الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ
مشروبات کا بیان
20. باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِهِ غَيْرَهُ إِلَى دَارِ مَنْ يَثِقُ بِرِضَاهُ بِذَلِكَ وَيَتَحَقَّقُهُ تَحَقُّقًا تَامًّا وَاسْتِحْبَابِ الاِجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ:
20. باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہ ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 5313
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ، فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقَالَ:" مَا أَخْرَجَكُمَا مِنْ بُيُوتِكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ؟"، قَالَا: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَأَنَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا قُومُوا"، فَقَامُوا مَعَهُ فَأَتَى رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ، فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ، قَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ فُلَانٌ؟، قَالَتْ: ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنَ الْمَاءِ إِذْ جَاءَ الْأَنْصَارِيُّ، فَنَظَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَكْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي"، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَجَاءَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ، فَقَالَ: كُلُوا مِنْ هَذِهِ وَأَخَذَ الْمُدْيَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكَ وَالْحَلُوبَ"، فَذَبَحَ لَهُمْ فَأَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ، وَمِنْ ذَلِكَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا، فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمُ الْجُوعُ، ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّى أَصَابَكُمْ هَذَا النَّعِيمُ".
خلف بن خلیفہ نے یزید بن کیسان سے، انھوں نے ابوحازم سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ رات یا دن کو باہر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو پوچھا کہ تمہیں اس وقت کون سی چیز گھر سے نکال لائی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! بھوک کے مارے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں، چلو۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے دروازے پر آئے، وہ اپنے گھر میں نہیں تھا۔ اس کی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں شخص (اس کے خاوند کے متعلق فرمایا) کہاں گیا ہے؟ وہ بولی کہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عذر سے اجنبی عورت سے بات کرنا اور اس کو جواب دینا درست ہے، اسی طرح عورت اس مرد کو گھر بلا سکتی ہے جس کے آنے سے خاوند راضی ہو) اتنے میں وہ انصاری مرد آ گیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج کے دن کسی کے پاس ایسے مہمان نہیں ہیں جیسے میرے پاس ہیں۔ پھر گیا اور کھجور کا ایک خوشہ لے کر آیا جس میں گدر، سوکھی اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہنے لگا کہ اس میں سے کھائیے پھر اس نے چھری لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دودھ والی بکری مت کاٹنا۔ اس نے ایک بکری کاٹی اور سب نے اس کا گوشت کھایا اور کھجور بھی کھائی اور پانی پیا۔ جب کھانے پینے سے سیر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا کہ تم اپنے گھروں سے بھوک کے مارے نکلے اور نہیں لوٹے یہاں تک کہ تمہیں یہ نعمت ملی۔ (اس فضل پر سوال ضرور ہوگا)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک دن یا رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ کو ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ملے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس وقت کس بنا پر گھروں سے نکلے ہو؟ دونوں نے جواب دیا، بھوک کے سبب، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! مجھے بھی اس چیز نے گھر سے نکالا ہے، جس نے تمہیں نکالا ہے، اٹھو تو وہ آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ ایک انصاری آدمی کے گھر آئے تو وہ گھر میں موجود نہیں تھا، جب اس کی بیوی نے آپ کو دیکھا، اس نے خوش آمدید کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: فلاں کہاں ہے؟ اس نے کہا، وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے، اتنے میں انصاری بھی آ گیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا، پھر کہا: اللہ کا شکر ہے، آج مجھ سے زیادہ کسی کے مہمان معزز نہیں ہیں، وہ گیا اور کھجوروں کا ایک گچھا لے آیا، جس میں کچی پکی کھجوریں، خشک کھجوریں اور تازہ کھجوریں تھیں اور عرض کی: اس سے کھا لیں اور چھری پکڑ لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: دودھیاری سے احتراز کرنا۔ اس نے بکری ذبح کی اور ان حضرات نے بکری کا گوشت اور یہ گچھا کھایا اور پانی پیا تو جب سیر اور سیراب ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا، تم اپنے گھر میں سے بھوک کے سبب نکلے پھر گھروں کو اس وقت تک نہیں لوٹے، جب تک تمہیں یہ نعمتیں نہیں ملیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2038
حدیث نمبر: 5314
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو هِشَامٍ يَعْنِي المُغِيرَةَ بْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: بَيْنَا أَبُو بَكْرٍ قَاعِدٌ وَعُمَرُ مَعَهُ إِذْ أَتَاهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا أَقْعَدَكُمَا هَاهُنَا، قَالَا: أَخْرَجَنَا الْجُوعُ مِنْ بُيُوتِنَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ خَلَفِ بْنِ خَلِيفَةَ.
