الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
16. باب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ» .
16. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہ جو مال ہم چھوڑ جائیں اس کا کوئی وارث نہیں بلکہ وہ صدقہ ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 4579
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَيَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ عَائِشَةُ لَهُنَّ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ ".
4579. عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے ارادہ کیا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیجیں اور ان سے اپنے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کا مطالبہ کریں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا: ہماری کوئی وراثت نہیں ہو گی، ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہو گا-؟
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیجنے کا ارادہ کیا، وہ ان سے نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے اپنا حصہ مانگتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا، کیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرما چکے ہیں: ہمارا کوئی وارث نہیں بنایا جائے گا، ہم نے جو کچھ چھوڑا تو وہ صدقہ ہو گا؟
ترقیم فوادعبدالباقی: 1758
حدیث نمبر: 4580
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، أَخْبَرَنَا حُجَيْنٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا، الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ شَيْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ، قَالَ: فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ، وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِيٌّ وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وِجْهَةٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ، فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَكُنْ بَايَعَ تِلْكَ الْأَشْهُرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا مَعَكَ أَحَدٌ كَرَاهِيَةَ مَحْضَرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ عُمَرُ، لِأَبِي بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَا تَدْخُلْ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَمَا عَسَاهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي إِنِّي وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ، فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، فَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَضِيلَتَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللَّهُ، وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ، وَكُنَّا نَحْنُ نَرَى لَنَا حَقًّا لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُ أَبَا بَكْرٍ، حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ، فَإِنِّي لَمْ آلُ فِيهَ عَنِ الْحَقِّ وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ، لِأَبِي بَكْرٍ: مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ، فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ صَلَاةَ الظُّهْرِ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَأَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَلَا إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَكِنَّا كُنَّا نَرَى لَنَا فِي الْأَمْرِ نَصِيبًا، فَاسْتُبِدَّ عَلَيْنَا بِهِ فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ، وَقَالُوا: أَصَبْتَ فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ،
4580. عقیل نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے اِن (عروہ) کو خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ورثے میں سے اپنی وراثت کا مطالبہ کر رہی تھیں جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ اور فدک میں بطور فے دیا تھا اور جو خیبر کے خمس سے باقی بچتا تھا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اس مال میں سے کھاتا رہے گا۔ اور اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے کی اس کیفیت میں بھی تبدیلی نہیں کروں گا جس پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا، اور میں اس میں اسی طریقے پر عمل کروں گا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کچھ دینے سے انکار کر دیا تو اس معاملے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر ناراض ہو گئیں، انہوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان سے بات چیت نہ کی حتی کہ وفات پا گئیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں، جب فوت ہوئیں تو ان کے خاوند حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں رات کے وقت دفن کر دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس بات کی اطلاع نہ دی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زندگی میں حضرت علی ؓ کی طرف لوگوں کی توجہ تھی، جب وہ وفات پا گئیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کے چہرے بدلے ہوئے پائے، اس پر انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے صلح اور بیعت کرنی چاہی۔ انہوں نے ان (چھ) مہینوں کے دوران میں بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور آپ کے ساتھ کوئی اور نہ آئے۔۔ (ایسا) عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد کو ناپسند کرتے ہوئے (کہا)۔۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! آپ ان کے ہاں اکیلے نہیں جائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ان سے کیا توقع ہے کہ وہ میرے ساتھ (کیا) کریں گے؟ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس جاؤں گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ہاں آئے تو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے (خطبے اور) تشہد کے کلمات کہے، پھر کہا: ابوبکر! ہم آپ کی فضیلت اور اللہ نے جو آپ کو عطا کیا ہے، اس کے معترف ہیں، ہم آپ سے اس خوبی اور بھلائی پر حسد نہیں کرتے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے، لیکن آپ نے امارت (قبول کر کے) ہم پر من مانی کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داری کی بنا پر ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا بھی کوئی حق ہے (ہم سے بھی مشورہ کیا جاتا)، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے گفتگو کرتے رہے حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی دونوں آنکھیں بہہ پڑیں۔ پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے گفتگو کی تو کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے اپنی قرابت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت نبھانا کہیں زیادہ محبوب ہے اور اس مال کی بنا پر میرے اور آپ لوگوں کے درمیان جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق سے نہیں ہٹا، اور میں نے کوئی ایسا کام نہیں چھوڑا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں کرتے ہوئے دیکھا تھا مگر میں نے بالکل وہی کیا ہے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: بیعت کے لیے آپ کے ساتھ (آج) پچھلے وقت کا وعدہ ہے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو منبر پر چڑھے، کلماتِ تشہد ادا کیے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حال، بیعت سے ان کے پیچھے رہ جانے کا سبب اور ان کا وہ عذر بیان کیا جو انہوں نے ان کے سامنے پیش کیا تھا، پھر استغفار کیا۔ (اس کے بعد) علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے کلماتِ تشہد ادا کیے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق کی عظمت بیان کی اور یہ (کہا:) کہ انہوں نے جو کیا اس کا سبب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مقابلہ بازی اور اللہ نے انہیں جو فضیلت دی ہے اس کا انکار نہ تھا، لیکن ہم سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں ہمارا بھی ایک حصہ تھا جس میں ہم پر من مانی کی گئی ہے، ہمیں اپنے دلوں میں اس پر دکھ محسوس ہوا۔ اس (گفتگو) پر مسلمانوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا، انہوں نے کہا: آپ نے درست کہا ہے اور جب وہ پسندیدہ بات کی طرف لوٹ آئے تو مسلمان حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب ہو گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگا، جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مدینہ اور فدک میں لوٹایا تھا اور خیبر کے خمس سے جو بچا تھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم نے جو کچھ چھوڑا صدقہ ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (خاندان) اس مال سے کھاتا رہے گا اور میں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کروں گا، جس پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا، میں اس میں وہی لائحہ عمل اختیار کروں گا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل پیرا تھے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بطور وراثت کچھ دینے سے انکار کر دیا، اس معاملہ پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر ناراض ہو گئیں اور ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے اپنی وفات تک گفتگو نہیں کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں، انہیں ان کے خاوند حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو آگاہ کیے بغیر رات کو دفن کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں لوگوں کی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف کچھ توجہ تھی، (وہ انہیں کچھ اہمیت دیتے تھے) تو جب وہ وفات پا گئیں، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کے چہروں میں تبدیلی محسوس کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے صلح اور بیعت کی خواہش کی اور انہوں نے ان مہینوں میں بیعت نہیں کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور ہمارے پاس آپ کے ساتھ کوئی اور نہ آئے، وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد کو پسند نہیں کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا، اللہ کی قسم! آپ ان کے پاس اکیلے نہ جائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا وہ میرے ساتھ کیا سلوک کر سکتے ہیں، یعنی کسی ناگوار سلوک کا خطرہ نہیں ہے، میں اللہ کی قسم! ان کے پاس ضرور جاؤں گا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ہاں پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کلمہ شہادت (خطبہ) پڑھا اور پھر کہا کہ ہم اے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی فضیلت کے معترف ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو (خلافت) دی ہے، ہم اس کو بھی پہچانتے ہیں اور جو اچھائی اور خیر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے، ہم اس پر آپ سے حسد نہیں کرتے، لیکن بات یہ ہے کہ آپ نے ہمارے مشورہ کے بغیر خود ہی اس خلافت کا فیصلہ کر لیا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داری کی بنا پر (مشورہ میں) اپنا حق سمجھتے تھے، اس طرح وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے گفتگو کرتے رہے حتی کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے تو جب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے گفتگو شروع کی کہا، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری کا پاس، لحاظ، مجھے اپنی رشتہ داری سے، صلہ رحمی کرنے سے زیادہ عزیز ہے، رہا وہ اختلاف جو میرے اور آپ کے درمیان ان اموال کی بنا پر پیدا ہو گیا ہے تو میں نے حق کو ملحوظ رکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور میں نے کوئی ایسا کام نہیں چھوڑا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کرتے دیکھا ہے، میں نے ایسے ہی کیا ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر سے کہا، آج سہ پہر ہم آپ سے بیعت کریں گے، تو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ظہر کی نماز پڑھا دی، وہ منبر پر چڑھ گئے، تشہد یعنی کلمہ شہادت پڑھا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام و مرتبہ بیان کیا اور بیعت سے پیچھے رہنے کی بات کی اور ان کا وہ عذر بیان کیا جو انہوں نے پیش کیا تھا، پھر استغفار کیا، (اور منبر سے اتر آئے۔) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا اور ابوبکر سے حق کی عظمت کو بیان کیا اور بتایا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے، اس پر مجھے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے حسد نے آمادہ نہیں کیا اور نہ اس فضیلت سے انکار نے جو اللہ نے اسے بخشی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم اس معاملہ (خلافت) میں اپنا حصہ سمجھتے تھے اور ہمیں اس میں مشورہ دینے سے محروم رکھا گیا، اس وجہ سے ہم نے ناراضی محسوس کی، اس سے مسلمان خوش ہو گئے اور کہنے لگے، آپ نے درست کہا اور جب وہ معروف بات کی طرف لوٹ آئے تو مسلمان حضرت علی کے زیادہ قریب ہو گئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1759
حدیث نمبر: 4581
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ فَاطِمَةَ، وَالْعَبَّاسَ أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَهُ مِنْ فَدَكٍ وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ، فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ مَعْنَى حَدِيثِ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ فَعَظَّمَ مِنْ حَقِّ أَبِي بَكْرٍ، وَذَكَرَ فَضِيلَتَهُ وَسَابِقَتَهُ ثُمَّ مَضَى إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَبَايَعَهُ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالُوا: أَصَبْتَ وَأَحْسَنْتَ، فَكَانَ النَّاسُ قَرِيبًا إِلَى عَلِيٍّ حِينَ قَارَبَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ.
