الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
65. باب الصَّلاَةِ بِجَمْعٍ
65. باب: مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1926
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ جَمِيعًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1926]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 47 (703)، سنن النسائی/ الصلاة 18 (482)، 20 (484، 485)، سنن النسائی/ الصلاة 18 (482)، 20 (484، 485)، المواقیت 49 (607)، والأذان 19 (658)، والحج 207 (3033)، (تحفة الأشراف: 6914)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 96 (1674)، سنن الترمذی/الحج 56 (888)، سنن ابن ماجہ/المناسک 60 (3020)، موطا امام مالک/الحج 65 (196)، مسند احمد (2/ 3، 62، 79، 81) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (703 بعد ح 1287)

حدیث نمبر: 1927
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَقَالَ:" بِإِقَامَةٍ إِقَامَةِ جَمْعٍ بَيْنَهُمَا"، قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ وَكِيعٌ:" صَلَّى كُلَّ صَلَاةٍ بِإِقَامَةٍ".
اس سند سے بھی زہری سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ ایک ہی اقامت سے دونوں کو جمع کیا۔ احمد کہتے ہیں: وکیع نے کہا: ہر نماز الگ الگ اقامت سے پڑھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1927]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ الحج 96 (1673)، سنن النسائی/ الأذان 20 (661)، الحج 207 (3031)، (تحفة الأشراف: 6923)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/56، 157)، دی/ المناسک 52 (1926) (صحیح)» ‏‏‏‏ (ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت والی روایت ہی صحیح ہے، جیسا کہ جابر کی طویل حدیث میں گزرا)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1673)

حدیث نمبر: 1928
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ. ح وحَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الْمَعْنَى، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِإِسْنَادِ ابْنِ حَنْبَلٍ، عَنْ حَمَّادٍ وَمَعْنَاهُ، قَالَ:" بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ لِكُلِّ صَلَاةٍ، وَلَمْ يُنَادِ فِي الْأُولَى وَلَمْ يُسَبِّحْ عَلَى إِثْرِ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا"، قَالَ مَخْلَدٌ:" لَمْ يُنَادِ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا".
اس سند سے بھی زہری سے ابن حنبل کی سند سے انہوں نے حماد سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے: ہر نماز کے لیے ایک الگ اقامت کہی اور پہلی نماز کے لیے اذان نہیں دی اور نہ ان دونوں میں سے کسی کے بعد نفل پڑھی۔ مخلد کہتے ہیں: ان دونوں میں سے کسی نماز کے لیے اذان نہیں دی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1928]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6923) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اذان والا جملہ صحیحین میں نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں جابر کی روایت کے مطابق ایک اذان ثابت ہے، نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث نمبر (1933) میں اذان واقامت کی تصریح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح خ دون قوله لم يناد وهو الصواب

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ انظر الحديث السابق (1927)

حدیث نمبر: 1929
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا وَالْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ مَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ: مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ؟ قَالَ: صَلَّيْتُهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت پڑھی، تو مالک بن حارث نے ان سے کہا: یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دونوں اسی جگہ ایک تکبیر سے پڑھیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1929]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/ الحج 56 (887)، (تحفة الأشراف: 7285)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/18، 33، 78، 152) (صحیح)» ‏‏‏‏ (ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح بزيادة لكل صلاة

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (887)¤ أبو إسحاق مدلس وعنعن¤ والحديث السابق (الأصل: 1927) يغني عنه¤ وانظر الحديث الآتي (الأصل : 1930)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 74

حدیث نمبر: 1930
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَا:" صَلَّيْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِالْمُزْدَلِفَةِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ".
سعید بن جبیر اور عبداللہ بن مالک سے روایت ہے وہ دونوں کہتے ہیں: ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب و عشاء ایک اقامت سے پڑھیں، پھر راوی نے ابن کثیر کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1930]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/ الحج 47 (1288)، سنن الترمذی/ الحج 56 (888)، سنن النسائی/ الحج 207 (3033)، (تحفة الأشراف: 7052)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/280، 2/2، 3، 33، 59، 62، 79، 81) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس میں قاضی شریک بن عبداللہ ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت موجود ہے، اذان اور ہر صلاة میں اقامت کے اثبات کے ساتھ جیسے تفصیل گزری)