عبدالواحد بن زیاد نے کہا: ہمیں یزید نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابوحازم نے حدیث سنائی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ایک روزحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تھے۔اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم دونوں کو کس چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟"دونوں نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کےساتھ بھیجا ہے! ہمیں بھوک نے ا پنے گھروں سےنکالا ہے۔پھر خلف بن خلیفہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس دوران کہ ابوبکر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا: تمہیں کس چیز نے یہاں بٹھایا ہے؟ دونوں نے کہا: ہمیں ہمارے گھروں سے بھوک نے نکالا ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے! پھر مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2038
حدیث نمبر: 5315
حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، مِنْ رُقْعَةٍ عَارَضَ لِي بِهَا ثُمَّ قَرَأَهُ عَلَيَّ، قَالَ: أَخْبَرَنَاهُ حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا، فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي، فَقُلْتُ لَهَا: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا، فَأَخْرَجَتْ لِي جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ، قَالَ: فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتْ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي، فَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ مَعَهُ، قَالَ: فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَدْ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَتْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا، فَتَعَالَ أَنْتَ فِي نَفَرٍ مَعَكَ، فَصَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ:" إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ لَكُمْ سُورًا فَجِئْتُ بِكُمْ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِينَتَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ"، فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْدَمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي، فَقَالَتْ: بِكَ وَبِكَ، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ لِي، فَأَخْرَجْتُ لَهُ عَجِينَتَنَا، فَبَصَقَ فِيهَا وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا، فَبَصَقَ فِيهَا وَبَارَكَ، ثُمَّ قَالَ:" ادْعِي خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعَكِ وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا" وَهُمْ أَلْفٌ فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَأَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا، وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِينَتَنَا أَوْ كَمَا، قَالَ الضَّحَّاكُ: لَتُخْبَزُ كَمَا هُوَ.
حجاج بن شاعر نے کہا: ضحاک بن مخلد نے مجھے ایک رقعے سے حدیث بیان کی، اسے میرے سامنے رکھا پھر اسے پڑھا، کہا: مجھے حنظلہ بن عثمان نے اس کے بارے میں بتایا، کہا: ہمیں سعید بن میناء نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی برا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی) میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا، اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، جب خندق کھودی جا رہی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوک کا اثر محسوس کیا تو میں اپنی بیوی کی طرف لوٹا اور اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت بھوک لگی ہے، اس نے مجھے ایک چمڑے کا تھیلا پیش کیا، جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس ایک چھوٹا سا پالتو چھترا تھا، میں نے اسے ذبح کیا اور اس نے جو پیسے اور میرے ساتھ ہی اس سے فارغ ہو گئی، میں نے گوشت چھوٹا چھوٹا کر کے ہانڈی میں ڈالا، پھر واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھیوں سمیت لا کر مجھے رسوا نہ کرنا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سرگوشی کی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے اپنا ایک چھوٹا سا پالتو چھترا ذبح کیا اور بیوی نے ہمارے پاس ایک صاع جو تھے، پیس لیے ہیں تو آپ چند ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا: اے خندق والو! جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہاری دعوت کی ہے تو جلدی کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ہانڈی ہرگز نہ اتارنا اور آٹے کی روٹیاں نہ پکانا، حتیٰ کہ میں آ جاؤں۔ میں چل پڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے چل پڑے، حتیٰ کہ میں بیوی کے پاس پہنچ گیا، (اس کو صورت حال بتائی) اس نے کہا: تیری وجہ سے ایسا ہوا تو ہی رسوا ہو گا، میں نے کہا: میں نے تو تیری بات پر عمل کیا تھا، اس نے آپ کے سامنے گندھا ہوا آٹا پیش کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں لعاب مبارک ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ نے ہماری ہنڈیا کا رخ کیا، اس میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا: ایک روٹی پکانے والی بلا لو، وہ تمہارے ساتھ روٹیاں پکائے اور اپنی ہانڈی سے چمچہ سے سالن نکالنا اور اس کو چولہے سے نہ اتارنا۔ آپ کے ساتھی ایک ہزار تھے، میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، سب نے کھایا، حتی کہ اس کو باقی چھوڑ کر چلے گئے اور ہماری ہانڈی پہلے کی طرح جوش مار رہی تھی اور ہمارا آٹا اس طرح پکایا جا رہا تھا، جو لفظ ضحاک نے کہا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2039
حدیث نمبر: 5316
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْم: قَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟"، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ:" أَلِطَعَامٍ؟"، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ:" قُومُوا"، قَالَ: فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ: قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلُمِّي مَا عِنْدَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ"، فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفُتَّ وَعَصَرَتْ عَلَيْهِ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا، فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ حَتَّى أَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ رَجُلًا أَوْ ثَمَانُونَ.
