الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الْقَدَرِ
تقدیر کا بیان
1. باب كَيْفِيَّةِ الْخَلْقِ الآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ:
1. باب: انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق، عمر، عمل، شقاوت و سعادت لکھے جانے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 6723
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا وَاللَّفْظُ لَهُ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ بِكَتْبِ رِزْقِهِ، وَأَجَلِهِ، وَعَمَلِهِ، وَشَقِيٌّ، أَوْ سَعِيدٌ، فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا ".
عبداللہ بن نمیر ہمدانی، ابومعاویہ اور وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں اعمش نے زید بن وہب سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ سچ بتاتے ہیں اور انہیں (وحی کے ذریعے سے) سچ بتایا جاتا ہے نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک شخص کا مادہ تخلیق چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں اکٹھا کیا جاتا ہے، پھر وہ اتنی مدت (چالیس دن) کے لیے علقہ (جونک کی طرح رحم کی دیوار کے ساتھ چپکا ہوا) رہتا ہے، پھر اتنی ہی مدت کے لیے مُضغہ کی شکل میں رہتا ہے (جس میں ریڑھ کی ہڈی کے نشانات دانت سے چبائے جانے کے نشانات سے مشابہ ہوتے ہیں۔) پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو (پانچویں مہینے نیوروسیل، یعنی دماغ کی تخلیق ہو جانے کے بعد) اس میں روح پھونکتا ہے۔ اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عمل اور یہ کہ وہ خوش نصیب ہو گا یا بدنصیب، لکھ لیا جائے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں! تم میں سے کوئی ایک شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو (اللہ کے علم کے مطابق) لکھا ہوا اس پر غالب آ جاتا ہے تو وہ اہل جہنم کا عمل کر لیتا ہے اور اس (جہنم) میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور تم میں سے ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو (اللہ کے علم کے مطابق) لکھا ہوا اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کا عمل کر لیتا ہے اور اس (جنت) میں داخل ہو جاتا ہے۔"
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صادق اور مصدوق ہیں، نے بتایا "تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق چالیس دن اپنی ماں کے پیٹ میں نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے دنوں میں منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر فرشتے کو بھیجا جاتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کا رزق، اس کی مدت حیات، اس کے اعمال اور وہ نیک بخت ہے یا بد بخت ہے لکھ دیا جاتا ہے، اس ذات کی قسم، جس کے سواکوئی لائق بندگی نہیں ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے،حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر نوشتہ اس پر غالب آجاتا ہے تو وہ دوزخیوں والے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے، (اس طرح کبھی ایسا ہوتا ہے) تم میں سے کوئی شخص دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آتا ہے، سو وہ جنتیوں والے عمل کرنے لگتا ہے اور انجام کا راس میں داخل ہو جاتا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2643
حدیث نمبر: 6724
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ: إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وقَالَ فِي حَدِيثِ مُعَاذٍ، عَنْ شُعْبَةَ: أَرْبَعِينَ لَيْلَةً أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وَأَمَّا فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ، وَعِيسَى: أَرْبَعِينَ يَوْمًا.
عثمان بن ابی شیبہ اور اسحٰق بن ابراہیم نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے جریر بن عبدالحمید سے روایت کی، نیز ہمیں اسحق بن ابراہیم نے عیسیٰ بن یونس سے خبر دی۔ اور ابوسعید اشج نے مجھے بیان کیا، کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی کہ عبیداللہ بن معاذ نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ بن حجاج نے حدیث بیان کی، ان سب (جریر، عیسیٰ، وکیع اور شعبہ) نے اعمش سے، اسی سند کے ساتھ روایت کی۔ وکیع کی حدیث میں کہا: "تم میں سے ایک انسان کا مادہ تخلیق چالیس راتوں تک اپنی ماں کے پیٹ میں اکٹھا (ہونے کے مرحلے میں) ہوتا ہے۔" اور شعبہ سے معاذ کی حدیث میں "چالیس راتیں یا چالیس دن" اور جریر اور عیسیٰ کی حدیث میں "چالیس دن" ہے۔
امام صاحب یہی روایت اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں، وکیع کی حدیث ہے،"تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق، چالیس راتوں تک جمع کیا جاتا ہے۔ "اور معاذ شعبہ سے بیان کرتے ہیں،"چالیس راتوں یا چالیس دنوں تک۔"اور جریر و عیسیٰ کی روایت میں ہے۔"چالیس دن تک۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2643
حدیث نمبر: 6725
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَدْخُلُ الْمَلَكُ عَلَى النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِي الرَّحِمِ بِأَرْبَعِينَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَيَقُولُ يَا رَبِّ: أَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ؟ فَيُكْتَبَانِ، فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ: أَذَكَرٌ، أَوْ أُنْثَى؟ فَيُكْتَبَانِ، وَيُكْتَبُ عَمَلُهُ، وَأَثَرُهُ، وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ، ثُمَّ تُطْوَى الصُّحُفُ، فَلَا يُزَادُ فِيهَا وَلَا يُنْقَصُ ".
