الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
1. باب التَّحْرِيضِ عَلَى النِّكَاحِ
1. باب: نکاح کی ترغیب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2046
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: إِنِّي لَأَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِمِنًى، إِذْ لَقِيَهُ عُثْمَانُ فَاسْتَخْلَاهُ، فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنْ لَيْسَتْ لَهُ حَاجَةٌ، قَالَ لِي: تَعَالَ يَا عَلْقَمَةُ، فَجِئْتُ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: أَلَا نُزَوِّجُكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِجَارِيَةٍ بِكْرٍ، لَعَلَّهُ يَرْجِعُ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ مَا كُنْتَ تَعْهَدُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَئِنْ قُلْتَ ذَاكَ، لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ".
علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں چل رہا تھا کہ اچانک ان کی ملاقات عثمان رضی اللہ عنہ سے ہو گئی تو وہ ان کو لے کر خلوت میں گئے، جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ انہیں (شادی کی) ضرورت نہیں ہے تو مجھ سے کہا: علقمہ! آ جاؤ ۱؎ تو میں گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ ۲؎ نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا ہم آپ کی شادی ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں، شاید آپ کی دیرینہ طاقت و نشاط واپس آ جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو میں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سن چکا ہوں کہ تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہیئے کیونکہ یہ نگاہ کو خوب پست رکھنے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی چیز ہے اور جو تم میں سے اس کے اخراجات کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر روزہ ہے، یہ اس کی شہوت کے لیے توڑ ہو گا ۳؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2046]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 10 (1905)، النکاح 2 (5065)، 3 (5066)، صحیح مسلم/النکاح 1 (1400)، سنن الترمذی/النکاح 1 (1081تعلیقًا)، سنن النسائی/الصیام 43 (2241)، والنکاح 3 (3209)، سنن ابن ماجہ/النکاح 1 (1845)، (تحفة الأشراف: 9417)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/378، 424، 425، 432، 447)، سنن الدارمی/النکاح 2 (2212) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ اب خلوت کی ضرورت نہیں رہ گئی۔
۲؎: ہو سکتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ سے وہ گفتگو بیان کی ہو جو عثمان نے خلوت میں ان سے کی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے علقمہ رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد اپنی بات پوری کرتے ہوئے علقمہ کی موجودگی میں اسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا ہو۔
۳؎: آدمی جب نان و نفقہ کی طاقت رکھے تو اس کے لئے نکاح کرنا مسنون ہے، اور بعض کے نزدیک اگر گناہ میں پڑ جانے کا خطرہ ہو تو واجب یا فرض ہے، اس کے فوائد یہ ہیں کہ اس سے افزائش نسل کے علاوہ شہوانی جذبات کو تسکین ملتی ہے، اور زنا فسق و فجور سے آدمی کی حفاظت ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1905) صحيح مسلم (1400)