الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ
قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال
4. باب سُؤَالِ الْيَهُودِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ} الآيَةَ:
4. باب: یہودیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق سوال کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو وحی الٰہی کے مطابق جواب۔
حدیث نمبر: 7059
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، " إِذْ مَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَقَالُوا: مَا رَابَكُمْ إِلَيْهِ لَا يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا: سَلُوهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ بَعْضُهُمْ، فَسَأَلَهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ: فَأَسْكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، قَالَ: فَقُمْتُ مَكَانِي فَلَمَّا نَزَلَ الْوَحْيُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85 "،
حفص بن غیاث نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابراہیم نے علقمہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں چلا جارہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک شاخ کا سہارا لے (کر چل) رہے تھے کہ آپ کا یہود کے چند لوگوں کے قریب سے گزر ہوا ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ان سے روح کے بارے میں سوال کرو پھر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کے بارے میں تمھیں شک کس بات کا ہے؟ایسا نہ ہو کہ وہ آگے سے ایسی بات کہہ دیں جو تمھیں بری لگے پھر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوکر آپ کے پاس آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تھوڑی دیر کے لیے) خاموش ہو گئے اور ان کو کوئی جواب نہ دیا۔مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پروحی نازل ہو رہی ہے۔ کہا میں بھی اپنی جگہ پر (رک کر) کھڑا ہو گیا۔جب وحی نازل ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ پڑھتے ہوئے) فرمایا: "یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تم (انسانوں) کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، ایک کھیت میں چل رہا تھا اور آپ نے کھجور کی چھڑی کا سہارا لیا ہوا تھا تو آپ یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے ایک دوسرے سے کہا، ان سے روح کے بارے میں سوال کرو، دوسروں نے کہا:" تمھیں ان سے یہ سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔؟وہ تمھیں ایسا جواب نہ دے دیں، جو تمھیں ناپسندہو، دوسروں نے کہا، ان سے سوال کرو تو ان میں بعض نے آپ کے پاس آکر، آپ سے روح کے بارے میں سوال کیا، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا تو میں جان گیا کہ آپ کی وحی نازل کی جارہی ہے تو اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا، چنانچہ جب وحی اتر چکی، آپ نے فرمایا:"وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرماد یجیے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم بہت ہی کم علم دئیے گئے ہو۔"(اسراء آیت نمبر85۔)
ترقیم فوادعبدالباقی: 2794
حدیث نمبر: 7060
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ، بِنَحْوِ حَدِيثِ حَفْصٍ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ: وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا، وَفِي حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ: وَمَا أُوتُوا مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ خَشْرَمٍ،
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو اشج نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی، نیز ہمیں اسحٰق بن ابراہیم حنظلی اور علی بن خشرم نے بھی حدیث بیان کی دونوں نے کہا: ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبر دی۔ان دونوں (وکیع اور عیسیٰ) نےاعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک (اجزائے ہوئے) کھیت میں جارہاتھا۔حفص کی حدیث کے مانند مکروکیع کی حدیث میں ہے: "وَمَا أُوتِیتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا " "اور تم لوگوں کو علم کا تھوڑا حصہ ہی دیا گیا ہے۔ " (جس طرح قرآن کی مشہور متواتر قرآءت ہے۔ اور عیسیٰ بن یو نس کی اس روایت میں جوان سے (علی) بن خشرم نے بیان کی ہے وما اوتوا"انھیں نہیں دیا گیا "کے الفاظ ہیں۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں، اس میں عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی کھیتی میں چل رہا تھا وکیع کی روایت میں ہے۔ "و اُوتِيتُم مِنَ العِلمِ " اور ابن خشرم کی روایت میں "وَمَا اُوتُوا" ان کو نہیں دیا گیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2794
حدیث نمبر: 7061
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِدْرِيسَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يَرْوِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَخْلٍ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَقَالَ فِي رِوَايَتِهِ: وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا.