عمرو بن دینار نے ابوطفیل (عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ) سے، انہوں نے حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت کی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی (مرفوع بیان کی)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب نطفہ (چالیس چالیس دنوں کے دو مرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے میں) چالیس یا پینتالیس راتیں رحم میں ٹھہرا رہتا ہے تو (اللہ کا مقرر کیا ہوا) فرشتہ اس کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے: اے رب! یہ خوش نصیب ہو گا یا بدنصیب ہو گا؟ تو دونوں (باتوں میں سے اللہ کو بتائے اس) کو لکھ لیا جاتا ہے، پھر کہتا ہے: اے رب! یہ مرد ہے یا عورت؟ پھر دونوں (میں سے جو اللہ بتائے اس) کو لکھ لیا جاتا ہے، پھر اس کا عمل، اس کے قدموں کے نشانات، اس کی مدت عمر اور اس کا رزق لکھ لیا جاتا ہے، پھر (اندراج کے) صحیفے لپیٹ دیے جاتے ہیں، پھر ان میں کوئی چیز بڑھائی جاتی ہے، نہ کم کی جاتی ہے۔"
حضرت حذیفہ ابن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،"جب نطفہ رحم میں چالیس یا پینتالیس راتیں ٹھہرارہتا ہے تو فرشتہ آتا ہے اور پوچھتا ہے اے میرے رب! یہ بد بخت ہے یا نیک بخت؟پھر ان دونوں کو لکھ دیا جاتا ہے اور وہ پوچھتا ہے اے میرے رب! مذکر ہے یا مؤنث؟اور ان کو لکھ دیا جاتا ہے اور اس کے عمل اور نتائج اور اس کی عمر اور اس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے پھر نوشتے لپیٹ دئیے جاتے ہیں، سو ان میں نہ زیادتی ہوتی ہے اور نہ کمی۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2644
حدیث نمبر: 6726
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ وَاثِلَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَالسَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ، فَأَتَى رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ حُذَيْفَةُ بْنُ أَسِيدٍ الْغِفَارِيُّ ، فَحَدَّثَهُ بِذَلِكَ مِنْ قَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: وَكَيْفَ يَشْقَى رَجُلٌ بِغَيْرِ عَمَلٍ؟ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: أَتَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ؟ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا مَرَّ بِالنُّطْفَةِ ثِنْتَانِ، وَأَرْبَعُونَ لَيْلَةً، بَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهَا مَلَكًا، فَصَوَّرَهَا، وَخَلَقَ سَمْعَهَا، وَبَصَرَهَا، وَجِلْدَهَا، وَلَحْمَهَا، وَعِظَامَهَا، ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى؟ فَيَقْضِي رَبُّكَ مَا شَاءَ وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ أَجَلُهُ؟ فَيَقُولُ رَبُّكَ مَا شَاءَ، وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ رِزْقُهُ؟ فَيَقْضِي رَبُّكَ مَا شَاءَ، وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ، ثُمَّ يَخْرُجُ الْمَلَكُ بِالصَّحِيفَةِ فِي يَدِهِ، فَلَا يَزِيدُ عَلَى مَا أُمِرَ وَلَا يَنْقُصُ ".
