سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک عورت ۱؎ کے پاس گئے، اس کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں، جن سے وہ تسبیح گنتی تھی ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے یا اس سے افضل ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح کہا کرو: «سبحان الله عدد ما خلق في السماء وسبحان الله عدد ما خلق في الأرض وسبحان الله عدد ما خلق بين ذلك وسبحان الله عدد ما هو خالق والله أكبر مثل ذلك والحمد لله مثل ذلك . ولا إله إلا الله مثل ذلك . ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك» ۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1500]
وضاحت: ۱؎: وہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا، یا ام المومنین جویریہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ۲؎: مروجہ تسبیح جس میں سو دانے ہوتے ہیں، اور ان میں ایک امام ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، انگلیوں پر تسبیح مسنون ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث نمبر (۱۵۰۱)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (2311)¤ أخرجه الترمذي (3568 وسنده حسن) خزيمة: حسن الحديث
یسیرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ تکبیر، تقدیس اور تہلیل کا اہتمام کیا کریں اور اس بات کا کہ وہ انگلیوں کے پوروں سے گنا کریں اس لیے کہ انگلیوں سے (قیامت کے روز) سوال کیا جائے گا اور وہ بولیں گی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1501]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 121 (3583)، (تحفة الأشراف:18301)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/370، 371) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «يوم تشهد عليهم ألسنتهم وأيديهم وأرجلهم بما كانوا يعملون»(سورۃ النور 24)” جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے “، تو جس طرح ہاتھ اور پاؤں وغیرہ اعضاء برے اعمال کی گواہی دیں گے اسی طرح اچھے اعمال کی بھی گواہی دیں گے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (2316)¤ أخرجه الترمذي (3583 وسنده حسن)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسبیح گنتے دیکھا (ابن قدامہ کی روایت میں ہے): ”اپنے دائیں ہاتھ پر“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1502]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے نکلے (پہلے ان کا نام برہ تھا ۱؎ آپ نے اسے بدل دیا)، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر آئے تب بھی وہ اپنے مصلیٰ پر تھیں اور جب واپس اندر گئے تب بھی وہ مصلیٰ پر تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم جب سے اپنے اسی مصلیٰ پر بیٹھی ہو؟“، انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہارے پاس سے نکل کر تین مرتبہ چار کلمات کہے ہیں، اگر ان کا وزن ان کلمات سے کیا جائے جو تم نے (اتنی دیر میں) کہے ہیں تو وہ ان پر بھاری ہوں گے: «سبحان الله وبحمده عدد خلقه ورضا نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته»”میں پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی اور اس کی تعریف کرتا ہوں اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اس کی مرضی کے مطابق، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1503]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 19 (2140 و 2726)، (تحفة الأشراف:6358)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/افتتاح 94 (1353)، سنن الترمذی/الدعاء 104(3555)، سنن ابن ماجہ/الأدب 56 (2808)، مسند احمد (1/258، 316، 326، 353) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسی طرح زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی برہ تھا، اس کو بدل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رکھ دیا، اس لئے کہ معلوم نہیں کہ اللہ کے نزدیک کون برہ (نیکوکار) ہے اور کون فاجرہ (بدکار) ہے، انسان کو آپ اپنی تعریف و تقدیس مناسب نہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مال والے تو ثواب لے گئے، وہ نماز پڑھتے ہیں، جس طرح ہم پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم رکھتے ہیں، البتہ ان کے پاس ضرورت سے زیادہ مال ہے، جو وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہمارے پاس مال نہیں ہے کہ ہم صدقہ کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں جنہیں ادا کر کے تم ان لوگوں کے برابر پہنچ سکتے ہو، جو تم پر (ثواب میں) بازی لے گئے ہیں، اور جو (ثواب میں) تمہارے پیچھے ہیں تمہارے برابر نہیں ہو سکتے، سوائے اس شخص کے جو تمہارے جیسا عمل کرے“، انہوں نے کہا: ضرور، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نماز کے بعد (۳۳) بار «الله اكبر»(۳۳) بار «الحمد الله»(۳۳) بار «سبحان الله» کہا کرو، اور آخر میں «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير» پڑھا کرو ”جو ایسا کرے گا) اس کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1504]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:14588)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 26 (595)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 32 (926)، موطا امام مالک/القرآن 7 (22)، سنن الدارمی/الصلاة 90 (1393) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن قوله غفرت له ... مدرج