عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم نماز میں رہو اور تمہیں تین یا چار میں شک ہو جائے اور تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ چار رکعت ہی پڑھی ہے تو تشہد پڑھو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرو، پھر تشہد پڑھو اور پھر سلام پھیر دو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالواحد نے خصیف سے روایت کیا ہے اور مرفوع نہیں کیا ہے۔ نیز سفیان، شریک اور اسرائیل نے عبدالواحد کی موافقت کی ہے اور ان لوگوں نے متن حدیث میں اختلاف کیا ہے اور اسے مسند نہیں کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1028]
تخریج الحدیث: «ن الکبری / السہو 126 (605)، وانظر رقم: (1019)، (تحفة الأشراف: 9605)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/428، 429 موقوفاً) (ضعیف)» (ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ ابوعبیدہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ أ بو عبيدة عن أبيه : منقطع¤ وخصيف : ضعيف¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 48
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ زیادہ پڑھی ہے یا کم تو بیٹھ کر دو سجدے کر لے ۱؎ پھر اگر اس کے پاس شیطان آئے اور اس سے کہے (یعنی دل میں وسوسہ ڈالے) کہ تو نے حدث کر لیا ہے تو اس سے کہے: تو جھوٹا ہے مگر یہ کہ وہ اپنی ناک سے بو سونگھ لے یا اپنے کان سے آواز سن لے ۲؎“۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1029]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 179 (396)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 129 (1204)، (تحفة الأشراف: 4396)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 19 (571)، سنن النسائی/السہو 24 (1240)، موطا امام مالک/الصلاة 16 (62)، مسند احمد (3/12، 37،50، 51، 53، 54)، دی/الصلاة 174 (1536) (ضعیف)» (ہلال بن عیاض مجہول راوی ہیں، مگر ابوہریرہ کی حدیث (1030) نیز دیگر صحیح احادیث سے اسے تقویت ہو رہی ہے)
وضاحت: ۱؎: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث دونوں مجمل ہیں، انہیں کی دیگر روایات سے یہ ثابت ہے کہ تلاش و تحری کر کے یقینی پہلو پر بنا کرے، یا ہر حال میں کم پر ہی بنا کرے باقی رکعت پوری کر کے سجدہ سہو کرے، خالی سجدہ سہو کافی نہیں ہے، بعض سلف نے کہا ہے: یہ اس کے لئے ہے جس کو ہمیشہ شک ہو جاتا ہے۔ ۲؎: یعنی اسے یقین ہو جائے کہ حدث ہو گیا ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ أخرجه الترمذي (396 وسنده حسن)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اسے شبہے میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو ایسا محسوس ہو تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ابن عیینہ، معمر اور لیث نے روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1030]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 4 (608)، والعمل فی الصلاة 18 (1222)، والسھو 6 (1231)، 7 (1232)، وبدء الخلق 11 (3285)، صحیح مسلم/الصلاة 8 (389)، والمساجد 19 (570)، سنن النسائی/الأذان 30 (671)، (تحفة الأشراف: 15244)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 179 (397)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 135 (1216)، موطا امام مالک/السہو 1(1)، مسند احمد (2/313، 398، 411، 460، 503، 522، 531) وتقدم برقم (516) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1232) صحيح مسلم (389 بعد ح 569)
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ سلام سے پہلے بیٹھے (دو سجدے کرے)۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1031]
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ پھر وہ سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1032]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 135 (1216)، (تحفة الأشراف: 15252) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ أخرجه ابن ماجه (1216) ورواه البيھقي (2/339) قال معاذ علي زئي: وله شاھد حسن لذاته عند أحمد (3/ 72 ح 11689، وسنده حسن) ولفظه: ’’إذا شك أحدكم في صلاته، فلم يدر كم صلي، فليبن علي اليقين، حتي إذا استيقن أن قد أتم، فليسجد سجدتين قبل أن يسلم…‘‘