عمرو بن حارث نے ابوزبیر علی سے روایت کی کہ حضرت عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں (تھا تو اللہ کے علم کے مطابق) بدبخت تھا اور سعادت مند وہ ہے جو اپنے علاوہ دوسرے سے نصیحت حاصل کرے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص آئے جنہیں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، انہوں (عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ) نے ان کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یہ حدیث سنائی اور (ان سے پوچھنے کے لیے) کہا: وہ شخص کوئی عمل کیے بغیر بدبخت کیسے ہو جاتا ہے؟ تو اس (عامر) کو آدمی (حذیفہ رضی اللہ عنہ) نے کہا: کیا آپ اس پر تعجب کرتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "جب نطفے پر (تیسرے مرحلے کی) بیالیس راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے، وہ اس کی صورت بناتا ہے، اس کے کان، آنکھیں، کھال، گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے، پھر کہتا ہے: اے میرے رب! یہ مرد ہو گا کہ عورت؟ پھر تمہارا رب جو چاہتا ہوتا ہے وہ فیصلہ بتاتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر وہ کہتا ہے: اے میرے رب! اس کی مدت حیات (کتنی ہو گی؟) پھر تمہارا رب جو اس کی مچیت ہوتی ہے، بتاتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر وہ (فرشتہ) کہتا ہے: اے میرے رب! اس کا رزق (کتنا ہو گا؟) تو تمہارا رب جو چاہتا ہوتا ہے وہ فیصلہ بتاتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر فرشتہ اپنے ہاتھ میں صحیفہ لے کر نکل جاتا ہے، چنانچہ وہ شخص کسی معاملے میں نہ اس سے بڑھتا ہے، نہ کم ہوتا ہے۔"
حضرت عامر بن واثلہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا، بد بخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں بد بخت ہوا اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے سبق و عبرت حاصل کرے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی خذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نامی صحابی کے پاس آیا۔ چنانچہ انہیں حضرت مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول سنایا اور پوچھا عمل کے بغیر انسان کیسے بد بخت ہو سکتا ہے؟ تو انھوں نے اسے کہا، کیا تجھے اس پر تعجب ہے؟ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے،"جب نطفہ پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے تو وہ اس کی تصویر کشی کرتا ہے، اس کے کان،آنکھ،کھال، گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے، پھر عرض کرتا ہے اے میرے رب! کیا مذکرہے یا مؤنث؟ تو اللہ جو فیصلہ چاہتا ہے فرماتا ہے اور فرشتہ لکھ دیتا ہے پھر فرشتہ پوچھتا ہے۔اے میرے رب!اس کی عمر کیا ہے؟ تو تیرا رب جو چاہتا ہے فرمادیتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر وہ پوچھتا ہے، اے میرے رب!اس کا رزق تو تیرا رب جو چاہتا ہے، فیصلہ فرماتا ہے اور فرشتہ اسے لکھ لیتا ہے پھر فرشتہ نوشتہ ہاتھ میں لے کر نکل جاتا ہے اس کو جو حکم ملتا ہے، اس میں نہ اضافہ کرتا ہے اور نہ کمی۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2645
حدیث نمبر: 6727
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ.
ابن جریج نے کہا: مجھے ابوزبیر نے خبر دی کہ ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے اور عمرو بن حارث کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
امام صاحب ایک اور استاد سے،عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2645
حدیث نمبر: 6728
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَطَاءٍ ، أَنَّ عِكْرِمَةَ بْنَ خَالِدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ حَدَّثَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي سَرِيحَةَ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، يَقُولُ: " إِنَّ النُّطْفَةَ تَقَعُ فِي الرَّحِمِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ يَتَصَوَّرُ عَلَيْهَا الْمَلَكُ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَسِبْتُهُ، قَالَ: الَّذِي يَخْلُقُهَا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَذَكَرٌ أَوْ أُنْثَى؟ فَيَجْعَلُهُ اللَّهُ ذَكَرًا أَوْ أُنْثَى، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ أَسَوِيٌّ، أَوْ غَيْرُ سَوِيٍّ؟ فَيَجْعَلُهُ اللَّهُ سَوِيًّا، أَوْ غَيْرَ سَوِيٍّ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا رِزْقُهُ، مَا أَجَلُهُ، مَا خُلُقُهُ؟ ثُمَّ يَجْعَلُهُ اللَّهُ شَقِيًّا أَوْ سَعِيدًا ".