ابو سعید اشج نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے عبد اللہ بن ادریس سے سنا وہ کہہ رہے تھے، میں نے اعمش سے سنا وہ اس روایت کو عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مرہ سے اور وہ مسروق سے اور وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں میں (کھجور کی) ایک شاخ کا سہارا لیے ہوئے (چلے جارہے) تھے پھر اعمش سے ان سب کی حدیث کے مطابق بیان کیا اور انھوں نے (بھی) اپنی روایت میں مشہور اور متواتر قرآءت کے مطابق "وَمَا أُوتِیتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا "بیان کیا۔ ان روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرث (کھیت) اور نخل (کھجورکے درختوں) کے درمیان جارہے تھے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں حرث ہے۔ (حدیث 4721۔) جبکہ دوسری روایت میں"خرب" (اجازجگہ) ہے۔ (حدیث: 125) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھیت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جارہے تھے۔مدینہ کے عام کھیتوں کی طرح کھجور کے باغ میں تھا اور اب اس میں کچھ کاشت نہیں ہو رہاتھا اجڑاہوا اور ناہموار ہونے کی وجہ سے آپ اس کے اندرکھجور کی شاخ کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔جامع ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ روح کے متعلق یہودیوں سے پوچھ کر قریش مکہ نے بھی سوال کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی یہی جواب دیا تھا (جمع المومنین حدیث 3140) مدینہ میں جب یہود نے خود سوال کیا تو چونکہ وہ اہل کتاب تھے اس لیے یہ امکان تھا کہ ان کی کتاب میں یہی بات کسی اور رنگ میں کہی گئی ہو اور وہ انداز کے اس اختلاف کو اپنے لیےدلیل بنانے کی کو شش کریں اس لیے جواب دینے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف کیا اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ وہی جواب وحی فرمادیا جو تورات کےعین مطابق تھا اور یہود کو اپنے لیے آپ کی رسالت سے انکار کا کوئی عذر نہ مل سکا۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں کھجور کی چھڑی کا سہارا لیے ہوئےتھے۔آگے مذکورہ بالا روایت ہے، اور اس روایت میں ہے۔"و اُوتِيتُم مِنَ العِلمِ الَا قَلَيلاً"تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2794
حدیث نمبر: 7062
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ وَاللَّفْظُ لِعَبْدِ اللَّهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: " كَانَ لِي عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ لِي: لَنْ أَقْضِيَكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي لَنْ أَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ حَتَّى تَمُوتَ، ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: وَإِنِّي لَمَبْعُوثٌ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ، فَسَوْفَ أَقْضِيكَ إِذَا رَجَعْتُ إِلَى مَالٍ وَوَلَدٍ، قَالَ وَكِيعٌ: كَذَا، قَالَ الْأَعْمَشُ: قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا إِلَى قَوْلِهِ وَيَأْتِينَا فَرْدًا سورة مريم آية 77 - 80 "،
وکیع نے کہا: ہمیں اعمش نے ابو ضحیٰ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت خباب (بن ارت رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا۔میں اس سے قرض کا تقاضا کرنے کے لیے اس کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے کہا: میں اس وقت تک تمھیں ادائیگی نہیں کروں گا۔یہاں تک کہ تم نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کرو۔ کہا: میں نے اس سے کہا: تم مر کردوبارہ زندہ ہو جاؤ گے۔ پھر بھی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر نہیں کروں گا۔ اس نے کہا: اور میں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا؟تو (اس وقت) جب میں دوبارہ مال اور اولاد کے پاس پہنچ جاؤں گاتو تمھیں ادائیگی کردوں گا۔ وکیع نے کہا: اعمش نے اسی طرح کہا: انھوں نے کہا: اس پریہ آیت نازل ہوئی: "کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیات سے کفر کیا اور کہا: مجھے (اپنا) مال اور (اپنی) اولاد ضروری دی جائے گی"سے لے کر اس (اللہ) کے فرمان "اور وہ ہمارے پاس اکیلا آئے گا "تک۔
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا عاص بن وائل کے ذمہ قرض تھا، اس کے پاس اس کا مطالبہ کرنے کے لیے گیا تو اس نے مجھے کہا، میں اس وقت تک ہر گز تیرا قرض ادا نہیں کروں گا، جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کروتو میں نے اسے کہا، میں ہر گز محمد کا انکار نہیں کروں گا، حتی کہ تو مرجائے اور پھر دوبارہ اٹھایا جائے، اس نے کہا، کیا مجھے موت کے بعد اٹھایاجائے گا؟تو اس وقت تیرا قرض چکا دوں گا، جب میں مال اور اولاد کی طرف لوٹ آؤں گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی،کیا آپ نے اس کے بارے میں جانا، جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہتا ہے مجھے مال اور اولاد سے نوازا جائے گا، کیا وہ غیب سے آگا ہو گیا ہے، یا اس نے رحمان سے کوئی عہد کر لیا ہے، ہر گز نہیں جو کچھ وہ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیں گے اور اس کا عذاب بڑھا دیں گے اور جس کی یہ بات کرتا ہے، اس کے وارث تو ہم ہوں گے اور یہ اکیلا ہمارے پاس آئے گا۔"(مریم آیت 77تا 80)
ترقیم فوادعبدالباقی: 2795
حدیث نمبر: 7063
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ وَكِيعٍ، وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ، قَالَ: كُنْتُ قَيْنًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ عَمَلًا فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ.
ابو معاویہ عبد اللہ بن نمیر جریر اور سفیان سب نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ وکیع کی حدیث کی طرح بیان کیا اور جریر کی حدیث میں ہے۔ (حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں زمانہ جاہلیت میں لوہار تھا تو میں نے عاص بن وائل کے لیے کام کیا پھر میں اس سے (اجرت کا) تقاضا کرنے کے لیے آیا۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، جریر رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں ہے۔ میں جاہلیت کے دور میں لوہارتھا تومیں نے عاص بن وائل کے لیے کام کیا(تلوار بنا کردی) تو میں اس کی مزدوری کے مطالبہ کے لیے اس کے پاس آیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2795