الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
43. باب غَزْوَةِ خَيْبَرَ:
43. باب: خیبر کی لڑائی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4665
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، قَالَ: فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لَأَرَى بَيَاضَ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ "، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ "، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ، وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: وَالْخَمِيسَ، قَالَ: وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً.
عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی جنگ لڑی، ہم نے وہاں صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی سوار ہوئے اور میں سواری پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے تنگ راستوں میں اپنی سواری کو دوڑایا، میرا گھٹنا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کو چھور رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے کپڑا ہٹ گیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا، جب آپ بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا: "اللہ اکبر! خیبر تباہ ہوا، ہم جب کسی قوم کے گھروں کے سامنے اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں (آنے سے پہلے) ڈرایا گیا تھا۔" آپ نے تین بار یہی فرمایا۔ کہا: لوگ اپنے کاموں کے لیے نکل چکے تھے تو انہوں نے کہا: (یہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، عبدالعزیز نے کہا: ہمارے بعض ساتھیوں نے کہا: اور لشکر ہے۔ کہا: ہم نے اسے بزور شمشیر حاصل کیا
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا رخ کیا، تو ہم نے اس کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی سوار ہو گئے، میں ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے سوار تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری خیبر کی گلیوں میں دوڑائی اور میرا گھٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کو مس کر رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی تہہ بند ہٹ گئی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا، تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم بستی میں داخل ہوئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر تباہ و برباد ہو گیا، ہم جب کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں، تو ان لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے، جنہیں عذاب سے آگاہ کیا جا چکا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ تین دفعہ فرمایا اور لوگ اپنے کام کاج کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے، اس لیے کہتے تھے، محمد، (آ گئے) عبدالعزیز بیان کرتے ہیں، بعض ہمارے ساتھیوں نے کہا اور لشکر یا لشکر کے ساتھ، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے اسے بزور بازو فتح کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1365
حدیث نمبر: 4666
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " كُنْتُ رِدْفَ أَبِي طَلْحَةَ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَقَدَمِي تَمَسُّ قَدَمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُمْ حِينَ بَزَغَتِ الشَّمْسُ، وَقَدْ أَخْرَجُوا مَوَاشِيَهُمْ وَخَرَجُوا بِفُؤُوسِهِمْ، وَمَكَاتِلِهِمْ وَمُرُورِهِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسَ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، قَالَ: فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ".
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: خیبر کے دن میں سواری پر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا اور میرا پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو چھو رہا تھا، کہا: ہم اس وقت ان کے پاس پہنچے جب سورج چمک رہا تھا، وہ لوگ اپنے مویشی نکال چکے تھے اور کلہاڑیاں، ٹوکریاں اور بیلچے لے کر (خود بھی) نکل چکے تھے۔ تو انہوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور لشکر ہے۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیبر اجڑ گیا، جب ہم کسی قوم کے گھروں کے سامنے اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں ڈرایا جا چکا تھا۔" کہا: تو اللہ عزوجل نے انہیں شکست دی
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں خیبر کے دن حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے سوار تھا اور میرا قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم کو مس کر رہا تھا اور ہم ان کے پاس سورج طلوع ہونے کے بعد پہنچے اور انہوں نے اپنے مویشیوں کو نکال لیا تھا اور خود اپنے کلہاڑے ٹوکریاں اور رسیاں لے کر نکل رہے تھے، تو انہوں نے کہا، محمد، لشکر سمیت آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیبر تباہ ہوا، ہم جب کسی قوم کے درمیان میں اترتے ہیں، تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1365
حدیث نمبر: 4667
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، قَالَ: " إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ".
قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر آئے تو آپ نے فرمایا: "جب ہم کسی قوم کے گھروں کے آگے اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے، فرمایا: ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر پڑتے ہیں، تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہو جاتی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1365
حدیث نمبر: 4668
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ عَبَّادٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَتَسَيَّرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ: أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا، وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟، قَالُوا: عَامِرٌ، قَالَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْكُمْ، قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟، فَقَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ: أَيُّ لَحْمٍ؟، قَالُوا: لَحْمُ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَهْرِيقُوهَا وَاكْسِرُوهَا، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوْ يُهْرِيقُوهَا وَيَغْسِلُوهَا، فَقَالَ: أَوْ ذَاكَ، قَالَ: فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ، فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، قَالَ: فَلَمَّا قَفَلُوا، قَالَ سَلَمَةُ: وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتًا، قَالَ: مَا لَكَ، قُلْتُ لَهُ: فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ: مَنْ قَالَهُ، قُلْتُ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: كَذَبَ، مَنْ قَالَهُ إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ "، قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ، وَخَالَفَ قُتَيْبَةُ، مُحَمَّدًا فِي الْحَدِيثِ فِي حَرْفَيْنِ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّادٍ، وَأَلْقِ سَكِينَةً عَلَيْنَا.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن عباد نے۔۔ الفاظ ابن عباد کے ہیں۔۔ ہمیں حدیث بیان کی، ان دونوں نے کہا: ہمیں حاتم بن اسماعیل نے سلمہ بن اکوع کے آزاد کردہ غلام یزید بن ابی عبید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے رات کے وقت سفر کیا، لوگوں میں سے ایک آدمی نے عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا تم ہمیں اپنے نادر جنگی اشعار سے نہیں سناؤ گے؟ اور عامر رضی اللہ عنہ شاعر آدمی تھے، وہ اتر کر لوگوں کے (اونٹوں) کے لیے حدی خوانی کرنے لگے، وہ کہہ رہے تھے: "اے اللہ! اگر تو (فضل و کرم کرنے والا) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، ہم تیرے نام پر قربان، ہم نے جو گناہ کیے ان کو بخش دے اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم جما دے اور ہم پر ضرور بالضرور سکینت اور وقار نازل فرما۔ ہمیں جب بھی آواز دے کر بلایا گیا ہم آئے، ہمیں آواز دے کر ان (آواز دینے والے) لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا (اور ہم اس پر پورے اترے۔) " تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ (حدی خوانی کر کے) اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟" لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ سے اس کی محبت اور شوق کو دیکھتے ہوئے) فرمایا: "اللہ اس پر رحم کرے!" لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: (اس کے لیے شہادت) واجب ہو گئی، اے اللہ کے رسول! آپ نے (اس کے حق میں دعا مؤخر فرما کر) ہمیں اس (کی صحبت) سے زیادہ مدت فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا؟ (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہم خیبر پہنچے تو ہم نے ان کا محاصرہ کر لیا یہاں تک کہ ہمیں (شدید بھوک کے) مخمصے نے آ لیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ نے اسے ان (جہاد کرنے والے) لوگوں کے لیے فتح کر دیا ہے۔" جب لوگوں نے اس دن کی شام کی جب انہیں فتح عطا کی گئی تھی تو انہوں نے بہت سی (جگہوں پر) آگ جلائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ آگ کیسی ہے اور یہ لوگ کس چیز (کو پکانے) کے لیے اسے جلا رہے ہیں؟" انہوں نے جواب دیا: گوشت (کو پکانے) کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کون سا گوشت؟" انہوں نے جواب دیا: پالتو گدھوں کا گوشت۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے (پانی سمیت) بہا دو اور ان (برتنوں) کو توڑ دو۔" اس پر ایک آدمی نے کہا: یا اسے بہا دیں اور برتن دھو لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یا ایسے کر لو۔" کہا: جب لوگوں نے مل کر صف بندی کی تو عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی، انہوں نے مارنے کے لیے اس (تلوار) سے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے پر آ لگی اور وہ اسی زخم سے فوت ہو گئے۔ جب لوگ واپس ہوئے، سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور اس وقت انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خاموش دیکھا تو آپ نے پوچھا: "تمہیں کیا ہوا ہے؟" میں نے آپ سے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا عمل ضائع ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: "کس نے کہا ہے؟" میں نے کہا: فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ نے۔ تو آپ نے فرمایا: "جس نے بھی یہ کہا، غلط کہا ہے، اس کے لیے تو یقینا دو اجر ہیں۔" آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کیا۔" وہ تو خود جم کر جہاد کرنے والے مجاہد تھے، کم ہی کوئی عربی ہو گا جو اس راستے پر ان کی طرح چلا ہو گا۔" قتیبہ نے حدیث کے دو حرفوں (القین کے آخری دو حرفوں ی اور ن) میں محمد (بن عباد) کی مخالفت کی ہے اور (محمد) بن عباد کی روایت میں (القین کے بجائے) الق (ضرور بالضرور کی تاکید کے بغیر محض) "نازل کر" کے الفاظ ہیں