4581. معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے، وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکے سے اپنی وراثت کا مطالبہ کر رہے تھے، اس وقت وہ آپ کی فدک کی زمین اور خیبر سے آپ کے حصے کا مطالبہ کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان دونوں سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔۔ انہوں نے بھی زہری سے عقیل کے ہم معنیٰ حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے کہا: پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق کی عظمت بیان کی اور ان کی فضیلت اور (اسلام میں) سبقت کا ذکر کیا، پھر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف گئے اور ان کی بیعت کی، اس پر لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف آئے اور کہنے لگے: آپ نے درست کیا، بہت اچھا کیا۔ جب وہ (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ) امارت اور (اس کے حوالے سے) پسندیدہ روش کے قریب ہوئے تو لوگ بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب ہو گئے۔
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے اپنا حصہ کا مطالبہ کرنے کے لیے آئے، وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فدک کی زمین اور خیبر کا حصہ کا مطالبہ کر رہے تھے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے دونوں سے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، ہاں اتنا فرق ہے کہ معمر کہتے ہیں، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے عظیم حق کو بیان کیا، ان کی فضیلت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، آپ نے درست کیا اور آپ نے اچھا کام کیا اور جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ معروف بات کے قریب ہوئے تو لوگ ان کے قریب آ گئے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1759
حدیث نمبر: 4582
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ : " أَنَّ عَائِشَةَزَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "، قَالَ: وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ، إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ، فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا عَلِيٌّ، وَأَمَّا خَيْبَرُ، وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ، وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الْأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
4582. صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکے میں سے حصہ نکالیں جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فے دیا تھا۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہو گا۔ کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس مال میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرتی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر، فدک اور مدینہ میں صدقے کی صورت میں چھوڑا تھا۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی یہ بات تسلیم نہ کی اور کہا: میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑوں گا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے، مگر میں بھی اسی پر عمل کروں گا۔ اگر میں نے آپ کے حکم میں سے کوئی چیز چھوڑی تو مجھے ڈر ہے کہ میں گمراہ ہو جاؤں گا۔ رہا آپ کا مدینہ والا صدقہ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کر دیا، اس پر (قبضے میں) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان پر غالب آ گئے، اور خیبر اور فدک کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے روک لیا اور کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا صدقہ ہے جو آپ کے ذمے آنے والے حقوق اور حوادث کے لیے تھا، ان دونوں کا معاملہ اسی کے سپرد رہے گا جو حکومت کا ذمہ دار ہو گا۔ کہا: وہ دونوں آج تک اسی حالت پر ہیں۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لوٹائے ہوئے مال سے جو کچھ چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا حصہ انہیں دیں تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہو گا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس مال سے اپنا حصہ مانگتی تھیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر، فدک اور مدینہ میں اپنے صدقہ کی صورت میں چھوڑا تھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا، میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑوں گا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے، مگر میں اس پر عمل کروں گا، کیونکہ میں ڈرتا ہوں، اگر میں نے آپ کے کسی عمل کو چھوڑ دیا تو میں راہ راست سے کجی اختیار کروں گا، رہا آپ کا مدینہ والا صدقہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے حضرت علی اور عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے حوالہ کر دیا تھا اور اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے غلبہ حاصل کر لیا تھا، رہا خیبر اور فدک والا حصہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان دونوں کو روک لیا اور کہا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ صدقہ ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ حقوق اور اپنے حوادثات پر خرچ کرتے تھے اور یہ دونوں معاملات حکمران کی ذمہ داری ہیں اور وہ دونوں آج تک اس حالت پر برقرار ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1759
حدیث نمبر: 4583
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي، فَهُوَ صَدَقَةٌ "،
4583. امام مالک نے ابوزناد سے، انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ورثاء ایک دینار کا بھی حصہ نہیں لیں گے، میں نے جو چھوڑا، وہ میری بیویوں کے خرچ اور میرے عامل کی ضروریات کے بعد (سب کا سب) صدقہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے وارث ایک دینار بھی تقسیم نہیں کریں گے، میں نے جو کچھ چھوڑا ہے، وہ میری بیویوں کے خرچ اور میرے کام کے نگران (خلیفہ یا صدقات کی نگرانی کرنے والے) کی ضروریات کے پورا کرنے کے بعد صدقہ ہو گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1760
حدیث نمبر: 4584
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
4584. سفیان نے ابوزناد سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1760
حدیث نمبر: 4585
وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".
4585. زہری نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا، ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہو گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا کوئی وارث نہیں بنایا جائے گا، ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہو گا۔ حضرت ابوبکر، حضرت فاطمہ اور حضرت علی و عباس رضی اللہ تعالی عنہم کے تنازع کی اصل حقیقت کی تفصیل کے لیے دیکھئے، رحماء بينهم اول صدیقی ص 105 تا 168۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا جنازہ کس نے پڑھا دیکھیے صفحہ 183 تا 189 مصنف مولانا محمد نافع۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1761