الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
184. باب التَّشَهُّدِ
184. باب: تشہد (التحیات) کا بیان۔
حدیث نمبر: 968
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كُنَّا إِذَا جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُوا السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، وَلَكِنْ إِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُوَ بِهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں بیٹھتے تو یہ کہتے تھے «السلام على الله قبل عباده السلام على فلان وفلان» یعنی اللہ پر سلام ہو اس کے بندوں پر سلام سے پہلے یا اس کے بندوں کی طرف سے اور فلاں فلاں شخص پر سلام ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا مت کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود سلام ہے، بلکہ جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو یہ کہے «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين» آداب، بندگیاں، صلاتیں اور پاکیزہ خیرات اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر کیونکہ جب تم یہ کہو گے تو ہر نیک بندے کو خواہ آسمان میں ہو یا زمین میں ہو یا دونوں کے بیچ میں ہو اس (دعا کے پڑھنے) کا ثواب پہنچے گا (پھر یہ کہو): «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں پھر تم میں سے جس کو جو دعا زیادہ پسند ہو، وہ اس کے ذریعہ دعا کرے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 968]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 148 (831)، 150 (835)، والعمل فی الصلاة 4 (1202)، والاستئذان 3 (6230)، 28 (6265)، والدعوات 17 (6328) والتوحید 5 (7381)، صحیح مسلم/الصلاة 16 (402)، سنن النسائی/التطبیق 100 (1163، 1161)، والسھو 41 (1278)، 43 (1280)، 56 (1299)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 24 (899)، (تحفة الأشراف: 9245)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 103 (289)، والنکاح 17 (1105)، مسند احمد (1/376، 382، 408، 413، 414، 422، 423، 428، 431، 437، 439، 440، 450، 459، 464)، سنن الدارمی/الصلاة 84 (1379) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: وضاحت: «السلام عليك أيها النبي» بصیغۂ خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کہا جاتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام بصیغۂ غائب کہتے تھے جیسا کہ صحیح سند سے مروی ہے: «أن الصحابة كانوا يقولون والنبي صلی اللہ علیہ وسلم حي: السلام عليك أيها النبي فلما مات قالوا: السلام على النبي» نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب باحیات تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم السلام علیک ایہا النبی کہتے تھے اورجب آپ کی وفات ہو گئی تو «السلام علی النبی» کہنے لگے، اسی معنی کی ایک اور حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے نیز ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں کو «السلام علی النبی» کہنے کی تعلیم دیتی تھیں (مسندالسراج: ۹/۱-۲، والفوائد: ۱۱/۵۴ بسندین صحیحین عنہا)، (ملاحظہ ہو: صفۃ صلاۃ النبی للألبانی ۱۶۱-۱۶۲)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (835) صحيح مسلم (402)

حدیث نمبر: 969
حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ،عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ إِذَا جَلَسْنَا فِي الصَّلَاةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عُلِّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ شَرِيكٌ: وَحَدَّثَنَا جَامِعٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي شَدَّادٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، بِمِثْلِهِ، قَالَ:" وَكَانَ يُعَلِّمُنَا كَلِمَاتٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُعَلِّمُنَاهُنَّ كَمَا يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ: اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ مُثْنِينَ بِهَا قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ جب ہم نماز میں بیٹھیں تو کیا کہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا، پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ شریک کہتے ہیں: ہم سے جامع یعنی ابن شداد نے بیان کیا کہ انہوں نے ابووائل سے اور ابووائل نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل روایت کی ہے اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چند کلمات سکھاتے تھے اور انہیں اس طرح نہیں سکھاتے تھے جیسے تشہد سکھاتے تھے اور وہ یہ ہیں: «اللهم ألف بين قلوبنا وأصلح ذات بيننا واهدنا سبل السلام ونجنا من الظلمات إلى النور وجنبنا الفواحش ما ظهر منها وما بطن وبارك لنا في أسماعنا وأبصارنا وقلوبنا وأزواجنا وذرياتنا وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم واجعلنا شاكرين لنعمتك مثنين بها قابليها وأتمها علينا» اے اللہ! تو ہمارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دے، اور ہماری حالتوں کو درست فرما دے، اور راہ سلامتی کی جانب ہماری رہنمائی کر دے اور ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنی عطا کر دے، آنکھوں، دلوں اور ہماری بیوی بچوں میں برکت عطا کر دے، اور ہماری توبہ قبول فرما لے تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے، اور ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار و ثنا خواں اور اسے قبول کرنے والا بنا دے، اور اے اللہ! ان نعمتوں کو ہمارے اوپر کامل کر دے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 969]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود (ضعیف)» ‏‏‏‏ (شریک کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح ، ومن قوله : قال شريك : ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ أخرجه النسائي (1164 وسنده صحيح)

