الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب الرقاق
27. باب قِصَّةِ أَصْحَابِ الْغَارِ الثَّلَاثَةِ، وَالتَّوَسُّلِ بِصَالِحِ الْأَعْمَالِ
27. باب: غار میں پھنسے ہوئے تین آدمیوں کا قصہ اور نیک اعمال کا وسیلہ۔
حدیث نمبر: 6949
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ أَبَا ضَمْرَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَتَمَشَّوْنَ أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ، فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ فَادْعُوا اللَّهَ تَعَالَى بِهَا لَعَلَّ اللَّهَ يَفْرُجُهَا عَنْكُمْ، فَقَالَ: أَحَدُهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَامْرَأَتِي وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا أَرَحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ، فَسَقَيْتُهُمَا قَبْلَ بَنِيَّ، وَأَنَّهُ نَأَى بِي ذَاتَ يَوْمٍ الشَّجَرُ، فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ قَبْلَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللَّهُ مِنْهَا فُرْجَةً فَرَأَوْا مِنْهَا السَّمَاءَ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَتْ لِيَ ابْنَةُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ، وَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا، فَأَبَتْ حَتَّى آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَتَعِبْتُ حَتَّى جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ، فَجِئْتُهَا بِهَا فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ عَنْهَا فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَةً فَفَرَجَ لَهُمْ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنِّي كُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ، قَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ فَرَقَهُ فَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرِعَاءَهَا فَجَاءَنِي، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَظْلِمْنِي حَقِّي، قُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرِعَائِهَا فَخُذْهَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ خُذْ ذَلِكَ الْبَقَرَ وَرِعَاءَهَا، فَأَخَذَهُ فَذَهَبَ بِهِ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ مَا بَقِيَ "،
انس بن عیاض ابو ضمرہ نے موسیٰ بن عقبہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ آپ نے فرمایا: "تین آدمی پیدال چلے جا رہے تھے کہ انہیں بارش نے آ لیا، انہوں نے پہاڑ میں ایک غار کی پناہ لی، تو (اچانک) ان کے گار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان آ گری اور ان کے اوپر آ کر انہیں ڈھانک دیا، انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم اپنے ان نیک اعمال پر نظر ڈالو جو تم نے (صرف اور صرف) اللہ کے لیے کیے ہوں اور ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، شاید وہ اس بندش اور قید سے تمہیں آزاد کر دے۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا، اے اللہ! میرے انتہائی بوڑھے والدین، بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی میں نگہداشت کرتا ہوں۔ جب شام کو میں اپنے جانور (چرانے کے بعد انہیں) ان کے پاس واپس آتا، ان کا دودھ دوہتا تو آغاز اپنے والدین سے کرتا اور اپنے بچوں سے پہلے انہیں پلاتا تھا۔ ایک دن (مویشیوں کے چرنے کے قابل) درختوں کی تلاش مجھے بہت دور لے گئی، میں رات سے پہلے گھر نہ پہنچ سکا۔ میں نے انہیں پایا کہ وہ دونوں سو چکے ہیں۔ میں جس طرح 0ہر روز) دودھ نکالا کرتا تھا نکالا اور وہ ڈوبا ہوا دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ مجھے یہ بھی ناپسند تھا کہ ان کو نیند سے جگاؤں اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ان سے پہلے بچوں کو پلاؤں، بچے بھوک کی شدت سے بلکتے ہوئے میرے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہے تھے، میں اسی حال میں (کھڑا) رہا اور وہ بھی اسی حالت میں رہے یہاں تک کہ صبح طلوع ہو گئی۔ (اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اس (غار کے بند منہ) میں اتنا سوراخ کر دے کہ ہم آسمان کو دیکھ لیں۔ اللہ نے اس میں ایک سوراخ کر دیا کہ وہ آسمان کو دیکھنے لگے۔ اور دوسرا (ساتھی) کہنے لگا: اے اللہ! میری ایک چچا زاد تھی، میں اس سے وہی شدید محبت کرتا تھا جو ایک مرد عورت سے کرتا ہے۔ میں نے اس سے اپنے لیے (خود) اسی کو مانگا۔ اس نے اس وقت تک (میری بات ماننے سے) انکار کر دیا، یہاں تک کہ میں اسے (سونے کے) سو دینار لا کر دوں۔ میں انہیں حاصل کرنے میں لگ گیا یہاں تک کہ سو دینار اکٹھے کر لیے، پھر جب میں ان کے دونوں قدموں کے درمیان پہنچا تو وہ کہنے لگی: اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور حق (نکاح) کے بغیر مہر (بکارت) نہ توڑ۔ تو (تیرا نام سن کر) میں اس سے (الگ ہو کر) کھڑا ہو گیا۔ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تجھے راضی کرنے کے لیے کیا تھا تو اس میں (اور زیادہ) سوراخ کر دے (اللہ نے) ان کے لیے (اور زیادہ) سوراخ کر دیا۔ اور تیسرے نے (دعا کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ! میں نے ایک مزدور کو چاولوں کے ایک فرق (تین صاع، تقریبا ساڑھے سات کلو گرام) کی اجرت کے عوض کام پر لگایا۔ جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو کہا: میرا حق (اجرت) ادا کرو۔ میں نے اسے اس کا فرق (تین صاع چاول) پیش کیا۔ وہ (اسے کم قرار دیتے ہوئے) اس کو چھوڑ کر چلا گیا۔ میں مسلسل اس (تین صاع چاولوں) کو کاشت کرنے لگا، یہاں تک کہ میں نے اس (کی آمدنی) سے گائے (کے بہت سے ریوڑ) اور ان کو چرانے والے (غلام) اکٹھے کر لیے۔ پھر (مدت بعد) وہ میرے پاس (واپس) آیا اور کہا: اللہ سے ڈرو، میرے حق میں مجھ پر ظلم نہ کرو۔ میں نے کہا: ان گایوں (کے ریوڑوں) اور انہیں چرانے والے (غلاموں) کی طرف جاؤ اور انہیں لے لو۔ اس نے کہا: اللہ سے ڈرو! میرے ساتھ مذاق تو نہ کرو۔ میں نے کہا: میں مذاق نہیں کر رہا، یہ سب گائیں اور ان کو چرانے والے (غلام) لے جاؤ، وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تجھے راضی کرنے کے لیے کیا تھا تو جو حصہ باقی رہ گیا ہے، اسے بھی کھول دے۔ اللہ نے باقی حصہ بھی کھول دیا (اور وہ آزاد ہو کر غار سے باہر نکل آئے۔) "
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:" جبکہ تین آدمی چلے تھے، انھیں بارش نے آلیا تو انھوں نے پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لی ان کے غار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان آپڑی اور وہ ان پر بند ہوگئی، چنانچہ انھو ں نے ایک دوسرے سے کہا، اپنے ان نیک اچھے اعمال پر نظر ڈالو، جو خاص طور پر تم نے اللہ کی رضا کے لیے کیے ہیں۔ سو ان میں سے ایک نے کہا، اے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میری بیوی تھی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے میں ان کی خاطر بکریاں چرایا کرتا تھا اور جب میں ان کے پاس بکریاں واپس لاتا،دودھ دوہتا اور سب سے پہلے ماں باپ کو پلاتا، اپنی اولاد سے بھی پہلے انہیں پلاتا اور صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ ایک دن مجھے چراگاہ کے درخت دور لے گئے یعنی بکریوں کو چراتا، چراتا میں دور نکل گیا سو میں شام تک نہ آسکا، جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہ دونوں سو چکے ہیں۔ سو میں نے حسب معمول دودھ دوہیا اور دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا مجھے ناپسند گزرا کہ میں ان کو نیند سے بیدار کروں اور یہ بھی مجھے برا معلوم ہوا کہ ماں باپ سے پہلے بچوں کو دودھ پلا دوں، حالانکہ بچے میرے پاؤں کے پاس بلبلا رہے تھےچلا رہے تھے،سو طلوع فجر تک میری اور ان کی یہی حالت رہی یعنی میں دودھ لے کر کھڑا رہا، بچے روتے رہے اور ماں باپ سوئے رہے۔ اے اللہ اگر توجانتا ہے میں نے یہ کام محض تیری رضا اور خوشنودی کے لیے کیا تھا توتو اس پتھر کو اتنا کھول دے کہ ہم اس سے آسمان کو دیکھنے لگیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ انھیں آسمان نظر آنے لگا اور دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! صورت حال یہ ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی، میں اس سے اس قدر انتہائی محبت رکھتا تھا جو مردوں کو زیادہ سے زیادہ عورتوں کے ساتھ ہو سکتی ہے میں نے اس سے اپنے آپ کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا (میں نے اس سے بدکاری کی خواہش کی)اس نے کہا:جب تک اسے سواشرفی نہ دوگے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو میں نے بھر پور کوشش کر کے سواشرفیاں جمع کر لیں اور ان کو لے کر اس کے پاس آگیا پھر جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ (تاکہ اپنا کام کروں) اس نے کہا، اے اللہ کے بندے،اللہ سے ڈرا اور مہر کو جائز طریقہ سے کھول تو میں اس سے کھڑا ہو گیا۔(اپنا ارادہ ترک کر دیا) سواگر تو جانتا ہے میں نے یہ کام محض تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو ہمارے لیے اس سے کشادگی پیدا کر دے تو اللہ نے پتھر کو اور ہٹا دیا تیسرے شخص نے کہا:اے اللہ! میں نے ایک فرق چاولوں (تین صاع) پر ایک شخص کو مزدور رکھا تھا جب اس نے اپنا کام ختم کر لیا تو کہا مجھے میرا حق (مزدودری) دو۔ چنانچہ میں نے اسے اس طے شدہ ایک فرق پیش کیا تو اس نے اس سے بے رغبتی اختیار کی پسند نہ کیا (اور چلا گیا چنانچہ میں ان چاولوں کو ہمیشہ کاشت کرتا رہا، حتی کہ میں نے ان (قیمت) سے گائیں اور ان کے چرواہے جمع کر لیے پھر وہ (عرصہ کے بعد) آیا اور کہا، اللہ سے ڈر اور میرا حق نہ مار میں نے کہا ان گائیوں اور ان کے چرواہوں کی طرف جاؤ اور ان کو لے لو تو اس نے کہا،اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر سو میں نے کہا، میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ وہ گائیاں اور ان کے چرواہے لے لو وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ سو اگر تو جانتا ہے، میں نے یہ کام تیری خوشنودی کی خاطر کیا تھا تو باقی پتھر کو بھی ہم سے ہٹا دے۔ چنانچہ اللہ نے باقی پتھر کو بھی ہٹا دیا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2743
حدیث نمبر: 6950
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ . ح وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْبَجَلِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي , وَرَقَبَةُ بْنُ مَسْقَلَةَ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وعبد بن حميد ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنُونَ ابْنَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ كُلُّهُمْ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي ضَمْرَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ وَزَادُوا فِي حَدِيثِهِمْ، وَخَرَجُوا يَمْشُونَ وَفِي حَدِيثِ صَالِحٍ: يَتَمَاشَوْنَ إِلَّا عُبَيْدَ اللَّهِ، فَإِنَّ فِي حَدِيثِهِ: وَخَرَجُوا وَلَمْ يَذْكُرْ بَعْدَهَا شَيْئًا،