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے لیے نکلے، تو ہم رات بھر چلتے رہے، تو لوگوں میں سے کسی آدمی نے حضرت عامر بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا، کیا آپ ہمیں اپنے جنگی اشعار نہیں سنائیں گے اور عامر رضی اللہ تعالی عنہ ایک شاعر انسان تھے، تو وہ اتر کر لوگوں کے اونٹوں کے لیے حدی خوانی کرنے لگے، وہ کہہ رہے تھے، اے اللہ اگر تیری توفیق شامل حال نہ ہوتی تو ہم راہ یاب نہ ہوتے، نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہم نماز پڑھتے، بخش دے ہم تجھ پر نثار، جو گناہ ہم نے کیے اور اگر مڈبھیڑ ہو تو ہمارے قدم ج دے۔ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب بلایا جاتا ہے تو ہم آ جاتے ہیں تو ہم آ جاتے ہیں اور چیخ کے ذریعے بلا کر انہوں نے ہمارے خلاف مدد طلب کی ہے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ حدی خوانی کے ذریعہ اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟ صحابہ کرام نے کہا، عامر ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ اس پر رحم فرمائے تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، اس کے لیے شہادت لازم ہو گئی، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے ہمیں اس سے کیوں فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔ تو ہم خیبر پہنچے اور ان کا محاصرہ کر لیا، حتیٰ کہ ہم سخت بھوک سے دوچار ہو گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے فتح کر دیا۔ تو جب لوگوں نے اس دن کی شام کی، جس دن وہ فتح ہوا تھا، لوگوں نے بہت آگیں روشن کیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ آگ کس لیے ہیں؟ انہیں کس چیز کے پکانے کے لیے جلایا گیا ہے۔ تو صحابہ کرام نے کہا، گوشت کے لیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کون سا گوشت لوگوں نے جواب دیا، گھریلو گدھوں کا گوشت، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہانڈیاں الٹ دو اور انہیں توڑ دو۔ تو ایک آدمی نے عرض کیا، یا انہیں انڈیل کر انہیں دھوئیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا اس طرح کر لو۔ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب صحابہ کرام نے صف بندی کی، تو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار چھوٹی تھی، تو انہوں نے مارنے کے لیے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا، تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس سے شہید ہو گئے، تو جب صحابہ کرام واپس لوٹے، تو حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید بن ابی عبید کا ہاتھ پکڑے ہوئے انہیں بتایا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چپ چاپ دیکھا، فرمایا، تمہیں کیا ہوا؟ میں نے آپ سے عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان! لوگوں کا خیال ہے، عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے اعمال رائیگاں گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کس نے یہ بات کہی ہے؟ میں نے کہا، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھی یہ بات کہی ہے خطا کی ہے، اس کے لیے دو اجر ہیں۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا لیا اور فرمایا: وہ انتہائی کوشش کرنے والا مجاہد ہے، عرب کی سرزمین میں اس جیسا کم ہی عربی چلا ہے۔ قتیبہ نے دو لفظوں میں محمد بن عباد کی مخالفت کی ہے، ابن عباس کی روایت میں ہے، الق سكينة علينا
ترقیم فوادعبدالباقی: 1802
حدیث نمبر: 4669
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَنَسَبَهُ غَيْرُ ابْنِ وَهْبٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، وَشَكُّوا فِيهِ رَجُلٌ مَاتَ فِي سِلَاحِهِ وَشَكُّوا فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ سَلَمَةُ: فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أَرْجُزَ لَكَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَعْلَمُ مَا تَقُولُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقْتَ، وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا، قَالَ: فَلَمَّا قَضَيْتُ رَجَزِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ هَذَا؟، قُلْتُ: قَالَهُ أَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نَاسًا لَيَهَابُونَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ يَقُولُونَ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنًا لِسَلَمَةَ بنِ الأَكْوَعِ، فَحَدَثَنيِ عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ ذَلِكَ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: حِينَ قُلُتُ إِنَّ نَاسًا يَهَابُونَ الصَّلاةَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمِ: " كَذَبُوا مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَتَيْنِ " وَأَشَارَ بِإصبَعَيهِ.