یحییٰ بن ابوبکیر نے کہا: ہمیں ابوخیثمہ زہیر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے عبداللہ بن عطاء نے حدیث بیان کی، انہیں عکرمہ بن خالد نے حدیث بیان کی، انہیں ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: میں ابو سریحہ حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے کہا: میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "نطفہ (اصل میں تین مرحلوں میں چالیس) چالیس راتیں رحم مادر میں رہتا ہے، پھر فرشتہ اس کی صورت بناتا ہے۔" زہیر نے کہا: میرا گمان ہے کہ انہوں نے کہا: (فرشتہ) اسے بتایا ہے: "تو وہ کہتا ہے: اے میرے رب! عورت ہو گی یا مرد ہو گا؟ پھر اللہ تعالیٰ اس کے مذکر یا مؤنث ہونے کا فیصلہ بتا دیتا ہے، وہ (فرشتہ) پھر کہتا ہے: اے میرے رب! مکمل (پورے اعضاء والا ہے) یا غیر مکمل؟ پھر اللہ تعالیٰ مکمل یا غیر مکمل ہونے کے بارے میں اپنا فیصلہ بتا دیتا ہے، پھر وہ کہتا ہے: اے میرے پروردگار! اس کا رزق کتنا ہو گا؟ اس کی مدت حیات کتنی ہو گی؟ اس کا اخلاق کیسا ہو گا؟ پھر اللہ تعالیٰ اس کے بدبخت یا خوش بخت ہونے کے بارے میں بھی (جو طے ہو چکا) بتا دیتا ہے۔"
حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنے ان دو کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا،"نطفہ رحم میں چالیس راتوں تک پڑا رہتا ہے، پھر فرشتہ اس کی تصویر کشی کے لیےآتا ہے،"زہیر کہتے ہیں میرا خیال ہے، انھوں نے کہا جو اس کی تخلیق کرتا ہے،"پھر وہ پوچھتا ہے، اے میرے رب!مذکر یا مؤنث؟ تو اللہ اسے مذکر یا مؤنث بنا دیتا ہےپھر وہ پوچھتا ہے، اے میرے رب! کامل الاعضاء یا ناقص الخلقت؟تو اللہ اسے تام الاعضاء یا ناقص الاعضاء بنادیتا ہے،پھر پوچھتا ہے،اے میرے رب!اس کارزق کتنا ہے؟ اس کی عمر کتنی ہے؟ اس کا اخلاق کیسا ہے؟ پھر اللہ اس کو شقی یا سعید بنا دیتا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2645
حدیث نمبر: 6729
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ كُلْثُومٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي كُلْثُومٌ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ مَلَكًا مُوَكَّلًا بِالرَّحِمِ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَخْلُقَ شَيْئًا بِإِذْنِ اللَّهِ لِبِضْعٍ وَأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ.
کلثوم نے ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا روایت کی: "تخلیق کے دوران میں رحم پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ اپنے اذن سے کوئی چیز پیدا کرنا چاہتا ہے تو چالیس اور کچھ اوپر راتیں گزارنے کے بعد" پھر ان سب کی روایت کردہ حدیث کے مطابق بیان کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی،حذیفہ بن ابی اسید غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،" کہ ایک فرشتہ رحم پر مقرر ہے، جب اللہ چاہتا ہے کہ وہ چالیس سے اوپر، راتوں کے بعد، اللہ کی اجازت سے تخلیق کا آغاز کرے۔"پھر آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2645
حدیث نمبر: 6730
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَرَفَعَ الْحَدِيثَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ نُطْفَةٌ؟ أَيْ رَبِّ عَلَقَةٌ؟ أَيْ رَبِّ مُضْغَةٌ؟ فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقًا، قَالَ: قَالَ الْمَلَكُ: أَيْ رَبِّ ذَكَرٌ أَوْ أُنْثَى؟ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ؟ فَمَا الرِّزْقُ؟ فَمَا الْأَجَلُ؟ فَيُكْتَبُ كَذَلِكَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ ".
عبیداللہ بن ابی بکر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے یہ حدیث مرفوعا بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے، وہ کہتا ہے: اے میرے رب! (اب) یہ نطفہ ہے، اے میرے رب! (اب) یہ عقلہ ہے، اے میرے رب! (اب یہ مضغہ ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی (انسان کی صورت میں) تخلیق کا فیصلہ کرتا ہے تو انہوں نے کہا: فرشتہ کہتا ہے: اے میرے رب! مرد ہو یا عورت؟ بدبخت ہو یا خوش نصیب؟ رزق کتنا ہو گا؟ مدت عمر کتنی ہو گی؟ وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اسی طرح (سب کچھ) لکھ لیا جاتا ہے۔"
حضرت انس بن مالک مرفوعاًبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:" اللہ عزوجل (برتراور بزرگ)نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے وہ کہتا ہے اے میرے رب! یہ نطفہ ہے، اے میرے رب!(اب یہ)علفہ بن گیا ہے، اے میرے رب! اب یہ گوشت کا لوتھڑا بن گیا ہے، چنانچہ جب اللہ اس کی تخلیق کا فیصلہ کرلیتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب!مذکرہے یا مؤنث ہے یا بد بخت ہے یا نیک بخت؟اس کا رزق کیا ہے؟ اس کی مدت حیات کتنی ہے؟ یہ سب کچھ اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2646
حدیث نمبر: 6731
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَنَكَّسَ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا وَقَدْ كَتَبَ اللَّهُ مَكَانَهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلَّا وَقَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً "، قَالَ: فَقَالَ رَجَلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ؟ فَقَالَ: مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، فَقَالَ: اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ، فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى {7} وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى {8} وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى {9} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى {10} سورة الليل آية 5-10.
