الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
90. باب الرَّجُلِ يُصَلِّي عَاقِصًا شَعْرَهُ
90. باب: آدمی بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 646
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ رَأَى أَبَا رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَام وَهُوَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَدْ غَرَزَ ضَفْرَهُ فِي قَفَاهُ، فَحَلَّهَا أَبُو رَافِعٍ، فَالْتَفَتَ حَسَنٌ إِلَيْهِ مُغْضَبًا، فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ:" أَقْبِلْ عَلَى صَلَاتِكَ وَلَا تَغْضَبْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ذَلِكَ كِفْلُ الشَّيْطَانِ"، يَعْنِي: مَقْعَدَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي: مَغْرَزَ ضَفْرِهِ.
ابوسعید مقبری سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابورافع رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرے، اور حسن اپنے بالوں کا جوڑا گردن کے پیچھے باندھے نماز پڑھ رہے تھے تو ابورافع نے اسے کھول دیا، اس پر حسن غصہ سے ابورافع کی طرف متوجہ ہوئے تو ابورافع نے ان سے کہا: آپ نماز پڑھئیے اور غصہ نہ کیجئے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یہ یعنی بالوں کا جوڑا شیطان کی بیٹھک ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 646]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 170 (384)، (تحفة الأشراف: 12030)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامةالصلاة 167 (1042)، مسند احمد (6/8، 391)، سنن الدارمی/الصلاة 105 (1420) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 647
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ بُكَيْرًا، حَدَّثَهُ أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُصَلِّي وَرَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ، فَقَامَ وَرَاءَهُ فَجَعَلَ يَحُلُّهُ وَأَقَرَّ لَهُ الْآخَرُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَرَأْسِي؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا مَثَلُ الَّذِي يُصَلِّي وَهُوَ مَكْتُوفٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا؟ تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 647]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 44 (492)، سنن النسائی/التطبیق 57 (1115)، (تحفة الأشراف: 6339)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/304)، سنن الدارمی/الصلاة 105 (1421) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: اسی طرح سنن ابوداود حدیث ۶۴۶ میں ہے کہ بالوں کا جوڑا شیطان کی بیٹھک ہے۔ مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں۔ چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدہ کی حالت میں زمین پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں۔ (صحیح بخاری حدیث ۸۱۲، صحیح مسلم حدیث ۴۹۰) جن بزرگوں کے متعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنایا ہوا تھا تو شاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (492)