حدیث نمبر: 970
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي فَحَدَّثَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ" فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ، فَذَكَرَ مِثْلَ دُعَاءِ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، إِذَا قُلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ".
قاسم بن مخیمرہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا (اور انہیں نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ان کو نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے، پھر راوی نے اعمش کی حدیث کی دعا کے مثل ذکر کیا، اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ جب تم نے یہ دعا پڑھ لی یا پوری کر لی تو تمہاری نماز پوری ہو گئی، اگر کھڑے ہونا چاہو تو کھڑے ہو جاؤ اور اگر بیٹھے رہنا چاہو تو بیٹھے رہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 970]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 9474)، وانظر رقم (968)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/422) (شاذ)» ‏‏‏‏ ( «إذا قلت...الخ» کا اضافہ شاذ ہے صحیح بات یہ ہے کہ یہ ٹکڑا ابن مسعود کا اپنا قول ہے)

قال الشيخ الألباني: شاذ بزيادة إذا قلت

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ وأصله عند النسائي (1168) وقوله: ’’إذا قلت ھذا‘‘ مدرج باتفاق الحفاظ، انظر المدرج إلي المدرج للسيوطي (ص20)

حدیث نمبر: 971
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّشَهُّدِ:" التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ". قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: زِدْتَ فِيهَا" وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ". قَالَ ابْنُ عُمَرَ: زِدْتُ فِيهَا" وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تشہد یہ ہے: «التحيات لله الصلوات الطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته» آداب بندگیاں، اور پاکیزہ صلاتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس تشہد میں «وبركاته» اور «وحده لا شريك له» کا اضافہ میں نے کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 971]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، وراجع: موطا امام مالک/الصلاة 13(53)، (تحفة الأشراف: 7396) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تشہد میں یہ دونوں اضافے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی طرف سے ان کا اضافہ خود کر دیا ہو بلکہ آپ نے اپنے اس تشہد میں ان کا اضافہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر کیا ہے جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں روایت کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 972
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، فَلَمَّا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أُقِرَّتِ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ أَبُو مُوسَى أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، قَالَ: فَلَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ أَنْتَ قُلْتَهَا، قَالَ: مَا قُلْتُهَا، وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا قُلْتُهَا، وَمَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَمَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْ؟ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَعَلَّمَنَا، وَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا، وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا، فَقَالَ:"إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُحِبُّكُمُ اللَّهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ. فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، لَمْ يَقُلْ أَحْمَدُ: وَبَرَكَاتُهُ، وَلَا قَالَ: وَأَشْهَدُ، قَالَ: وَأَنَّ مُحَمَّدًا.
حطان بن عبداللہ رقاشی کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ اخیر نماز میں بیٹھنے لگے تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: نماز نیکی اور پاکی کے ساتھ مقرر کی گئی ہے تو جب ابوموسیٰ اشعری نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا (ابھی) تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: تو لوگ خاموش رہے، پھر انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: لوگ پھر خاموش رہے تو ابوموسیٰ اشعری نے کہا: حطان! شاید تم نے یہ بات کہی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نہیں کہی ہے اور میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ مجھے ہی سزا نہ دے ڈالیں۔ راوی کہتے ہیں: پھر ایک دوسرے شخص نے کہا: میں نے کہی ہے اور میری نیت خیر ہی کی تھی، اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ تم اپنی نماز میں کیا کہو؟ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ہم کو سکھایا اور ہمیں ہمارا طریقہ بتایا اور ہمیں ہماری نماز سکھائی اور فرمایا: جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو، تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری امامت کرے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم آمین کہو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا ۱؎ اور جب وہ «الله أكبر» کہے اور رکوع کرے تو تم بھی «الله أكبر» کہو اور رکوع کرو کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کے برابر ہو گیا ۲؎ اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا لك الحمد» کہو، اللہ تمہاری سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی ارشاد فرمایا ہے «سمع الله لمن حمده» یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اور جب تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کے برابر ہو جائے گا، پھر جب تم میں سے کوئی قعدہ میں بیٹھے تو اس کی سب سے پہلی بات یہ کہے: «التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» آداب، بندگیاں، پاکیزہ خیرات، اور صلاۃ و دعائیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ احمد نے اپنی روایت میں: «وبركاته» کا لفظ نہیں کہا ہے اور نہ ہی «أشهد» کہا بلکہ «وأن محمدا» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 972]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 16 (404)، سنن النسائی/الإمامة 38 (831)، والتطبیق 23 (1065)، 101 (1173)، والسھو 44 (1281)، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة 24 (901)، (تحفة الأشراف: 8987)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/401، 405، 409)، سنن الدارمی/الصلاة 71 (1351) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎:مسلم کی روایت میں «يجبكم» ہے یعنی:اللہ تمہاری دعا قبول کر لے گا۔
۲؎: یعنی امام تم سے جتنا پہلے رکوع میں گیا اتنا ہی پہلے وہ رکوع سے اٹھ گیا اس طرح تمہاری اور امام کی نماز برابر ہو گئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (404)

