الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
5. باب فِي الْعِرَافَةِ
5. باب: عرافت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2933
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ،عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ عَلَى مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ:" لَهُ أَفْلَحْتَ يَا قُدَيْمُ إِنْ مُتَّ وَلَمْ تَكُنْ أَمِيرًا وَلَا كَاتِبًا وَلَا عَرِيفًا".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا: قدیم! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مر گئے تو تم نے نجات پا لی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2933]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11566)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/133) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی صالح بن یحییٰ بن مقدام ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: عریف: اپنے ساتھیوں کا تعارف کرانے والا، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا، نقیب، یہ حاکم سے کم مرتبے کا ہوتا ہے، اور اپنی قوم کے ہر ایک شخص کا رویہ اور چال چلن حاکم سے بیان کرتا ہے اور اسے برے بھلے کی خبر دیتا ہے۔
۲؎: اس لئے کہ ہر سرکاری کام میں مواخذہ اور تقصیر خدمت کا ڈر لگا رہتا ہے اسی وجہ سے سلف نے زراعت اور تجارت کو نوکری سے بہتر جانا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ صالح بن يحيي لين و أبوه مستور (تق : 2894،7653)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 106

حدیث نمبر: 2934
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا عَلَى مَنْهَلٍ مِنَ الْمَنَاهِلِ، فَلَمَّا بَلَغَهُمُ الإِسْلَامُ جَعَلَ صَاحِبُ الْمَاءِ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ، وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، فَأَرْسَلَ ابْنَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: ائْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَإِنَّهُ جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَإِنْ قَالَ لَكَ: نَعَمْ أَوْ لَا، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، فَقَالَ:" وَعَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا وَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَقَالَ: إِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُسْلِمَهَا لَهُمْ فَلْيُسْلِمْهَا، وَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مِنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَسْلَمُوا فَلَهُمْ إِسْلَامُهُمْ وَإِنْ لَمْ يُسْلِمُوا قُوتِلُوا عَلَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَقَالَ: إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ وَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ الْعُرَفَاءِ، وَلَكِنَّ الْعُرَفَاءَ فِي النَّارِ".
غالب قطان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عرب کے ایک چشمے پر رہتے تھے جب ان کے پاس اسلام پہنچا تو چشمے والے نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا، چنانچہ وہ سب مسلمان ہو گئے تو اس نے اونٹوں کو ان میں تقسیم کر دیا، اس کے بعد اس نے اپنے اونٹوں کو ان سے واپس لے لینا چاہا تو اپنے بیٹے کو بلا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور اس سے کہا: تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ میرے والد نے آپ کو سلام پیش کیا ہے، اور میرے والد نے اپنی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا چنانچہ وہ اسلام لے آئے اور والد نے ان میں اونٹ تقسیم بھی کر دیئے، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اونٹ واپس لے لیں تو کیا وہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں؟ اب اگر آپ ہاں فرمائیں یا نہیں فرمائیں تو فرما دیجئیے میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اس چشمے کے وہ عریف ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ مجھے وہاں کا عریف بنا دیں، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا کہ میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر اور تمہارے والد پر سلام ہو۔ پھر انہوں نے کہا: میرے والد نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں، تو وہ انہیں سو اونٹ دیں گے چنانچہ وہ سب اسلام لے آئے اور اچھے مسلمان ہو گئے، اب میرے والد چاہتے ہیں کہ ان اونٹوں کو ان سے واپس لے لیں تو کیا میرے والد ان اونٹوں کا حق رکھتے ہیں یا وہی لوگ حقدار ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے والد چاہیں کہ ان اونٹوں کو ان لوگوں کو دے دیں تو دے دیں اور اگر چاہیں کہ واپس لے لیں تو وہ ان کے ان سے زیادہ حقدار ہیں اور جو مسلمان ہوئے تو اپنے اسلام کا فائدہ آپ اٹھائیں گے اور اگر مسلمان نہ ہوں گے تو مسلمان نہ ہونے کے سبب قتل کئے جائیں گے (یعنی اسلام سے پھر جانے کے باعث)۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اور اس چشمے کے عریف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد عرافت کا عہدہ مجھے دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرافت تو ضروری (حق) ہے، اور لوگوں کو عرفاء کے بغیر چارہ نہیں لیکن (یہ جان لو) کہ عرفاء جہنم میں جائیں گے (کیونکہ ڈر ہے کہ اسے انصاف سے انجام نہیں دیں گے اور لوگوں کی حق تلفی کریں گے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2934]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15712)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/316) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں کئی مجہول ومبہم راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ فيه غير واحد من المجهولين¤ انظر عون المعبود(93/3)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 106