) جریر نے ہمیں منصور سے حدیث بیان کی۔ انہون نے سعید بن عبیدہ سے، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنا سر مبارک جھکا لیا اور اپنی چھڑی سے زمین کریدنے لگے (جس طرح کہ فکر مندی کے عالم میں ہوں۔) پھر فرمایا: "تم میں سے کوئی ایک بھی نہیں، کوئی سانس لینے والا جاندار شخص نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے (اپنے ازلی ابدی حتمی علم کے مطابق) جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانا لکھ دیا ہے اور (کوئی نہیں) مگر (یہ بھی) لکھ دیا گیا ہے کہ وہ بدبخت ہے یا خوش بخت۔" کہا: تو کسی آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے لکھے پر ہی نہ رہ جائیں اور عمل چھوڑ دیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جو خوش بختوں میں سے ہو گا تو وہ خوش بختوں کے عمل کی طرف چل پڑے گا۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عمل کرو، ہر ایک کا راستہ آسان کر دیا گیا ہے۔ جو خوش بخت ہیں ان کے لیے خوش بختوں کے اعمال کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے اور جو بدبخت ہیں ان کے لیے بدبختوں کے عملوں کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کیا: "پس وہ شخص جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کر دی تو ہم اسے آسانی کی زندگی (تک پہنچنے) کے لیے سہولت عطا کریں گے اور وہ جس نے بخل کیا اور بے پروائی اختیار کی اور اچھی بات کی تکذیب کی تو ہم اسے مشکل زندگی (تک جانے) کے لیے سہولت دیں گے۔"
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک جنازہ کے سلسلہ میں بقیع غرقد میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور ہم آپ نے ارد گردبیٹھ گئے اور آپ کے پاس ایک چھڑی تھی چنانچہ آپ نے سر جھکا لیا اور اپنی چھڑی سے زمین کرید نے لگے پھر فرمایا،"تم میں سے ہر ایک شخص اور ہر جان دار، نفس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ میں اللہ نے لکھا دیا ہے اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہےبد بخت ہے یا نیک بخت "ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اپنے نوشتہ پر نہ ٹھہر جائیں اور عمل چھوڑدیں۔؟"تو آپ نے فرمایا:"جو اہل سعادت میں سے ہے وہ یقیناً اہل سعادت والے اعمال کی طرف رخ کرے گا اور جو اہل شقاوت میں سے ہیں وہ یقیناً اہل شقاوت کے اعمال کی طرف چلے گا۔"اور آپ نے فرمایا:"عمل کرو، ہر ایک کے لیے آسان ہوگا،پس جو کوئی اہل سعادت سے ہے تو ان کے لیے اہل سعادت والے کام آسان کردئیے جائیں گے اور رہے اہل شقاوت تو ان کے لیے اہل شقاوت والے اعمال آسان کردئیے جائیں گے۔"پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی،"پس جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور حدود الٰہی کی پابندی کی اور اچھی بات (شریعت)کی تصدیق کی تو ہم اس کو چین و راحت کی زندگی یعنی جنت حاصل کرنے کی توفیق دیں گےاور پس جس نے بخل سے کام لیا اور بے نیازی اختیار کی اور اچھی بات (دعوت اسلام) کو جھٹلایا تو ہم اس کے لیے تکلیف دہ اور دشواری والی زندگی یعنی دوزخ کی طرف چلنا آسان کردیں گے۔"(سورۃ اللیل آیت نمبر5تا10)
ترقیم فوادعبدالباقی: 2647
حدیث نمبر: 6732
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مَنْصُورٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي مَعْنَاهُ، وَقَالَ: فَأَخَذَ عُودًا، وَلَمْ يَقُلْ مِخْصَرَةً، وَقَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوبکر بن ابی شیبہ اور ہناد بن سری نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابو احوص نے منصور سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی پکڑی اور چھڑی نہیں کہا۔ اور ابن ابی شیبہ نے ابو احوص سے بیان کردہ اپنی حدیث میں ("آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے" کی جگہ) کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کیا۔
امام صاحب مذکورہ بالا حدیث اپنے دواور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور اس میں مخصرہ کی جگہ عود(لکڑی)ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2647
حدیث نمبر: 6733
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ نَفْسٍ إِلَّا وَقَدْ عُلِمَ مَنْزِلُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلِمَ نَعْمَلُ أَفَلَا نَتَّكِلُ؟ قَالَ: لَا، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} سورة الليل آية 5-6 إِلَى قَوْلِهِ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 10 ".
