عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: ”کیا تم نے شعبان کے کچھ روزے رکھے ہیں ۱؎؟“، جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب (رمضان کے) روزے رکھ چکو تو ایک روزہ اور رکھ لیا کرو“، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے: ”دو روزے رکھ لیا کرو“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2328]
وضاحت: ۱؎: مؤلف کے سوا ہر ایک کے یہاں «شهر»(مہینہ) کی بجائے «سرر»(آخر ماہ) کا لفظ ہے، بلکہ خود مؤلف کے بعض نسخوں میں بھی یہی لفظ ہے، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: ” اس آدمی کی عادت تھی کہ ہر مہینہ کے اخیر میں روزہ رکھا کرتا تھا، مگر رمضان سے ایک دو دن برائے استقبال رمضان روزہ کی ممانعت “ سن کر اس نے اپنے معمول والا یہ روزہ نہیں رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے ایسا فرمایا، یعنی: رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کا اگر کسی کا معمول ہو تو وہ رکھ سکتا ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معمول کی عبادت اگر کسی سبب سے چھوٹ جائے تو اس کی قضا کر لینی چاہئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1983) صحيح مسلم (1161)
ابوازہر مغیرہ بن فروہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیر مسحل پر (جو کہ حمص کے دروازے پر واقع ہے)، کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا: لوگو! ہم نے چاند فلاں فلاں دن دیکھ لیا ہے اور میں سب سے پہلے روزہ رکھ رہا ہوں، جو شخص روزہ رکھنا چاہے رکھ لے، مالک بن ہبیرہ سبئی نے کھڑے ہو کر ان سے کہا: معاویہ! یہ بات آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر کہی ہے، یا آپ کی اپنی رائے ہے؟ جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”رمضان کے مہینے کے روزے رکھو اور آخر شعبان کے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2329]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11444) (ضعيف)» (اس کے راوی مغیرہ بن فروہ لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ الوليد بن مسلم صرح بالسماع المسلسل عند الطبراني في معجم الكبير (19/384 ح 901) ومسند الشاميين (1/451 ح 795)
سلیمان بن عبدالرحمٰن نے اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ ولید کہتے ہیں: میں نے ابوعمرو یعنی اوزاعی کو کہتے سنا ہے کہ «سرہ» کے معنی اوائل ماہ کے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2330]
ابومسہر کہتے ہیں سعید یعنی ابن عبدالعزیز کہتے ہیں «سره» کے معنی «أوله» کے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «سره» کے معنی کچھ لوگ «وسطه» کے بتاتے ہیں اور کچھ لوگ «آخره» کے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2331]