الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
16. باب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لاِمْرَأَتِهِ يَا أُخْتِي
16. باب: آدمی اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکارے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2210
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، وَخَالِدٌ الطَّحَّانُ الْمَعْنَى، كُلُّهُمْ عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخَيَّةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُخْتُكَ هِيَ"، فَكَرِهَ ذَلِكَ وَنَهَى عَنْهُ.
ابوتمیمہ ہجیمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ تیری بہن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا اور اس سے منع کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2210]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15599، 18846) (اس کے راوی ابوتمیمة تابعی ہیں اس لئے مرسل ہے) (ضعیف)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اگرچہ اس کے کہنے سے وہ اس کی بہن نہیں ہو جائے گی مگر نامناسب بات زبان سے نکالنی مناسب نہیں، گو وہ اس کی دینی بہن ہو یا رشتہ میں بھی بہن کے مرتبہ کی ہو جیسے چچا یا پھوپھی یا خالہ کی بیٹی۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ السند مرسل : أبو تميمة الھجيمي طريف بن مجالد : تابعي من الطبقة الثالثة¤ انظر التقريب(3014)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 83

حدیث نمبر: 2211
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخَيَّةُ، فَنَهَاهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو تمیمہ سے روایت ہے، وہ اپنی قوم کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالعزیز بن مختار نے خالد سے خالد نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے ابو تمیمہ سے اور ابوتمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے، نیز اسے شعبہ نے خالد سے خالد نے ایک شخص سے اس نے ابو تمیمہ سے اور ابو تمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2211]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15599، 18846) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کر دیا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ خالد سمعه من رجل عن أبي تميمة به والرجل: مجهول¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 83

حدیث نمبر: 2212
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلَّا ثَلَاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى، قَوْلُهُ: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89، وَقَوْلُهُ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا، قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ" وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو بلوایا اور عورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: یہ تو میری بہن ہے، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا، اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابوالزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2212]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14539)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 8 (3357)، والنکاح 12(5012)، صحیح مسلم/الفضائل 41 (2371)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الأنبیاء (3165)، مسند احمد (2/403) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔
۲؎: یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: بڑے بت نے توڑا ، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ رواه البخاري (5084، 2217) ومسلم (2371)