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا کہ انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ نے حضرت سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی ہے کمزورتھی۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک لگی ہے۔کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟انھوں نے کہا: ہاں، پھر انھوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی لی اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹیں، پھر ان کو میرے کپڑوں کےنیچے چھپاد یا اور اس (اوڑھنی) کا بقیہ حصہ چادر کی طرح میرے اوپر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان روٹیوں کو لے کر گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بیٹھے پایا اور آپ کےساتھ دوسرے لوگ موجود تھے، میں ان کے پا کھڑا ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھیں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے؟"میں نے عرض کی: جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا کھانے کے لئے؟" میں نے کہا: جی ہاں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنے ساتھیوں سے کہا"چلو"حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں ا ن کے آگے آگے چل پڑا، یہاں تک کہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ام سلیم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (باقی) لوگوں سمیت آگئے ہیں، اور ہمارے پاس اتنا (کھانا) نہیں ہے کہ ان کو کھلا سکیں۔انھوں نے کہا: اللہ اور اسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور (جاکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےساتھ آئے اور وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ام سلیم!جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ۔"وہ یہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں حکم دیا، ان (روٹیوں) کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے گئے۔ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ا پنا گھی کا کپہ (چمڑے کا گول برتن) ان (روٹیوں) پر نچوڑ کر سالن شامل کردیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔"انھوں (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ) نے دس آدمیوں کو اجازت دی، انھوں نے کھانا کھایا حتیٰ کہ سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "دس آدمیوں کو اجازت دو۔"انھوں نے اجازت دی، ان سب نے کھایا سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "دس آدمیوں کو اجازت دو"یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھا لیا اورسیر ہوگئے۔وہ ستر یا اسی لوگ تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمزور آواز سنی ہے، جس سے میں نے بھوک محسوس کی ہے تو کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، تو اس نے جو کی کچھ روٹیاں پیش کیں، پھر اپنی اوڑھنی لی، اور اس کے کچھ حصہ میں روٹیاں لپیٹ دیں، پھر اسے میرے کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور اوڑھنی کا باقی حصہ مجھ پر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج دیا، میں اس کو لے کر چلا گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بیٹھے پایا اور لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے، میں جا کر ان کے پاس ٹھہر گیا، (کہ اب کیسے پیش کروں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تجھے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کھانے کے لیے؟ اس نے کہا: جی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: اٹھو۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور میں ان کے آگے چل پڑا، حتی کہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ گیا اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ساتھیوں سمیت آ رہے ہیں اور ہمارے پاس ان کو کھلانے کا انتظام نہیں ہے، ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چل پڑے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ آگے بڑھے، حتی کہ دونوں گھر میں داخل ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلیم! جو کچھ تیرے پاس ہے لاؤ۔ تو اس نے وہ روٹیاں پیش کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا حکم دیا، ایسا کیا گیا، حضرت ام سلیم نے ان ٹکڑوں پر کُپہ (چمرے کا گول برتن) نچوڑا اور ان کو سالن والی بنا دیا، پھر ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ کو منظور تھی، پھر فرمایا: دس کو اجازت دو۔ انہوں نے انہیں اجازت دی، انہوں نے کھایا، حتی کہ سیر ہو کر نکل گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس کو اجازت دو۔ حتی کہ تمام لوگوں نے کھایا اور سیر ہو گئے، لوگوں کی تعداد ستر (70) یا اَسی (80) تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5317
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَدْعُوَهُ وَقَدْ جَعَلَ طَعَامًا، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ، فَنَظَرَ إِلَيَّ فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقُلْتُ: أَجِبْ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ لِلنَّاسِ:" قُومُوا"، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا صَنَعْتُ لَكَ شَيْئًا، قَالَ: فَمَسَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا فِيهَا بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ:" أَدْخِلْ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِي عَشَرَةً"، وَقَالَ:" كُلُوا وَأَخْرَجَ لَهُمْ شَيْئًا مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ" فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا فَخَرَجُوا، فَقَالَ:" أَدْخِلْ عَشَرَةً"، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا فَمَا زَالَ يُدْخِلُ عَشَرَةً وَيُخْرِجُ عَشَرَةً حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ، فَأَكَلَ حَتَّى شَبِعَ ثُمَّ هَيَّأَهَا، فَإِذَا هِيَ مِثْلُهَا حِينَ أَكَلُوا مِنْهَا.