حدیث نمبر: 973
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ،حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي غَلَّابٍ يُحَدِّثُهُ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، زَادَ" فَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَقَالَ فِي التَّشَهُّدِ بَعْدَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ زَادَ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَوْلُهُ فَأَنْصِتُوا لَيْسَ بِمَحْفُوظٍ لَمْ يَجِئْ بِهِ إِلَّا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں (سلیمان تیمی) نے یہ اضافہ کیا ہے کہ جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو، اور انہوں نے تشہد میں «أشهد أن لا إله إلا الله» کے بعد «وحده لا شريك له» کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: آپ کا قول: «فأنصتوا» محفوظ نہیں ہے، اس حدیث کے اندر یہ لفظ صرف سلیمان تیمی نے نقل کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 973]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 8987) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (404)¤ منسوخ بحديث أبي ھريرة، انظر الحديث السابق (821)

حدیث نمبر: 974
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَطَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ، وَكَانَ يَقُولُ:" التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن سکھاتے تھے، آپ کہا کرتے تھے: «التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله» آداب، بندگیاں، پاکیزہ صلاۃ و دعائیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 974]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 16 (403)، سنن الترمذی/الصلاة 104 (290)، سنن النسائی/التطبیق 103 (1175)، والسھو 42 (1279)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 24 (900)، (تحفة الأشراف: 5750)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/292) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (403)

حدیث نمبر: 975
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ،حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَمَّا بَعْدُ" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ أَوْ حِينَ انْقِضَائِهَا فَابْدَءُوا قَبْلَ التَّسْلِيمِ، فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ وَالْمُلْكُ لِلَّهِ، ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى الْيَمِينِ، ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى قَارِئِكُمْ، وَعَلَى أَنْفُسِكُمْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى كُوفِيُّ الْأَصْلِ كَانَ بِدِمَشْقَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: دَلَّتْ هَذِهِ الصَّحِيفَةُ عَلَى أَنَّ الْحَسَنَ سَمِعَ مِنْ سَمُرَةَ.
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے «اما بعد» کے بعد کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم نماز کے بیچ میں یا اخیر میں بیٹھو تو سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھو: «التحيات الطيبات والصلوات والملك لله» پھر دائیں جانب سلام پھیرو، پھر اپنے قاری پر اور خود اپنے اوپر سلام کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ صحیفہ (جسے سمرہ نے اپنے بیٹے کے پاس لکھ کر بھیجا تھا) یہ بتا رہا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے سنا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 975]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4617) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی سلیمان بن موسی ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: اس جملے کا باب سے تعلق یہ ہے کہ یہ الفاظ جنہیں سلیمان بن سمرہ نے اپنے والد سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس صحیفہ کے الفاظ ہیں جنہیں سمرہ نے املا کرایا تھا اور جنہیں ان سے ان کے بیٹے سلیمان نے روایت کیا ہے، ابوداود کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح سلیمان بن سمرہ کا سماع اپنے والد سمرہ سے ثابت ہے اسی طرح حسن بصری کا سماع بھی ثابت ہے کیونکہ یہ دونوں طبقہ ثالثہ کے راوی ہیں تو جب سلیمان اپنے والد سمرہ سے سن سکتے ہیں تو حسن بصری کے سماع کے لئے بھی کوئی چیز مانع نہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے صرف عقیقہ والی حدیث سنی ہے اور باقی حدیثیں جو سمرہ سے وہ روایت کرتے ہیں وہ اسی صحیفہ میں لکھی ہوئی حدیثیں ہیں سمرہ سے ان کی سنی ہوئی نہیں ہیں ابو داود نے اسی خیال کی تردید کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ خبيب بن سليمان مجهول و جعفر بن سعد ضعيف¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 47