الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
128. باب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ
128. باب: زخمی تیمم کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 336
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ خُرَيْقٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَرَجْنَا فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّهُ فِي رَأْسِهِ ثُمَّ احْتَلَمَ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ: هَلْ تَجِدُونَ لِي رُخْصَةً فِي التَّيَمُّمِ؟ فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَكَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ، فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ. فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَقَالَ:" قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا، فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ أَوْ يَعْصِبَ شَكَّ مُوسَى عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے، تو ہم میں سے ایک شخص کو ایک پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا: کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم تمہارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو، چنانچہ اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا (یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے)، پھر اس پر مسح کر لیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 336]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 2413) (حسن)» ‏‏‏‏ ( «‏‏‏‏إنما كان يكفيه» ‏‏‏‏ یہ جملہ ثابت نہیں ہے)

وضاحت: بغیر علم کے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مراجعہ کیا جائے۔ زخم پر پٹی باندھ کر مسح کیا جائے اور اس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضو کیا ہو یا وقت متعین ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله إنما كان يكفيه

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ابن ماجه (572)¤ الزبير بن خريق: وثقه ابن حبان وحده،وضعفه الدارقطني فحديثه ضعيف،وقال أبو داود في حديثه: ’’ ليس بالقوي‘‘ وقال ابن حجر: ’’لين الحديث‘‘ (تقريب: 1994)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 26

حدیث نمبر: 337
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَصَابَ رَجُلًا جُرْحٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ احْتَلَمَ، فَأُمِرَ بِالِاغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَمْ يَكُنْ شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالَ".
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی کو زخم لگا، پھر اسے احتلام ہو گیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا، اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں مارے، کیا لاعلمی کا علاج مسئلہ پوچھ لینا نہیں تھا؟۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 337]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجہ ابن ماجہ موصولاً برقم (572)، (تحفة الأشراف: 5972)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطھارة 69 (779) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: بغیر علم کے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مراجعہ کیا جائے۔ زخم پر پٹی باندھ کر مسح کیا جائے اور اس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضو کیا ہو یا وقت متعین ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ مشكوة المصابيح (532)¤ الأوزاعي سمعه من عطاء وسمعه من رجل عنه وللحديث طرق أخريٰ عند البيھقي (1/226، 227، فيه بشر بن بكر وھو ثقه)