ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (یار، صادق، محمد) صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، جن کو میں سفر اور حضر کہیں بھی نہیں چھوڑتا: چاشت کی دو رکعتیں، ہر ماہ تین دن کے روزے اور وتر پڑھے بغیر نہ سونے کی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1432]
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ نصیحت اس وجہ سے فرمائی کہ وہ بڑی رات تک حدیثوں کے سننے میں مشغول رہتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ سو جانے کے بعد ان کی وتر قضا نہ ہو جایا کرے، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سو جانے سے پہلے وتر پڑھ لینے کی نصیحت کی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله في سفر ولا حضر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ قتادة عنعن و أبو سعيد الأزدي مجھول الحال¤ و أحاديث البخاري (1178،1981) و مسلم (721) تغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 58
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (محمد) صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، میں انہیں کسی صورت میں نہیں چھوڑتا، ایک تو مجھے ہر ماہ تین دن روزے رکھنے کی وصیت کی دوسرے وتر پڑھے بغیر نہ سونے کی اور تیسرے حضر ہو کہ سفر، چاشت کی نماز پڑھنے کی۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1433]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف:10925)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 13(722)، مسند احمد (6/440، 451) (صحیح)» (مگر «حضر و سفر» کا لفظ صحیح نہیں ہے، اور یہ مسلم میں موجود نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله في الحضر والسفر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ صفوان سمعه من بعض المشيخة عن أبي إدريس كما في مسند أحمد (6/ 440) وحديث مسلم (722) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 58
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”تم وتر کب پڑھتے ہو؟“، انہوں نے عرض کیا: میں اول شب میں وتر پڑھتا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”تم کب پڑھتے ہو؟“، انہوں نے عرض کیا: آخر شب میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا کہ انہوں نے احتیاط پر عمل کیا، اور عمر سے فرمایا کہ انہوں نے مشکل کام اختیار کیا جو طاقت و قوت کا متقاضی ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1434]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:12092) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جس کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ اخیر رات میں جاگ جائے گا اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اخیر رات میں وتر پڑھے، لیکن جسے اخیر رات میں جاگنے پر بھروسہ نہ ہو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ صححه ابن خزيمة (1084 وسنده حسن) وانظر الحديث السابق (1329)