الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
131. باب فِي فِدَاءِ الأَسِيرِ بِالْمَالِ
131. باب: قیدی کو مال لے کر رہا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2690
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ فَأَخَذَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِدَاءَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ سورة الأنفال آية 67 ـ 68 مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أَحَلَّ لَهُمُ اللَّهُ الْغَنَائِمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُسْأَلُ عَنِ اسْمِ أَبِي نُوحٍ فَقَالَ: إِيشْ تَصْنَعُ بِاسْمِهِ اسْمُهُ اسْمٌ شَنِيعٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: اسْمُ أَبِي نُوحٍ قُرَادٌ، وَالصَّحِيحُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب غزوہ بدر ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» سے «مسكم فيما أخذتم» تک نبی کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان (کافروں کا) اچھی طرح خون نہ بہا لیں، تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے سبب سے تمہیں بڑی سزا پہنچتی (سورۃ الأنفال: ۶۷-۶۸) پھر اللہ نے ان کے لیے غنائم کو حلال کر دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2690]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجھاد 18 (1763)، سنن الترمذی/التفسیر 9 (3081)، (تحفة الأشراف: 10496)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/30، 32) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1763)

حدیث نمبر: 2691
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ الْعَيْشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي العنبسْ عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ فِدَاءَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعَ مِائَةٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن جاہلیت کے لوگوں کا فدیہ فی آدمی چار سو مقرر کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2691]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5382) (صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن چار سو کی بات صحیح نہیں ہے، بلکہ ابن عباس ہی سے دوسری بہتر سند سے چار ہزار مروی ہے، اس سند میں ابوالعنبس لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون الأربعمائة

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ أبو العنبس حسن الحديث

حدیث نمبر: 2692
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً وَقَالَ:" إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ عَلَيْهِ أَوْ وَعَدَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ:" كُونَا بِبَطْنِ يَأْجَجَ حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے تو اس وقت زینب رضی اللہ عنہا نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ ۱؎ کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں اپنا ایک ہار بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا، انہوں نے یہ ہار زینب کو ابوالعاص سے نکاح کے موقع پر رخصتی کے وقت دیا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر سخت رقت طاری ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو، لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑتے وقت یہ عہد لے لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو میرے پاس آنے سے نہ روکیں گے، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار میں سے ایک شخص کو بھیجا، اور فرمایا: تم دونوں بطن یأجج میں رہنا یہاں تک کہ زینب تم دونوں کے پاس سے گزریں تو ان کو ساتھ لے کر آنا ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2692]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/276) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: زینب رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحب زادی تھیں، اور ابو العاص رضی اللہ عنہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے اور زینب کے شوہر تھے۔
۲؎: شاید یہ نامحرم کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہو، زینب رضی اللہ عنہا کے مدینہ آجانے کے بعد ابو العاص رضی اللہ عنہ کفر کی حالت میں مکہ ہی میں مقیم رہے، پھر تجارت کے لئے شام گئے، وہاں سے لوٹتے وقت انھیں اسلام پیش کیا گیا، تو وہ مکہ واپس گئے اور وہ مال جس جس کا تھا اس کو واپس کیا اور سب کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے، پھر ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور مسلمان ہو جانے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کو ان کی زوجیت میں لوٹا دیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ مشكوة المصابيح (3970)¤ محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند أحمد (6/276) وھو في السيرة لابن ھشام (ص653 بتحقيقي)

حدیث نمبر: 2693
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: وَذَكَرَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ، فَقَالُوا: نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ جَاءُوا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ: النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ"، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ فَأَخْبَرُوهُمْ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے ذکر کیا کہ انہیں مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد ہوازن مسلمان ہو کر آیا اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے مال انہیں واپس لوٹا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میرے ساتھ جو ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو، اور میرے نزدیک سب سے عمدہ بات سچی بات ہے تم یا تو قیدیوں (کی واپسی) اختیار کر لو یا مال، انہوں نے کہا: ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کریں گے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اس کے بعد فرمایا: تمہارے یہ بھائی (شرک سے) توبہ کر کے آئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدیوں کو واپس لوٹا دوں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اپنی خوشی سے واپس لوٹا سکتا ہو تو وہ واپس لوٹا دے، اور جو شخص اپنا حصہ لینے پر مصر ہے تو پہلا مال غنیمت جو اللہ ہم کو دے ہم اس میں سے اس کا عوض دیں تو وہ ایسا ہی کر لے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے انہیں بخوشی واپس لوٹا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی، اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم واپس جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار معاملہ کی تفصیل ہمارے پاس لے کر آئیں، لوگ لوٹ گئے، اور ان سے ان کے سرداروں نے بات کی تو انہوں نے اپنے سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے خوشی خوشی اجازت دی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2693]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوکالة 7 (2307)، العتق 13 (2540)، الھبة 10 (2583)، المغازي 54 (4318)، (تحفة الأشراف: 11251)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/326) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2307، 2308)

حدیث نمبر: 2694
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ مَسَكَ بِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَإِنَّ لَهُ بِهِ عَلَيْنَا سِتَّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا، ثُمَّ دَنَا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعِيرٍ فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْءِ شَيْءٌ وَلَا هَذَا، وَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ إِلَّا الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ فَأَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمِخْيَطَ. فَقَامَ رَجُلٌ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ: أَخَذْتُ هَذِهِ لِأُصْلِحَ بِهَا بَرْذَعَةً لِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا مَا كَانَ لِي وَ لِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ، فَقَالَ: أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلَا أَرَبَ لِي فِيهَا وَنَبَذَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا: لوگو! میرے لیے اس مال غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا: یہاں تک کہ یہ (بال) بھی حلال نہیں سوائے خمس (پانچواں حصہ) کے، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کر دو (یعنی بیت المال میں جمع کر دو)، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، اس نے کہا: میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لیے ہے، تو اس نے کہا: جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس نے اسے (غنیمت کے مال میں) پھینک دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2694]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الھبة 1 (3690)، (تحفة الأشراف: 8782)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/184، 218) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غنیمت کے مال میں سے چوری کرنا گناہ عظیم ہے، جو کچھ ملے سب امام کے پاس جمع کر دیا جائے پھر وہ تقسیم کرے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ مشكوة المصابيح (4025)¤ أخرجه النسائي (3718 وسنده حسن) وھو في السيرة لابن ھشام (203بتحقيقي) محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند ابن الجارود (1080) وغيره