الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
4. باب فَضْلِ صِلَةِ أَصْدِقَاءِ الأَبِ وَالأُمِّ وَنَحْوِهِمَا:
4. باب: ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ سلوک کر نے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6513
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ لَقِيَهُ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ وَحَمَلَهُ عَلَى حِمَارٍ كَانَ يَرْكَبُهُ وَأَعْطَاهُ عِمَامَةً، كَانَتْ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ ابْنُ دِينَارٍ: فَقُلْنَا لَهُ: أَصْلَحَكَ اللَّهُ إِنَّهُمُ الْأَعْرَابُ، وَإِنَّهُمْ يَرْضَوْنَ بِالْيَسِيرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ أَبَا هَذَا كَانَ وُدًّا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْوَلَدِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ ".
ولید بن ولید نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدوی شخص ملا، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار ہوتے تھے اس پر اسے بھی سوار کر لیا اور اپنے سر پر جو عمامہ تھا وہ اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ ابن دینار نے کہا: ہم نے ان سے عرض کی: اللہ تعالیٰ آپ کو ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے! یہ بدو لوگ تھوڑے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ تو حضرت عبداللہ (بن عمر) رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس شخص کا والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا محبوب دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "والدین کے ساتھ بہترین سلون ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہے جن کے ساتھ اس کے والد کو محبت تھی۔"
عبداللہ بن دینار رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی انہیں مکہ کے راستہ میں ملا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سلام کہا اور گدھے پرسوارتھے،وہ اسے سواری کے لیے دے دیا اور اسے ا پنے سروالی پگڑی عنایت کی،ابن دینار رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،چنانچہ میں نے ان سے کہا،اللہ تعالیٰ آپ کےحالات درست رکھے،یہ جنگلی لوگ ہیں اور یہ لوگ معمولی چیز پر بھی خوش ہوجاتے ہیں تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا،اس کا باپ،عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوست تھا اورمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے،"سب سے بڑی وفاداری اور نیکی یہ ہے کہ اولاد اپنے باپ سے محبت کرنے والوں سے تعلق رکھے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2552
حدیث نمبر: 6514
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَبَرُّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ وُدَّ أَبِيهِ ".
حیوہ بن شریح نے ابن ہاد سے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے والد کے ساتھ سب سے بڑا نیک سلوک یہ ہے کہ انسان اس شخص سے بھی بہت اچھا سلوک کرے جس کے ساتھ اس کے والد کا محبت کا رشتہ تھا۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"سب سے بڑا ایفائے عہد یا حقوق کی ادائیگی،آدمی کااپنے باپ سے محبت کرنے والوں سے تعلق رکھنا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2552
حدیث نمبر: 6515
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ جَمِيعًا، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ كَانَ لَهُ حِمَارٌ يَتَرَوَّحُ عَلَيْهِ إِذَا مَلَّ رُكُوبَ الرَّاحِلَةِ، وَعِمَامَةٌ يَشُدُّ بِهَا رَأْسَهُ، فَبَيْنَا هُوَ يَوْمًا عَلَى ذَلِكَ الْحِمَارِ إِذْ مَرَّ بِهِ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: أَلَسْتَ ابْنَ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ؟ قَالَ: بَلَى، فَأَعْطَاهُ الْحِمَارَ، وَقَالَ: ارْكَبْ هَذَا وَالْعِمَامَةَ، قَالَ: اشْدُدْ بِهَا رَأْسَكَ، فَقَالَ لَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ أَعْطَيْتَ هَذَا الْأَعْرَابِيَّ حِمَارًا، كُنْتَ تَرَوَّحُ عَلَيْهِ وَعِمَامَةً كُنْتَ تَشُدُّ بِهَا رَأْسَكَ، فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ "، وَإِنَّ أَبَاهُ كَانَ صَدِيقًا لِعُمَرَ.
ابراہیم بن سعد اور لیث بن سعد دونوں نے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کی کہ وہ مکہ مکرمہ کے لیے نکلتے تو جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو ان کا گدھا (ساتھ ہوتا) تھا جس پر وہ سہولت کے لیے سواری کرتے۔ اور ایک عمامہ (ہوتا) تھا جو اپنے سر پر باندھتے تھے۔ تو ایسا ہوا کہ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے کہ ایک بادیہ نشیں ان کے قریب سے گزرا، انہوں نے اس سے کہا؛ تم فلاں بن فلاں کے بیٹے نہیں ہو! اس نے کہا: کیوں نہیں (اسی کا بیٹا ہوں) تو انہوں نے گدھا اس کو دے دیا اور کہا: اس پر سوار ہو جاؤ اور عمامہ (بھی) اسے دے کر کہا: اسے سر پر باندھ لو۔ تو ان کے کسی ساتھی نے ان سے کہا: اللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ نے اس بدو کو وہ گدھا بھی دے دیا جس پر آپ سہولت (تکان اتارنے) کے لیے سواری کرتے تھے اور عمامہ بھی دے دیا جو اپنے سر پر باندھتے تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "والدین کے ساتھ بہترین سلوک میں سے یہ (بھی) ہے کہ جب اس کا والد رخصت ہو جائے تو اس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھنے والے آدمی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔" اور اس کا والد (میرے والد) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔
عبداللہ بن دینار رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ مکہ کے سفر پر روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ ایک گدھا ہوتا،جب وہ اونٹ کی سواری سے اکتا جاتے تو اس پر سوارہوکر آرام حاصل کرتے اورایک پگڑی تھی،جسے اپنے سرپر باندھتے تھے،ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے کہ اس دوران،ان کے پاس سے ایک بدوی گزرا،چنانچہ انہوں نے پوچھا،کیاتم فلان بن فلان کے بیٹے نہیں ہو،اس نے کہا،کیوں نہیں تو انہوں نے اسے اپناگدھا دے دیا اورفرمایا،اس پر سوار ہوجا اور پگڑی دی کہ اسے اپنے سر پر باندھ لو تو انہیں ان کے بعض احباب نے کہا،اللہ آپ کی مغفرت فرمائے،آپ نے اس بدوکو وہ گدھا دے دیاہے،جس پر آپ راحت حاصل کرتے تھے اور وہ پگڑی عنایت فرمادی ہے،جسے اپنے سر پر باندھتےتھے تو انہوں نے جواب دیا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے،حسن سلوک کی ایک اعلیٰ قسم یہ ہے کہ باپ کے انتقال کے بعد انسان اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ(احترام و تکریم) کا تعلق رکھے۔"اور اس کا باپ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوست تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2552