عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر حیض آ جائے، پھر پاک ہو جائے، پھر اس کے بعد اگر چاہے تو رکھے، ورنہ چھونے سے پہلے طلاق دیدے، یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے سلسلے میں حکم دیا ہے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2179]
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق سنت کے خلاف ہے، سنت یہ ہے کہ اس طہر میں طلاق دی جائے جس میں ہمبستری نہ کی ہو تاکہ وہ طہر (یا حیض) عدت کے شمار کئے جا سکیں، حیض سمیت تین طہر گزر جائیں تو اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5251) صحيح مسلم (1471)
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی ایک عورت کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی، آگے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2180]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے پھر جب وہ پاک ہو جائے یا حاملہ ہو تو اسے طلاق دے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2181]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے پھر فرمایا: ”اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کر لے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو جائے پھر چاہیئے کہ وہ پاکی کی حالت میں اسے چھوئے بغیر طلاق دے، یہی عدت کا طلاق ہے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2182]
ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی؟ تو انہوں نے کہا: ایک۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2183]
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا، میں نے کہا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے (تو اس کا کیا حکم ہے؟) کہنے لگے کہ تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے اور عدت کے آغاز میں اسے طلاق دے“۔ میں نے پوچھا: کیا اس طلاق کا شمار ہو گا؟ انہوں نے کہا: تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہو جائے یا دیوانہ ہو جائے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2184]
وضاحت: ۱؎: یعنی جب رجعت سے عاجز ہو جانے یا دیوانہ ہو جانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا «مره فليراجعها» کہنا بے معنی ہو گا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوگی ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہو گی، کیونکہ ابوداود کی اگلی حدیث کے الفاظ ہیں «ولم يرها شيئا» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5333) صحيح مسلم (1471)
ابن جریج کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالزبیر نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عروہ کے غلام عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھتے سنا اور وہ سن رہے تھے کہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اور کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے، عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مجھ پر لوٹا دیا اور اس طلاق کو شمار نہیں کیا اور فرمایا: ”جب وہ پاک ہو جائے تو وہ طلاق دے یا اسے روک لے“، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن»”اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو تم انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو“(سورۃ الطلاق: ۱)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یونس بن جبیر، انس بن سیرین، سعید بن جبیر، زید بن اسلم، ابوالزبیر اور منصور نے ابووائل کے طریق سے روایت کیا ہے، سب کا مفہوم یہی ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے پھر اگر چاہیں تو طلاق دیدیں اور چاہیں تو باقی رکھیں“۔ اسی طرح اسے محمد بن عبدالرحمٰن نے سالم سے، اور سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے البتہ زہری کی جو روایت سالم اور نافع کے طریق سے ابن عمر سے مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے اور پھر پاک ہو، پھر اگر چاہیں تو طلاق دیں اور اگر چاہیں تو رکھے رہیں، اور عطاء خراسانی سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے حسن سے انہوں نے ابن عمر سے نافع اور زہری کی طرح روایت کی ہے، اور یہ تمام حدیثیں ابوالزبیر کی بیان کردہ روایت کے مخالف ہیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2185]