موسیٰ بن عقبہ، عبیداللہ، فُضیل، رقبہ بن مسقلہ اور صالح بن کیسان سب نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوضمرہ کی موسیٰ بن عقبہ سے روایت کردہ حدیث کے ہم معنی روایت کی اور انہوں نے ان کی حدیث میں (پیدل چلے جا رہے تھے کے ساتھ) "اور وہ پیدل چلتے ہوئے نکلے" کے الفاظ بڑھائے اورعبیداللہ کی روایت کو چھوڑ کر صالح کی حدیث میں "وہ مل کر پیدل چلے" کے الفاظ ہیں جبکہ ان (عبیداللہ) کی حدیث میں "اور وہ نکلے" کا لفظ ہے اور انہوں نے اس کے بعد (پیدل چلتے ہوئے وغیرہ) کا کچھ ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب یہ حدیث اپنے بہت سے اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور ان کی موسیٰ بن عقبہ سے روایت میں یہ اضافہ ہے اور وہ غار سے نکل کر چل دئیے۔" صالح کی روایت میں"يمشون" کی جگہ "يَتَماشَون"ہے اور عبیداللہ کی روایت میں صرف "خَرجُوا" (نکل پڑے) کا لفظ ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2743
حدیث نمبر: 6951
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِهْرَامَ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ ابْنُ سَهْلٍ: حَدَّثَنَا وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " انْطَلَقَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَتَّى آوَاهُمُ الْمَبِيتُ إِلَى غَارٍ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ غَيْرَ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: اللَّهُمَّ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ فَكُنْتُ لَا أَغْبِقُ قَبْلَهُمَا أَهْلًا وَلَا مَالًا، وَقَالَ: فَامْتَنَعَتْ مِنِّي حَتَّى أَلَمَّتْ بِهَا سَنَةٌ مِنَ السِّنِينَ، فَجَاءَتْنِي فَأَعْطَيْتُهَا عِشْرِينَ وَمِائَةَ دِينَارٍ، وَقَالَ: فَثَمَّرْتُ أَجْرَهُ حَتَّى كَثُرَتْ مِنْهُ الْأَمْوَالُ، فَارْتَعَجَتْ، وَقَالَ: فَخَرَجُوا مِنْ الْغَارِ يَمْشُونَ.
سالم بن عبداللہ (بن عمر) نے مجھے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تم سے پہلے لوگوں میں سے تین شخص (کسی غرض سے) روانہ ہوئے، حتی کہ رات گزارنے کی ضرورت انہیں ایک غار کی پناہ گاہ میں لے آئی" پھر انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نافع کی روایت کے مطابق واقعہ بیان کیا مگر کہا: "اے اللہ! میرے انتہائی بوڑھے والدین تھے، میں رات کے وقت ان دونوں سے پہلے نہ گھر والوں کو دودھ پلاتا تھا، نہ مال کو (اپنی ملکیت کے غلاموں یا مویشیوں کے ان بچوں کو جن کی اپنی مائیں نہ تھیں) دودھ پلاتا تھا۔" اور (یہ بھی) کہا: " (میری عم زاد) مجھ سے دور رہی یہاں تک کہ ایک قحط سالی کا شکار ہو گئی، وہ میرے پاس آئی تو میں نے اسے (سو کے بجائے جو اس نے مانگے تھے) ایک سو بیس دینار دیے۔" اور (تیسرے شخص کے واقعے میں) اس نے کہا: "میں نے اس کی اجرت کو (کاشتکاری اور تجارت کے ذریعے) خوب بار آور بنایا، یہاں تک کہ ایسا کرنے سے مال مویشی بہت بڑھ گئے اور پھیل گئے۔" اور آخر میں کہا: "تو وہ چلتے ہوئے غار سے باہر آ گئے۔"
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:" تم سے پہلے لوگوں میں تین اشخاص روانہ ہوئے حتی کہ سونے کے لیے غار میں پناہ یا جگہ لی۔"آگے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت ہے صرف اتنا فرق ہے کہ آپ نے فرمایا:ان میں سے ایک آدمی نے کہا،"اے اللہ!میرے بوڑھے ماں باپ تھے میں رات کو ان سے پہلے اپنے اہل اور مال کو دودھ نہیں پلاتا تھا:"اور دوسرے نے کہا:"اس نے مجھ سے(بد کاری کرنے سے) انکار کیا حتی کہ وہ خشک سالی کا شکار ہو گئی تو میرے پاس آئی سو میں نے اسے ایک سو بیس دینار دئیے۔"اور تیسرے نے:"سو میں نے اس کی مزدوری کو بڑھا یا حتی کہ اس سے مال میں بہت اضافہ ہو گیا اور وہ موجیں مارنے لگا:"اور آپ نے فرمایا: وہ غار سے نکل کر چل پڑے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2743