وکیع، عبداللہ بن نمیر اور ابومعاویہ نے کہا: ہمیں اعمش نے سعد بن عبیدہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ نے اپنا سر اقدس اٹھا کر فرمایا: "تم میں سے کوئی ذی روح نہیں مگر جنت اور دوزخ میں اس کا مقام (پہلے سے) معلوم ہے۔" انہوں (صحابہ) نے عرض کی: اللہ کے رسول! پھر ہم کس لیے عمل کریں؟ ہم اسی (لکھے ہوئے) پر تکیہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، تم عمل کرو، ہر شخص کے لیے اسی کی سہولت میسر ہے جس (کو خود اپنے عمل کے ذریعے حاصل کرنے) کے لیے اس کو پیدا کیا گیا۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: "تو وہ شخص جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور اچھی بات کی تصدیق کی" سے لے کر "تو ہم اسے مشکل زندگی (تک جانے) کے لیے سہولت دیں گے" تک پڑھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف فر تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، جس سے آپ کرید رہے تھےچنانچہ آپ نے سر اٹھا کر فرمایا:"تم میں سے ہر جاندار (شخص کی جگہ جنت اور دوزخ میں جانی جا چکی ہے۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو پھر عمل کس لیے ہیں؟ تو کیا ہم بھروسہ نہ کر لیں؟آپ نے فرمایا:"نہیں عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کو اس کی توفیق ملے گی۔جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔"پھر آپ نے پڑھا۔"جس نے اللہ کی راہ میں تقوی اختیار کیا، اچھی بات (دعوت اسلام قبول کر لیا تو ہم اس کے لیے دشواری اور تکلیف والی زندگی (دوزخ) کی طرف چلنا آسان کردیں گے۔"(اللیل آیت نمبر5تا10)
ترقیم فوادعبدالباقی: 2647
حدیث نمبر: 6734
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَالْأَعْمَشِ ، أَنَّهُمَا سَمِعَا سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَيُحَدِّثُهُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
ہمیں شعبہ نے منصور اور اعمش سے حدیث بیان کی، ان دونوں نے سعد بن عبیدہ سے سنا، وہ ابوعبدالرحمٰن سلمی سے، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کر رہے تھے۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے اس کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2647
حدیث نمبر: 6735
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَيِّنْ لَنَا دِينَنَا كَأَنَّا خُلِقْنَا الْآنَ، فِيمَا الْعَمَلُ الْيَوْمَ؟ أَفِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ؟ أَمْ فِيمَا نَسْتَقْبِلُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ فِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، قَالَ: فَفِيمَ الْعَمَلُ، قَالَ زُهَيْرٌ: ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو الزُّبَيْرِ بِشَيْءٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَسَأَلْتُ مَا قَالَ؟ فَقَالَ: اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ ".
ابوخیثمہ زہیر (بن حرب) نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے دین کو اس طرح بیان کیجئے، گویا ہم ابھی پیدا کیے گئے ہیں، آج کا عمل (جو ہم کر رہے ہیں) کس نوع میں آتا ہے؟ کیا اس میں جسے (لکھنے والی) قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جو پیمارنے مقرر کیے گئے ہیں ان کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے (ہم بس انہی کے مطابق عمل کیے جا رہے ہیں؟) یا اس میں جو ہم از سر نو کر رہے ہیں (پہلے سے ان کے بارے میں کچھ طے نہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ جسے لکھنے والی قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جن کے مقرر شدہ پیمانوں کے مطابق عمل شروع ہو چکا۔" انہوں نے کہا: تو پھر عمل کس لیے (کیا جائے؟) زہیر نے کہا: پھر اس کے بعد ابوزبیر نے کوئی بات کی جو میں نہیں سمجھ سکا، تو میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا: (آپ نے فرمایا:) "تم عمل کرو، ہر ایک کو سہولت میسر کی گئی ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر دریافت کیا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے ہمارا دین (دستور زندگی)اس طرح بیان فرمائیں گویا ہم ابھی پیدا ہوئے ہیں (ہمیں کسی چیز کا پتہ نہیں)آج کل جو ہم کر رہے اس کی کیا صورت ہے؟ کیا یہ ان چیزوں میں سے ہے جسے قلم لکھ کر خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر طے ہو چکی ہے یا ہم نئے سرے سے کر رہے ہیں (تقدیر کا دخل نہیں ہے) آپ نے فرمایا:"نہیں بلکہ ان امور میں سے ہے جو قلم لکھ کر خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر (فیصلہ) طے ہو چکا ہے۔"انھوں نے عرض کیا:تو پھر عمل کی کیا حیثیت؟ زہیر کہتے ہیں، پھر ابو زبیر نے کوئی بات کہی جو میں سمجھ نہ سکا تو میں نے پوچھا کیا کہا؟ انھوں نے کہا،آپ نے فرمایا:"عمل کرتے رہو ہر ایک کے لیے آسان کردئیے جائیں گے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2648
حدیث نمبر: 6736
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْمَعْنَى وَفِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ عَامِلٍ مُيَسَّرٌ لِعَمَلِهِ.
