الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْوَصِيَّةِ
وصیت کے احکام و مسائل
6. باب تَرْكِ الْوَصِيَّةِ لِمَنْ لَيْسَ لَهُ شيء يُوصِي فِيهِ:
6. باب: جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 4227
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ: " سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: لَا، قُلْتُ: فَلِمَ كُتِبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةُ أَوْ فَلِمَ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟، قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "،
عبدالرحمان بن مہدی نے ہمیں مالک بن مغول سے خبر دی اور انہوں نے طلحہ بن مصرف سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ میں نے پوچھا: تو مسلمانوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا ہے یا انہیں وصیت کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ترکے کو تقسیم کرنے کی وصیت نہیں کی بلکہ) اللہ تعالیٰ کی کتاب (کو اپنانے، عمل کرنے) کی وصیت کی
طلحہ بن مصرف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں، میں نے پوچھا، تو مسلمانوں پر وصیت کرنا کیوں فرض قرار دیا گیا، یا انہیں وصیت کرنے کا کیوں حکم دیا گیا؟ انہوں نے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کے بارے میں وصیت فرمائی تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1634
حدیث نمبر: 4228
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ، قُلْتُ: فَكَيْفَ أُمِرَ النَّاسُ بِالْوَصِيَّةِ؟، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، قُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةُ؟.
وکیع اور ابن نمیر دونوں نے مالک بن مغول سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی، البتہ وکیع کی حدیث میں ہے: میں نے پوچھا: تو لوگوں کو وصیت کا کیسے حکم دیا گیا ہے؟ اور ابن نمیر کی حدیث میں ہے: میں نے پوچھا: مسلمانوں پر وصیت کیسے فرض کی گئی ہے
امام صاحب مذکورہ بالا روایت دو اساتذہ کی سندوں سے، مالک بن مغول ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں، وکیع کی حدیث میں ہے، میں نے پوچھا، تو لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں دیا گیا؟ اور ابن نمیر کی روایت ہے، میں نے پوچھا، مسلمانوں پر وصیت کیسے فرض کر دی گئی؟
ترقیم فوادعبدالباقی: 1634
حدیث نمبر: 4229
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ . ح، وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا شَاةً وَلَا بَعِيرًا وَلَا أَوْصَى بِشَيْءٍ "،
عبداللہ بن نمیر اور ابومعاویہ دونوں نے کہا: ہمیں اعمش نے ابووائل سے حدیث بیان کی، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کوئی دینار ترکہ میں چھوڑا نہ درہم، نہ کوئی بکری، نہ اونٹ اور نہ ہی آپ نے (اس طرح کی) کسی چیز کے بارے میں وصیت کی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کوئی دینار چھوڑا اور نہ درہم، نہ بکری، نہ اونٹ، اور نہ کسی (مالی چیز) کے بارے میں وصیت کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1635
حدیث نمبر: 4230
جریر اور عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی دو سندوں سے، اعمش سے ہی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1635
حدیث نمبر: 4231
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: " ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ وَصِيًّا، فَقَالَتْ: مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ فَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي، أَوْ قَالَتْ حَجْرِي؟، فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ؟ ".
اسود بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ذکر کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وصی (جسے وصیت کی جائے) تھے۔ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کب وصیت کی؟ بلاشبہ آپ کو اپنے سینے سے۔۔ یا کہا: اپنی گود سے۔۔ سہارا دینے والی میں تھی، آپ نے برتن منگوایا، اس کے بعد آپ (کمزوری سے) میری گود ہی میں جھک گئے اور مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ آپ کی وفات ہو گئی، تو آپ نے انہیں کب وصیت کی
اسود بن یزید بیان کرتے ہیں، لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی، تو انہوں نے کہا، انہیں کب وصیت کی؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے کا سہارا دیا ہوا تھا، یا کہنے لگیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں ٹیک لگائے ہوئے تھے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تھال منگوایا اور میری گود میں گر گئے، اور مجھے پتہ نہ چل سکا، کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کب وصیت کی؟
ترقیم فوادعبدالباقی: 1636
حدیث نمبر: 4232
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَاللَّفْظُ لِسَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟، قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي، فَتَنَازَعُوا وَمَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، وَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ؟، قَالَ: دَعُونِي، فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ أُوصِيكُمْ بِثَلَاثٍ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، قَالَ: وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَهَا فَأُنْسِيتُهَا "، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
ہمیں سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ اور عمرو ناقد نے حدیث بیان کی۔۔ الفاظ سعید کے ہیں۔۔ سب نے کہا: ہمیں سفیان نے سلیمان احول سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جمعرات کا دن، اور جمعرات کا دن کیسا تھا! پھر وہ رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں نے سنگریزوں کو تر کر دیا۔ میں نے کہا: ابوعباس! جمعرات کا دن کیا تھا؟ انہون نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے فرمایا: "میرے پاس (لکھنے کا سامان) لاؤ، میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔" تو لوگ جھگڑ پڑے، اور کسی بھی نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ نے بیماری کے زیر اثر گفتگو کی ہے؟ آپ ہی سے اس کا مفہوم پوچھو! آپ نے فرمایا: "مجھے چھوڑ دو، میں جس حالت میں ہوں وہ بہتر ہے۔ میں تمہیں تین چیزوں کی وصیت کرتا ہوں؛ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور آنے والے وفود کو اسی طرح عطیے دینا جس طرح میں انہیں دیا کرتا تھا۔" (سلیمان احول نے) کہا: وہ (سعید بن جبیر) تیسری بات کہنے سے خاموش ہو گئے یا انہوں نے کہی اور میں اسے بھول گیا۔ ابواسحاق ابراہیم نے کہا: ہمیں حسن بن بشر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے یہی حدیث بیان کی