قال الشيخ الألباني: صحيح بالزيادة المذكورة آنفا

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1288)

حدیث نمبر: 1931
حَدَّثَنَا ابْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ:" أَفَضْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ، فَلَمَّا بَلَغْنَا جَمْعًا صَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ ثَلَاثًا وَاثْنَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَنَا ابْنُ عُمَرَ: هَكَذَا صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ہم (عرفات سے) ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ لوٹے، جب ہم جمع یعنی مزدلفہ پہنچے تو آپ نے ہمیں مغرب اور عشاء، تین رکعت مغرب کی اور دو رکعت عشاء کی ایک اقامت ۱؎ سے پڑھائی، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہم سے کہا: اسی طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پڑھائی تھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1931]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم (1930)، (تحفة الأشراف: 7052) (صحیح)» ‏‏‏‏ (’’ایک اقامت‘‘ والی روایت شاذ ہے، ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت ثابت ہے)

وضاحت: ۱؎: اس کے برخلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اذان اور دو تکبیر سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح م لكن قوله بإقامة واحدة شاذ إلا أن يزاد لكل صلاة

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1288)

حدیث نمبر: 1932
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ أَقَامَ بِجَمْعٍ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: شَهِدْتُ ابْنَ عُمَرَ صَنَعَ فِي هَذَا الْمَكَانِ مِثْلَ هَذَا، وَقَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا فِي هَذَا الْمَكَانِ".
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں میں نے سعید بن جبیر کو دیکھا انہوں نے مزدلفہ میں اقامت کہی پھر مغرب تین رکعت پڑھی اور عشاء دو رکعت، پھر آپ نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس مقام پر اسی طرح کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام پر اسی طرح کرتے دیکھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1932]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم (1930)، (تحفة الأشراف: 7052) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس میں بھی ایک اقامت شاذ ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح م وفيه الشذوذ المذكور في الذي قبله

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1288)

حدیث نمبر: 1933
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَقْبَلْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ عَرَفَاتٍ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ فَلَمْ يَكُنْ يَفْتُرُ مِنَ التَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُزْدَلِفَةَ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، أَوْ أَمَرَ إِنْسَانًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: الصَّلَاةُ، فَصَلَّى بِنَا الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ دَعَا بِعَشَائِهِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عِلَاجُ بْنُ عَمْرٍو بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: فَقِيلَ لِابْنِ عُمَرَ فِي ذَلِكَ: فَقَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا".
سلیم بن اسود ابوالشعثاء محاربی کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ آیا وہ تکبیر و تہلیل سے تھکتے نہ تھے، جب ہم مزدلفہ آ گئے تو انہوں نے اذان کہی اور اقامت، یا ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اذان اور اقامت کہے، پھر ہمیں مغرب تین رکعت پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: عشاء پڑھ لو چنانچہ ہمیں عشاء دو رکعت پڑھائی پھر کھانا منگوایا۔ اشعث کہتے ہیں: اور مجھے علاج بن عمرو نے میرے والد کی حدیث کے مثل حدیث کی خبر دی ہے جو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح نماز پڑھی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1933]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7091) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس میں دونوں نمازیں کے لئے اذان ثابت و محفوظ ہے، (1928) کی حدیث میں اذان کا انکار ہے، جو شاذ و ضعیف ہے جیسا کہ گزرا، نیز اس روایت میں دوسری اقامت کی جگہ «الصلاة» کا لفظ ہے جو شاذ ہے، محفوظ دوسری مرتبہ اقامت کا لفظ ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح لكن قوله ف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 1934
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ عَبْدَ الْوَاحِدِ بْنَ زَيَادٍ، وَأَبَا عَوَانَةَ، وَأَبَا مُعَاوِيَةَ حَدَّثُوهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا لِوَقْتِهَا، إِلَّا بِجَمْعٍ فَإِنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ وَصَلَّى صَلَاةَ الصُّبْحِ مِنَ الْغَدِ قَبْلَ وَقْتِهَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ وقت پر ہی نماز پڑھتے دیکھا سوائے مزدلفہ کے، مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور دوسرے دن فجر وقت معمول سے کچھ پہلے پڑھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1934]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 99 (1682)، صحیح مسلم/الحج 48 (1289)، سنن النسائی/المواقیت 49 (606)، والحج 207 (3030)، 210 (3041)، (تحفة الأشراف: 9384)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/384، 426، 434) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ترجمہ سے اس حدیث کا صحیح معنی واضح ہو گیا، بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ غلس کے بعد اسفار میں نماز پڑھتے تھے صرف اس دن غلس میں پڑھی، لیکن دیگر صحیح روایات کی روشنی میں اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ: غلس ہی میں فوراً پڑھ لی، عام حالات کی طرح تھوڑا انتظار نہیں کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1682) صحيح مسلم (1289)