عمرو بن حارث نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی معنی میں روایت کی اور اس میں یہ الفاظ ہیں: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر عمل کرنے والا اپنے عمل کے لیے آسانی پاتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے ہم معنی روایت کرتے ہیں، اس میں ہے، آپ نے فرمایا:"ہر عمل کرنے والے کے لیے اس کا عمل آسان کر دیا جاتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2648
حدیث نمبر: 6737
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ الضُّبَعِيِّ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قِيلَ: فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: " كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ ".
حماد بن زید نے یزید ضبعی سے روایت کی، کہا: ہمیں مطرف نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کیا یہ معلوم ہے کہ جہنم والوں سے (الگ) جنت والے کون ہیں؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔" کہا: عرض کی گئی: تو پھر عمل کرنے والے کس لیے عمل کریں؟ آپ نے فرمایا: "ہر ایک کو اسی (منزل کی طرف جانے) کی سہولت میسر کر دی جاتی ہے جس (تک اپنے اعمال کے ذریعے پہنچنے) کے لیے اسے پیدا کیا گیا تھا۔"
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، پوچھا گیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہل جنت اور اہل دوزخ سے الگ جان لیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:"ہاں۔"پوچھا گیا تو پھر عمل کرنے والے عمل کس کی خاطر کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:"ہر ایک کے لیے وہ عمل آسان کر دئیے گئے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2649
حدیث نمبر: 6738
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ كُلُّهُمْ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمَعْنَى حَدِيثِ حَمَّادٍ، وَفِي حَدِيثِ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ.
عبدالوارث، ابن علیہ، جعفر بن سلیمان اور شعبہ سب نے یزید رشک سے اسی سند کے ساتھ حماد کی حدیث کے ہم معنی روایت کی اور عبدالوارث کی حدیث میں (عرض کی گئی کے بجائے) اس طرح ہے: (عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول!
امام صاحب یہی روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں عبدالوارث رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث یہی ہے میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
ترقیم فوادعبدالباقی: 2649
حدیث نمبر: 6739
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ : " أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ أَشَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ، وَمَضَى عَلَيْهِمْ مِنْ قَدَرِ مَا سَبَقَ؟ أَوْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُونَ بِهِ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ؟ فَقُلْتُ: بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى عَلَيْهِمْ، قَالَ: فَقَالَ: أَفَلَا يَكُونُ ظُلْمًا؟ قَالَ: فَفَزِعْتُ مِنْ ذَلِكَ فَزَعًا شَدِيدًا، وَقُلْتُ: كُلُّ شَيْءٍ خَلْقُ اللَّهِ وَمِلْكُ يَدِهِ فَلَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ، فَقَالَ لِي: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، إِنِّي لَمْ أُرِدْ بِمَا سَأَلْتُكَ إِلَّا لِأَحْزِرَ عَقْلَكَ، إِنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ مُزَيْنَةَ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ أَشَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فِيهِمْ مِنْ قَدَرٍ قَدْ سَبَقَ؟ أَوْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُونَ بِهِ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ: لَا، بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فِيهِمْ وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا {7} فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا {8} سورة الشمس آية 7-8 ".