امام صاحب اپنے کئی اساتذہ سے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا، جمعرات کا دن، جمعرات کا دن کس قدر سنگین تھا، پھر وہ رو پڑے، حتی کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہو گئیں، میں نے پوچھا، جمعرات کے دن سے کیا مقصد ہے؟ انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوات کتاب لاؤ، میں تمہیں تحریر کر دوں، میرے بعد تم پریشان نہیں ہو گے، یا غلطی نہیں کرو گے۔ تو صحابہ کرام میں اختلاف پیدا ہو گیا، اور نبی کے پاس جھگڑا کرنا مناسب نہیں ہوتا، اور کہنے لگے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا معاملہ ہے؟ کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چھوڑ رہے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے رہنے دو، میں جس سوچ و فکر میں ہوں، بہتر ہے، میں تمہیں تین چیزوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا، آنے والوں کو اس طرح تحفے تحائف دینا، جیسے میں دیتا تھا سعید بن جبیر، تیسری چیز سے خاموش ہو گئے، یا انہوں نے بتائی میں (سلیمان احول) وہ بھول گیا ہوں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1637
حدیث نمبر: 4233
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ جَعَلَ تَسِيلُ دُمُوعُهُ حَتَّى رَأَيْتُ عَلَى خَدَّيْهِ كَأَنَّهَا نِظَامُ اللُّؤْلُؤِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ، أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهْجُرُ ".
طلحہ بن مُصرف نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: جمعرات کا دن، جمعرات کا دن کیسا تھا! پھر ان کے آنسو بہنے لگے حتی کہ میں نے ان کے دونوں رخساروں پر دیکھا گویا موتیوں کی لڑی ہو، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس شانے کی ہڈی اور دوات لاؤ۔۔ یا تختی اور دوات۔۔ میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں، اس کے بعد تم ہرگز کبھی گمراہ نہ ہو گے۔" تو لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کے زیر اثر گفتگو فرما رہے ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، جمعرات کا دن، جمعرات کا دن بھی کیا ہی عجیب تھا، پھر ان کے آنسو جاری ہو گئے، سعید کہتے ہیں، میں نے آنسوؤں کو ان کی رخساروں پر اس طرح دیکھا، گویا کہ وہ موتیوں کی لڑی ہے، ابن عباس نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس شانے کی ہڈی اور دوات یا تختی اور دوات لاؤ، میں تمہیں ایک تحریر لکھوا دوں، اس کے بعد تم ہرگز سرگرداں نہیں ہو گے۔ تو صحابہ نے سمجھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم داغ مفارقت دے رہے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1637
حدیث نمبر: 4234
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّونَ بَعْدَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ، فَاخْتَصَمُوا، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا "، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ.
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا، گھر میں کچھ آدمی موجود تھے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس آؤ، میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں، اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔" تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف اور درد کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے، ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس پر گھر کے افراد نے اختلاف کیا اور جھگڑ پڑے، ان میں سے کچھ کہہ رہے تھے: (لکھنے کا سامان) قریب لاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کتاب لکھ دیں تاکہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اور ان میں سے کچھ وہی کہہ رہے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زیادہ شور اور اختلاف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اٹھ جاؤ۔" عبیداللہ نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: یقینا مصیبت تھی بڑی مصیبت جو ان کے اختلاف اور شور کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وہ تحریر لکھنے کے درمیان حائل ہو گئی (کہ آپ کتابت نہ کرا سکے
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آ پہنچا، اور گھر میں بہت سے افراد تھے، جن میں عمر بن خطاب بھی تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آؤ، میں تمہیں ایک تحریر لکھوا دوں، اس کے بعد تم حیران نہیں ہو گے، تو حضرت عمر ؓ کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیمار ہیں (اس لیے آپ کو لکھوانے کی زحمت نہیں دینی چاہیے) اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے، ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے (اس کی موجودگی میں ہم سرگرداں اور حیران نہیں ہوں گے) تو گھر والوں میں اختلاف پیدا ہو گیا، وہ آپس میں جھگڑنے لگے، ان میں سے کوئی کہہ رہا تھا، مطلوبہ چیز مہیا کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھوا دیں، جس سے تم بعد میں پریشانی یا غلطی سے بچ سکو گے، اور ان میں سے بعض حضرت عمر کی ہمنوائی کر رہے تھے، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرین کا شور اور اختلاف بڑھ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اٹھ جاؤ۔" عبیداللہ کہتے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ کہتے تھے، مصیبت، مکمل مصیبت، ان کا وہ اختلاف اور شور ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادہ کے درمیان حائل ہوا، کہ آپ انہیں ایک تحریر لکھوا دیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1637