرتے ہیں، ابن عباس ؓ کے سامنے لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا گیا تو ابن شداد نے پوچھا، کیا یہ وہی دو ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر میں کسی کو بغیر گواہوں کے سنگسار کرتا، تو اس عورت کو رجم کرتا۔ تو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، نہیں۔ وہ عورت کھلم کھلا فحش حرکات کرتی تھی۔ ابن ابی عمرو کی روایت میں قاسم بن محمد، براہ راست ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے سماع کی تصریح کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1497
حدیث نمبر: 3761
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قَالَ سَعْدٌ: بَلَى، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ ".
3761. عبدالعزیز نے ہمیں سہیل سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (صالح) سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس آدمی کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کر دے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ عزت بخشی، کیوں نہیں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو!) جو بات تمہارا سردار کہہ رہا ہو، اس کو سنو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول! بتائیے ایک آدمی، دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ پاتا ہے۔ کیا اس کو قتل کر دے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیوں نہیں؟ اس ذات کی قسم، جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کی بات سنو، وہ کیا کہتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1498
حدیث نمبر: 3762
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِي رَجُلًا أأمْهِلُهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ: نَعَمْ ".
3762. امام مالک نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد (صالح) سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ (یہ آیتِ لعان اترنے سے پہلے کا فرمان ہے۔)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول! اگر میں کسی مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو کیا اسے چار گواہوں کے لانے تک، مہلت دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1498
حدیث نمبر: 3763
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ وَجَدْتُ مَعَ أَهْلِي رَجُلًا لَمْ أَمَسَّهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: كَلَّا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنْ كُنْتُ لَأُعَاجِلُهُ بِالسَّيْفِ قَبْلَ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ، إِنَّهُ لَغَيُورٌ وَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي ".
3763. سلیمان بن بلال سے روایت ہے، کہا: مجھے سہیل نے اپنے والد (صالح) کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو میں اسے ہاتھ نہ لگاؤں حتی کہ چار گواہ پیش کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے کہا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں تو اسے اس سے پہلے ہی تلوار کا نشانہ بناؤں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو!) جو تمہارا سردار کہہ رہا ہے اس بات کو سنو! بلاشبہ وہ غیرت والا ہے، میں اس سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول! اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو میں اسے اس وقت تک کچھ نہ کہوں (ہاتھ نہ لگاؤں) یہاں تک کہ چار گواہ لے آؤں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا، ممکن نہیں ہے، اس ذات کی قسم! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے۔ میں تو یقیناً اس کے اس سے پہلے ہی تلوار کا نشانہ بناؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کی بات پر کان دھرو۔ وہ بلاشبہ غیرت مند ہے، اور میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے (اس کے باوجود اس کا قانون یہی ہے۔)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1498
حدیث نمبر: 3764
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ : لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرُ مُصْفِحٍ عَنْهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ؟ فَوَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي، مِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ اللَّهُ الْمُرْسَلِينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللَّهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ ".
3764. ابوعوانہ نے ہمیں عبدالملک بن عمیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے۔۔ مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے کاتب۔۔ وراد سے، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا، سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اسے تلوار کو اس سے موڑے بغیر (دھار کو دوسری طرف کیے بغیر سیدھی تلوار) ماروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے ہیں۔ اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں، اسی لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اگر میں کسی مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو بغیر اس کے تلوار کو چوڑائی میں کروں یا اس سے درگزر کروں، اس کی گردن اڑا دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کا قول پہنچا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت و تعجب ہے؟ اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں، اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے، اللہ نے غیرت کی بنا پر ہی، بے حیائی کے کاموں سے منع فرمایا۔ بے حیائی کھلی ہو چھپی، اور اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص زیادہ غیرت مند نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں ہے، اس لیے اس نے رسولوں کو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی شخص کو تعریف و مدح پسند نہیں ہے۔ اس لیے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1499
حدیث نمبر: 3765
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: غَيْرَ مُصْفِحٍ، وَلَمْ يَقُلْ عَنْهُ.