یحییٰ بن یعمر نے ابو اسود دیلی سے روایت کی، کہا: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ جو عمل لوگ آج کر رہے ہیں اور اس میں مشقت اٹھا رہے ہیں، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا اور پہلے ہی سے مقدر ہے جو ان میں جاری ہو چکا ہے یا وہ نئے سرے سے ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، جس طرح اسے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس لائے ہیں اور ان پر حجت قائم ہوئی ہے؟ میں نے جواب دیا: بلکہ جس طرح ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور اس کا سلسلہ ان میں جاری ہے۔ (دیلی نے) کہا: تو (عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو کیا یہ ظلم نہیں؟ (دیلی نے) کہا: تو اس بات پر میں سخت خوفزدہ اور پریشان ہو کیا اور میں نے کہا: ہر چیز اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی ملکیت ہے۔ جو بھی وہ کرے اس سے پوچھا نہیں جا سکتا اور وہ (اس کے مملوک بندے) جو کریں ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تم پر رحم کرے! میں نے جو تم سے پوچھا صرف اسی لیے پوچھا تھا تاکہ تمہاری عقل کا امتحان لوں۔ مزینہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس طرح دیکھتے ہیں، لوگ جو عمل آج کر رہے اور اس میں مشقت اٹھا رہے ہیں کوئی ایسی چیز ہے جا کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا اور پہلے سے مقدر ہے جو ان میں جاری ہو چکی ہے یا وہ اب ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، جس طرح اسے ان کے رسول ان کے پاس لائے ہیں اور ان پر حجت تمام ہوئی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ بلکہ ایسی چیز ہے جو ان کے بارے میں طے ہو گئی ہے اور ان میں جاری ہو چکی، اور اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے: "اور نفس انسانی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو ٹھیک بنایا! پھر اس کو اس کی بدی بھی الہام کر دی اور نیکی بھی۔"
ابو الاسود ولی کہتے ہیں،مجھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا جانتے ہو؟آج لوگ جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو مشقت برداشت کر رہے ہیں،کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فاصلہ کر دیا گیا ہے وہ سابقہ تقدیر سے یہ طے ہو چکے ہیں؟یا ان کا نبی جو شریعت لایا اور ان پر حجت قائم ہو گئی ہے، اس کی روشنی میں نئے سرے سے ہو رہے ہیں؟ تو میں نے کہا بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کے لیے طے ہو چکی ہے تو انھوں نے بھگتنی ہے) چنانچہ میں اس سے بہت زیادہ گھبرا گیا اور میں نے کہا، ہر چیز اللہ کی پیدا کردہ ہے اور اس کی مملوک ہے، اس لیے اس سے اس کے فعل کے بارے میں پوچھا۔نہیں جا سکتا اور مخلوق سے پوچھا جائے گا تو حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے کہا:اللہ تم پر رحم فرمائے میں نے تجھ سے سوال محض تیرے عقل و شعور کا اندازہ لگانے کے لیے کیا مزینہ قبیلہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے لوگ آج جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو محنت و مشقت کر رہے ہیں کیا یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور سابقہ تقدیر سے ان کے بارے میں طے ہو چکا ہے یا نئے سرے سے کر رہے ہیں،اس شریعت کی روشنی میں جو ان کا نبی ان کے پاس لایا ہے اور ان پر حجت قائم ہو چکی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:"نہیں بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کے بارے میں طے ہو چکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ برتر اور بزرگ کی کتاب میں موجود ہے اور شاید ہے نفس اور اس کا نوک پلک سنوارنا کہ اس کا اسے اس کی بدی اور تقوی کا الہام فرمانا۔(الشمس آیت نمبر7،8)
ترقیم فوادعبدالباقی: 2650
حدیث نمبر: 6740
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيلَ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيلَ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ".
علاء کے والد (عبدالرحمٰن) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ انسان ایک لمبی مدت تک اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے لیے اس کے عمل کا خاتمہ اہل جہنم کے سے عمل پر ہوتا ہے اور بلاشبہ ایک آدمی لمبا زمانہ اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے لیے اس کے عمل کا خاتمہ اہل جنت کے سے عمل پر ہوتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک انسان عرصہ دراز تک اہل جنت والے کام کرتا رہتا ہے:"پھر اس کے عملوں کا خاتمہ اہل ناروالے عمل پر ہوتا ہے اور ایک انسان ایک طویل مدت تک دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے عملوں کا خاتمہ جنتیوں والے عمل پر ہو جاتا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2651
حدیث نمبر: 6741
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ".
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک شخص، جس طرح وہ لوگوں کو نظر آ رہا ہوتا ہے، اہل جنت کے سے عمل کر رہا ہوتا ہے، لیکن (آخر کار) وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی، جس طرح سے وہ لوگوں کو نظر آ رہا ہوتا ہے اہل جہنم کے سے عمل کر رہا ہوتا ہے لیکن (انجام کار) وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔"
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک انسان اہل جنت والے عمل کرتا رہتا ہے، لوگوں کے سامنے کے حالات کے اعتبار سے، حالانکہ وہ اہل نار سے ہوتا ہے اور ایک انسان لوگوں کے سامنے کے حالات کے اعتبار سے دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 112