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں سعد بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کے لئے آپ کے پاس بھیجا، انھوں نے کھانا تیار کیاتھا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نےکہا: میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا تو مجھے شرم آئی، میں نے کہا: "حضرت ابو طلحۃ کی دعوت قبول فرمائیے۔"اس پر آپ نے لوگوں سےکہا؛"اٹھو۔"حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے تو آپ کے لئے (کھانے کی) کچھ تھوڑی سی چیز تیار کی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھانے کو چھوا اور اس میں برکت کی دعا کی، پھرفرمایا: "میرے ساتھیوں میں سے دس کو اندرلاؤ"اور (ان سے) فرمایا: "کھاؤ" اور آپ نے ان کے لئے اپنی انگلیوں کے درمیان سے کچھ نکالا تھا (برکت شامل کی تھی)، سو انھوں نے کھایا، سیر ہوگئے، اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دس آدمیوں کو اندر لاؤ۔"پھر انھوں نے کھایا، سیر ہوگئے اور چلے گئے، وہ دس دس کو اندر لاتے اور دس دس کو باہر بھیجتے رہے، یہاں تک کہ ان میں سےکوئی باقی نہ بچا مگر سب نے کھا لیا اور سیر ہوگئے، پھر اس کو سمیٹا تو وہ اتنا ہی تھا جتنا ان کے کھانے (کے آغاز) کے وقت تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، آپ کو اس کھانے کے لیے بلانے کے لیے بھیجا، جو انہوں نے تیار کیا تھا، میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ تھے، آپ نے مجھے دیکھا تو میں شرما گیا اور میں نے کہا، آپ کو ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعوت کے لیے بلاتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: اٹھو ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میں نے تو بس آپ کے لیے کچھ تیار کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چھوا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا: میرے ساتھیوں میں سے دس افراد کو داخل کر دو اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: کھاؤ۔ اور ان کے لیے اپنی انگلیوں میں سے کوئی چیز نکالی، انہوں نے کھایا، حتی کہ سیر ہو کر نکل گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوطلحہ سے) فرمایا: دس کو داخل کرو۔ انہوں نے سیر ہو کر کھایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم انہیں دس دس داخل اور خارج کرتے رہے، حتی کہ کوئی نہ رہ گیا جو داخل نہ ہوا ہو، پھر آپ نے سیر ہو کر کھایا، پھر آپ نے کھانا ایک جگہ کیا تو وہ اتنا ہی تھا، جتنا انہوں نے کھانا شروع کیا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5318
وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْر ٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فِي آخِرِهِ: " ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ فَجَمَعَهُ ثُمَّ دَعَا فِيهِ بِالْبَرَكَةِ "، قَالَ: فَعَادَ كَمَا كَانَ، فَقَالَ دُونَكُمْ هَذَا.
یحییٰ بن سعید اموی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث سنا ئی کہا: ہمیں سعد بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا پھر ابن نمیر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، مگر انھوں نے اس کے آخر میں یوں کہا: جو بچا تھا آپ نے اسے لے کر اکٹھا کیا پھر اس میں بر کت کی دعا کی کہا: تو وہ (پھر سے) اتنا ہی ہو گیا: جتنا تھا پھر فرما یا: "تمھارے لیے ہے۔" (آپ نے کھا نے کے آغاز میں بھی برکت کی دعا کی اور آخر میں بھی۔)
امام صاحب ایک اور استاد سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا اور ابن نمیر کی مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت بیان کی، ہاں آخر میں کہا: پھر باقی کو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کروایا، پھر اس میں برکت کی دعا فرمائی تو وہ پہلی حالت پر لوٹ آیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو لے لو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5319
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ أَنْ تَصْنَعَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا لِنَفْسِهِ خَاصَّةً، ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَيْهِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَسَمَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ: " كُلُوا وَسَمُّوا اللَّهَ "، فَأَكَلُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا، ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكُوا سُؤْرًا.
عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ خا ص طور پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھا نا تیار کردے پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا گیا اس کے بعد حدیث بیان کی اور اس میں یہ (بھی) کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھانے پر) اپنا ہاتھ رکھا اور اس پر بسم اللہ پڑھی پھر فرما یا: " دس آدمیوں کو اندر آنے کی) اجازت دو"انھوں نے دس آدمیوں کو اجازت دی وہ اندر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا "بسم اللہ پڑھو اور کھا ؤ "تو ان لو گوں نے کھا یا حتی کہ اسی آدمیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا (دس دس کواندر بلا یا بسم اللہ پڑھ کر کھا نے کو کہا۔) اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر والوں نے کھا یا اور (پھر بھی) انھوں نے کھا نا بچا دیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خصوصی طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا، پھر مجھے آپ کی طرف بھیجا اور مذکورہ حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی بتایا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ رکھا اور اس پر بسم اللہ پڑھی، پھر فرمایا: دس کو اجازت دو۔ ابوطلحہ کی اجازت سے وہ داخل ہو گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ انہوں نے کھایا، حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل اسی افراد کے ساتھ کیا، پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر کے افراد نے کھایا اور کھانا باقی چھوڑا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5320
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ فِي طَعَامِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ فِيهِ: فَقَامَ أَبُو طَلْحَةَ عَلَى الْبَابِ حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا كَانَ شَيْءٌ يَسِيرٌ، قَالَ: " هَلُمَّهُ فَإِنَّ اللَّهَ سَيَجْعَلُ فِيهِ الْبَرَكَةَ ".
یحییٰ (مازنی) نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے کھا نے کا یہی قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالےسے بیان کیا اور اس میں کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہو گئے۔یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا ئے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !صرف تھوڑا ساکھانا تھا آپ نے فرما یا: "لے آؤ اللہ تعا لیٰ عنقریب اس میں برکت ڈال دے گا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، ابوطلحہ کے کھانے کا یہی واقعہ بیان کرتے ہیں، اس میں یہ ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دروازہ پر کھڑے ہو گئے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو ان سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! وہ تو بہت تھوڑا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لاؤ، اللہ تعالیٰ ابھی اس میں برکت ڈال دے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5321
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ الْبَجَلِيُّ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَأَفْضَلُوا مَا أَبْلَغُوا جِيرَانَهُمْ.
عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی اور اس میں کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنا ول فرما یا اور گھر والوں نے کھا یا اور اتنا بچا دیا جو انھوں نے پڑوسیوں کو (بھی) بھجوادیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی حدیث بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور اتنا باقی چھوڑا جو پڑوسیوں تک پہنچایا گیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5322
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: رَأَى أَبُو طَلْحَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي الْمَسْجِدِ يَتَقَلَّبُ ظَهْرًا لِبَطْنٍ، فَأَتَى أُمَّ سُلَيْمٍ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي الْمَسْجِدِ يَتَقَلَّبُ ظَهْرًا لِبَطْنٍ وَأَظُنُّهُ جَائِعًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ وَأُمُّ سُلَيْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ فَأَهْدَيْنَاهُ لِجِيرَانِنَا.
