سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم جہاد کو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وادی میں پایا جہاں کانٹے دار درخت بہت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے تلے اترے اور اپنی تلوار ایک شاخ سے لٹکا دی اور لوگ جدا جدا پھیل گئے اسی وادی میں درختوں کے سایوں میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص میرے پاس آیا، میں سو رہا تھا، اس نے تلوار اتار لی، میں جاگا وہ میرے سر پر کھڑا تھا، مجھے اس وقت خبر ہوئی جب اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار آ گئی۔“ وہ بولا: اب تمہیں کون بچا سکتا ہے مجھ سے؟ میں نے کہا: ”اللہ تعالیٰ۔“ پھر دوسری بار اس نے یہی کہا، میں نے کہا: ”اللہ، یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ وہ شخص یہ بیٹھا ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ تعرض نہ کیا۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْفَضَائِلِ/حدیث: 5950]
شعیب نے زہری سے روایت کی، کہا: مجھے سنان بن ابی سنان دؤلی اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے حدیث بیان کی کہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں، ان دونوں کو خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نجد کی طرف ایک جنگ میں حصہ لیا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو وہ بھی آپ کے ساتھ واپس ہوئے، ایک دن دوپہر کے آرام کا وقت ہوگیا، اس کے بعد انھوں نے ابراہیم بن سعد اور معمر کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک جنگی سفرپر گئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے تو وہ بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس آئے، انہیں ایک دن ایک جگہ قیلولہ کرنا پڑا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (واپس) آئے، یہاں تک کہ جب ہم ذات الرقاع پہنچے، (پھر) زہری کی حدیث کے ہم معنی روایت کی اور یہ نہیں کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی تعرض نہ فرمایا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے حتیٰ کہ جب ہم ذات الرقاع پہنچ گئے، آگے مذکورہ بالاروایت ہے، لیکن اس میں یہ نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ تعرض نہیں کیا۔