حدیث نمبر: 1935
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:" فَلَمَّا أَصْبَحَ، يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ: هَذَا قُزَحُ وَهُوَ الْمَوْقِفُ وَ جَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَنَحَرْتُ هَا هُنَا وَ مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مزدلفہ میں) جب آپ نے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی تو آپ قزح میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: یہ قزح ہے اور یہ موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے، اور مزدلفہ پورا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے، میں نے یہاں نحر کیا ہے اور منیٰ پورا نحر کرنے کی جگہ ہے لہٰذا تم اپنے اپنے ٹھکانوں میں نحر کر لو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1935]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الحج 54 (885)، سنن ابن ماجہ/المناسک 55 (3010)، (تحفة الأشراف: 10229) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (885) ابن ماجه (3010)¤ سفيان الثوري عنعن¤ وانظر الحديث السابق : 1922¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 75

حدیث نمبر: 1936
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَقَفْتُ هَا هُنَا بِعَرَفَةَ وَ عَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَوَقَفْتُ هَا هُنَا بِجَمْعٍ وَ جَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَنَحَرْتُ هَا هُنَا وَ مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عرفات میں اس جگہ ٹھہرا ہوں لیکن عرفات پورا جائے وقوف ہے، میں مزدلفہ میں یہاں ٹھہرا ہوں لیکن مزدلفہ پورا جائے وقوف ہے، میں نے یہاں پر نحر کیا اور منیٰ پورا جائے نحر ہے لہٰذا تم اپنے ٹھکانوں میں نحر کرو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1936]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/ الحج 19 (1218)، سنن النسائی/ الحج 51 (2741)، (تحفة الأشراف: 2596)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المناسک 50 (1921) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ رواه مسلم (1218)

حدیث نمبر: 1937
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا عرفات جائے وقوف ہے پورا منیٰ جائے نحر ہے اور پورا مزدلفہ جائے وقوف ہے مکہ کے تمام راستے چلنے کی جگہیں ہیں اور ہر جگہ نحر درست ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1937]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/ المناسک 73 (3048)، (تحفة الأشراف: 2397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/326) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (2596)¤ أخرجه ابن ماجه (3048 وسنده حسن)

حدیث نمبر: 1938
حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ حَتَّى يَرَوْا الشَّمْسَ عَلَى ثَبِيرٍ، فَخَالَفَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگ مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ سورج کو ثبیر ۱؎ پر نہ دیکھ لیتے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے ہی (مزدلفہ سے) چل پڑے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1938]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 100 (1684)، ومناقب الأنصار 26 (3838)، سنن الترمذی/الحج 60 (896)، سنن النسائی/الحج 213 (3050)، سنن ابن ماجہ/المناسک 61 (3022)، (تحفة الأشراف: 10616)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/14، 29، 39، 42، 50، 52)، سنن الدارمی/المناسک 55 (1932) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ثبير: مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3838)