عمرو بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں لیٹے ہو ئے دیکھا آپ پیٹھ اور پیٹ کے بل کروٹیں لے رہے تھے۔پھر وہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں لیٹے ہو ئے دیکھا ہے آپ پیٹھ سے پیٹ کے بل کروٹیں لے رہے تھے اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں اور (ساری) حدیث بیان کی اور اس میں یہ کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کھا نا کھا یا اور کچھ کھا نا بچ گیا جو ہم نے اپنے پڑوسیوں کو ہدیہ کردیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں لیٹے ہوئے اس حال میں دیکھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں تو وہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں اس حال میں لیٹے دیکھا کہ آپ پشت اور پیٹ کو بار بار اوپر نیچے کر رہے ہیں اور میں سجھتا ہوں آپ بھوکے ہیں اور مذکورہ بالا حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوطلحہ، ام سلیم، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کھایا اور کچھ کھانا بچ گیا تو وہ ہم نے بطور تحفہ پڑوسیوں کو دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5323
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي التُّجِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ ، أَنَّ يَعْقُوبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا مَعَ أَصْحَابِهِ يُحَدِّثُهُمْ وَقَدْ عَصَّبَ بَطْنَهُ بِعِصَابَةٍ، قَالَ أُسَامَةُ: وَأَنَا أَشُكُّ عَلَى حَجَرٍ، فَقُلْتُ: لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ لِمَ عَصَّبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَهُ؟، فَقَالُوا: مِنَ الْجُوعِ، فَذَهَبْتُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ وَهُوَ زَوْجُ أُمِّ سُلَيْمٍ بِنْتِ مِلْحَانَ، فَقُلْتُ يَا أَبَتَاهُ: قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ عَصَّبَ بَطْنَهُ بِعِصَابَةٍ، فَسَأَلْتُ بَعْضَ أَصْحَابِهِ، فَقَالُوا: مِنَ الْجُوعِ، فَدَخَلَ أَبُو طَلْحَةَ عَلَى أُمِّي، فَقَالَ: هَلْ مِنْ شَيْءٍ؟، فَقَالَتْ: نَعَمْ عِنْدِي كِسَرٌ مِنْ خُبْزٍ وَتَمَرَاتٌ، فَإِنْ جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحْدَهُ أَشْبَعْنَاهُ، وَإِنْ جَاءَ آخَرُ مَعَهُ، قَلَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ذَكَرَ سَائِرَ الْحَدِيثِ بِقِصَّتِهِ.
اسامہ نے بتا یا کہ یعقوب بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے انھیں حدیث بیان کی کہ انھوں نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے سنا کہہ رہے تھے۔ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدمیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہو ئے ان سے باتیں کرتے ہو ئے پایا۔آپ نے بطن مبا رک پر ایک پتھر کو ایک چوڑی سی پٹی سے باندھ رکھا تھا۔۔۔اسامہ نے کہا: مجھے شک ہے (کہ یعقوب نے "پتھر"کا لفظ بولا یا نہیں)۔۔۔میں نے آپ کے ایک ساتھی سے پو چھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بطن کو کیوں باندھ رکھاہے؟ لوگوں نے بتا یا: بھوک کی بنا پر۔پھر میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہ (میری والدہ) حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے خاوندتھے میں نے ان سے کہا: اباجا ن!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے پیٹ پر پٹی باندھ رکھی ہے میں نے آپ کے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پو چھا: اس کا کیا سبب ہے؟ انھوں نے کہا بھوک۔پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ میری ماں کے پاس گئےاور پوچھا: کہ کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں میرے پاس روٹی کے ٹکڑے اور کچھ کھجوریں ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو ہم آپ کو سیر کر کے کھلا دیں گے۔ اور اگر کوئی اور بھی آپ کے ساتھ آیا تو یہ کھانا کم ہو گا پھر باقی ساری حدیث بیان کی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کرتے ہوئے پایا اور آپ نے اپنے پیٹ پر پٹی باندھی ہوئی تھی، حدیث کے راوی اسامہ کہتے ہیں: مجھے شک ہے کہ پٹی پتھر پر باندھی ہوئی تھی تو میں نے آپ کے بعض ساتھیوں سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیٹ کیوں باندھا ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا: بھوک کی وجہ سے تو میں ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو ام سلیم بنت ملحان (میری والدہ) کے خاوند تھے، کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: اے ابا جان! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، آپ نے ایک پٹی سے اپنا پیٹ باندھا ہوا ہے تو میں نے آپ کے بعض ساتھیوں سے پوچھا: انہوں نے بتایا، بھوک کی بنا پر باندھا ہے تو ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری والدہ کے پاس گئے اور پوچھا: کیا کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: ہاں، میرے پاس کچھ روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں ہیں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں اکیلے تشریف لائے تو ہم آپ کو سیر کر سکیں گے اور آپ کے ساتھ کوئی اور آ گیا تو کھانا ان کے لیے کم پڑ جائے گا، پھر روایت واقعہ سمیت سنائی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040
حدیث نمبر: 5324
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِر ِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَعَامِ أَبِي طَلْحَةَ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ.
نضر بن انس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے کھا نے کے بارے میں ان سب کی حدیث کے مطا بق روایت کیا۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کھانے کے بارے میں روایت، دوسروں کی طرح بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2040