ابوطاہر نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبدالرحمان نے خبر دی۔۔ ابن وہب کے علاوہ دوسرے راوی نے ان کا نسب بیان کیا تو (عبدالرحمان) بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہا۔۔ کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: جب خیبر کا دن تھا، میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خوب جنگ لڑی، (اسی اثنا میں) ان کی تلوار پلٹ کر انہی کو جا لگی اور انہیں شہید کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس حوالے سے کچھ باتیں کہیں اور اس معاملے میں شک (کا اظہار کیا) کہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے۔ انہوں نے ان کے معاملے کے بعض پہلوؤں میں شک کیا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے آگے رجزیہ اشعار پڑھوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں جو تم کہنے جا رہے ہو۔ کہا: تو میں نے (یہ رجزیہ اشعار) پڑھے: "اللہ کی قسم! اگر اللہ (کا کرم) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے سچ کہا۔" "ہم پر بہت سکینت نازل فرما اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم مضبوط کر دے، مشرکوں نے یقینا ہم پر سخت زیادتی کی۔" کہا: جب میں نے اپنے رجزیہ اشعار ختم کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ (اشعار) کس نے کہے؟" میں نے جواب دیا: میرے بھائی نے کہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ ان پر رحم کرے!" کہا: تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرتے ہوئے ڈر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: وہ آدمی اپنے ہی اسلحے سے فوت ہوا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوا ہے۔" ابن شہاب نے کہا: پھر میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے سوال کیا تو انہوں نے مجھے اپنے والد سے اسی کے مانند حدیث بیان کی، مگر انہوں نے (حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ دہراتے ہوئے) کہا: جب میں نے کہا: کچھ لوگ اس کے لیے دعا کرنے سے ڈرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں نے غلط کہا، وہ تو جہاد کرتے ہوئے مجاہد کے طور پر فوت ہوئے، ان کے لیے دہرا اجر ہے۔" اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب خیبر کا دن تھا، تو میرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر بڑی شدید جنگ لڑی اور اس کی تلوار پلٹ کر اسے لگی اور اسے قتل کر ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اس سلسلہ میں نکتہ چینی کی اور اس کی شہادت میں شک کیا، یہ آدمی اپنے ہی اسلحہ سے فوت ہوا ہے اور اس کے بعض معاملہ میں (شہادت میں) شک کیا، حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے رجزیہ اشعار سنانے کی اجازت دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے، جو کہنا چاہتے ہو اس کو سوچ سمجھ لو، میں نے کہا، اللہ کی قسم! اگر اللہ کی توفیق نہ ہوتی، ہم راہ یاب نہ ہوتے، نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تو نے سچ کہا) اور ہم پر سکینت نازل فرما اور مڈبھیڑ کی صورت میں ہمیں ثابت قدم رکھ۔ مشرکوں نے یقینا ہم پر زیادتی کی ہے۔ تو جب میں نے رجزیہ کلام ختم کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ کلام کس کا ہے؟ میں نے جواب دیا، میرے بھائی نے کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! کچھ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے خوف محسوس کرتے ہیں، کہتے ہیں، ایسا آدمی ہے، جو اپنے اسلحے سے فوت ہوا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انتہائی کوشش سے جہاد کرتے ہوئے فوت ہوا ہے۔ ابن شہاب کہتے ہیں، پھر میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا، تو اس نے اپنے آپ باپ سے مجھے اس طرح روایت سنائی، صرف یہ فرق تھا کہ اس نے کہا، جب میں نے یہ کہا، کچھ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے ہیبت کھاتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے غلط کہا، وہ انتہائی کوشش سے جہاد کرتے ہوئے فوت ہوا، اس لیے اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1802