ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرا دیا، تو آپ لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”اللہ نے ہی مکہ سے ہاتھیوں کو روکا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنین کا اقتدار قائم کیا، میرے لیے دن کی صرف ایک گھڑی حلال کی گئی اور پھر اب قیامت تک کے لیے حرام کر دی گئی، نہ وہاں (مکہ) کا درخت کاٹا جائے، نہ اس کا شکار بدکایا جائے، اور نہ وہاں کا لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز) کسی کے لیے حلال ہے، بجز اس کے جو اس کی تشہیر کرے“، اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! سوائے اذخر کے ۱؎(یعنی اس کا کاٹنا درست ہونا چاہیئے) اس لیے کہ وہ ہماری قبروں اور گھروں میں استعمال ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوائے اذخر کے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن مصفٰی نے ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے: تو اہل یمن کے ایک شخص ابوشاہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے لکھ کر دے دیجئیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کو لکھ کر دے دو“، (ولید کہتے ہیں) میں نے اوزاعی سے پوچھا: «اكتبوا لأبي شاه» سے کیا مراد ہے، وہ بولے: یہی خطبہ ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2017]
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی واقعہ مروی ہے اس میں اتنا زائد ہے «لا يختلى خلاها»(اور اس کے پودے نہ کاٹے جائیں)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2018]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے لیے منیٰ میں ایک گھر یا عمارت نہ بنا دیں جو آپ کو دھوپ سے سایہ دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں یہ (منیٰ) اس کی جائے قیام ہے جو یہاں پہلے پہنچ جائے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2019]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 51 (881)، سنن ابن ماجہ/المناسک 52 (3006)، (تحفة الأشراف: 17963)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/187، 206)، سنن الدارمی/المناسک 87 (1980) (ضعیف)» (یوسف کی والدہ مسیکہ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی منیٰ کا میدان وقف ہے حاجیوں کے لئے وہ کسی کی خاص ملکیت نہیں ہے اگر کوئی وہاں پہلے پہنچے اور کسی جگہ اتر جائے تو دوسرا اس کو اٹھا نہیں سکتا چونکہ مکان بنانے میں ایک جگہ پر اپنا قبضہ اور حق جما لینا ہے اس لئے آپ نے اس سے منع فرمایا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (2625)¤ أخرجه الترمذي (881 وسنده حسن) وابن ماجه (3006 وسنده حسن) وشك ابن خزيمة (2891) في صحته وحسنه الترمذي وصححه الحاكم (1/466، 467) ووافقه الذهبي، أم يوسف مسيكة وثقھا الترمذي والحاكم والذھبي بتصحيح حديثھا وإبراهيم بن المھاجر بن جابر البجلي وثقه الجمھور وھو حسن الحديث فالسند حسن
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرم میں غلہ روک کر رکھنا اس میں الحاد (کج روی) ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2020]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11848) (ضعیف)» (اس کے رواة جعفر، عمارة اور موسی سب ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ موسي بن باذان مجهول(تق : 6949)¤ وجعفر بن يحيي:مقبول(أي مجهول الحال)¤ وعمارة بن ثوبان مستور (تقريب التهذيب: 962،4839)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 77