3765. زائدہ نے عبدالملک بن عمیر سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مسنند روایت کی، البتہ انہوں نے موڑے بغیر کہا، اس کے ساتھ اس سے نہیں کہا۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں غير مصفح
ترقیم فوادعبدالباقی: 1499
حدیث نمبر: 3766
وَحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَمَا أَلْوَانُهَا؟ "، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: " هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟ "، قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: " فَأَنَّى أَتَاهَا ذَلِكَ "، قَالَ: عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: " وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ ".
3766. سفیان بن عیینہ نے ہمیں زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: بنوفزارہ کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کی، میری بیوی نے سیاہ رنگ کے بچے کو جنم دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے اپنے کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے عرض کی: سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: (جی ہاں) ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ ان میں کہاں سے آ گئے؟ اس نے عرض کی: ممکن ہے اسے (ننھیال یا ددھیال کی) کسی رگ (Gene) نے (اپنی طرف) کھینچ لیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بچے کو بھی ممکن ہے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور الفاظ قتیبہ کے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو فزارہ کا ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، میری بیوی نے سیاہ بچہ جنا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا، سرخ رنگ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ان میں کوئی خاکستری (مٹیالا) کا بھی ہے؟ اس نے کہا، ان میں خاکستری بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ان میں کہاں سے آ گئے؟ اس نے کہا، ہو سکتا ہے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو بھی ممکن ہے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1500
حدیث نمبر: 3767
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ . ح وحَدَّثَنِي ابْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ جَمِيعًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ مَعْمَرٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَدَتِ امْرَأَتِي غُلَامًا أَسْوَدَ وَهُوَ حِينَئِذٍ يُعَرِّضُ بِأَنْ يَنْفِيَهُ وَزَادَ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ، وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الِانْتِفَاءِ مِنْهُ.
3767. معمر اور ابن ابی ذئب دونوں نے زہری سے اسی سند کے ساتھ ابن عیینہ کے ہم معنی حدیث روایت کی، البتہ معمر کی حدیث میں ہے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری بیوی نے سیاہ رنگ کے بچے کو جنم دیا ہے، اور وہ اس وقت اسے اپنا نہ ماننے کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور حدیث کے آخر میں یہ اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس بچے کو اپنا نہ ماننے کی اجازت نہ دی۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت چار اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، لیکن معمر زہری سے اس طرح بیان کرتے ہیں، اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! میری بیوی نے سیاہ بچہ جنا ہے، اور وہ اس طرح اس کے اپنا ہونے کی نفی کی طرف اشارہ اور تعریض کر رہا تھا، اور حدیث کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بچے کی اپنا ہونے کی نفی یا انکار کی اجازت نہیں دی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1500
حدیث نمبر: 3768
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أَنْكَرْتُهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " مَا أَلْوَانُهَا؟ "، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: " فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَنَّى هُوَ "، قَالَ: لَعَلَّهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَكُونُ نَزَعَهُ عِرْقٌ لَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَهَذَا لَعَلَّهُ يَكُونُ نَزَعَهُ عِرْقٌ لَهُ ".
3768. یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے سیاہ رنگ کے بچے کو جنم دیا ہے، اور میں نے اس (کو اپنانے) سے انکار کر دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تمہارے کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے عرض کی: سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کہاں سے آیا؟ کہنے لگا: اللہ کے رسول! ممکن ہے اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: اور یہ (بچہ) شاید اسے بھی اس کی کسی رگ نے (اپنی طرف) کھینچ لیا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہا، اے اللہ کے رسول! میری بیوی نے سیاہ فام بچہ جنا ہے، اور میں اسے انوکھا محسوس کرتا ہوں یا مجھے اس پر حیرت و تعجب ہے (میں اجنبیت اور بیگانگی محسوس کرتا ہوں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے جواب دیا، سرخ رنگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ان میں کوئی مٹیالا بھی ہے؟ اس نے کہا، جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: وہ کہاں سے آ گیا؟ اس نے کہا، شاید وہ اے اللہ کے رسول! اس کی کسی اصل نے اسے کھینچ لیا ہو۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: اس کو بھی شاید اس کے کسی اصل (دادا، نانا) نے کھینچ لیا ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1500
حدیث نمبر: 3769
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنٌ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، كَانَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
3769. عقیل نے ابن شہاب سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے تھے۔۔۔ ان (سفیان، معمر، ابن ابی ذئب اور یونس) کی حدیث کی طرح۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ ہمیں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت پہنچی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا روایت کرتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1500