الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
19. باب فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الأَمْوَالِ
19. باب: مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 2963
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ فَجِئْتُهُ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رِمَالِهِ، فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ: يَا مَالِ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْءٍ فَأَقْسِمْ فِيهِمْ، قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِكَ فَقَالَ: خُذْهُ فَجَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا يَعْنِي عَلِيًّا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْمهُمَا، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِكَ النَّفَرَ لِذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ: اتَّئِدَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، فَقَالَا: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6، وَكَانَ اللَّهُ أَفَاءَ عَلَى رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً وَيَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ فَقَالَ:" أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَىأَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ". وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ. فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَوَلِيتُهَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ فَسَأَلْتُمَانِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلِيهَا فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَى ذَلِك، ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِنَّمَا سَأَلَاهُ أَنْ يَكُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ لَا أَنَّهُمَا جَهِلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ" فَإِنَّهُمَا كَانَا لَا يَطْلُبَانِ إِلَّا الصَّوَابَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ أَدَعُهُ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلوا بھیجا، چنانچہ میں آیا تو انہیں ایک تخت پر جس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں تھی بیٹھا ہوا پایا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے: مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور میں نے انہیں کچھ دینے کے لیے حکم دیا ہے تو تم ان میں تقسیم کر دو، میں نے کہا: اگر اس کام کے لیے آپ کسی اور کو کہتے (تو اچھا رہتا) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں تم (جو میں دے رہا ہوں) لے لو (اور ان میں تقسیم کر دو) اسی دوران یرفاء ۱؎ آ گیا، اس نے کہا: امیر المؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہوئے ہیں اور ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں بلا لوں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں (بلا لو) اس نے انہیں اجازت دی، وہ لوگ اندر آ گئے، جب وہ اندر آ گئے، تو یرفا پھر آیا، اور آ کر کہنے لگا: امیر المؤمنین! ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں؛ اگر حکم ہو تو آنے دوں؟ کہا: ہاں (آنے دو) اس نے انہیں بھی اجازت دے دی، چنانچہ وہ بھی اندر آ گئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! میرے اور ان کے (یعنی علی رضی اللہ عنہ کے) درمیان (معاملے کا) فیصلہ کر دیجئیے، (تاکہ جھگڑا ختم ہو) ۲؎ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں امیر المؤمنین! ان دونوں کا فیصلہ کر دیجئیے اور انہیں راحت پہنچائیے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ ان دونوں ہی نے ان لوگوں (عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم) کو اپنے سے پہلے اسی مقصد سے بھیجا تھا (کہ وہ لوگ اس قضیہ کا فیصلہ کرانے میں مدد دیں)۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ان پر رحم کرے! تم دونوں صبر و سکون سے بیٹھو (میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں) پھر ان موجود صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر مرتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟، سبھوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔ پھر وہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے کہا: میں تم دونوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین، و آسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہمارا (گروہ انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟، ان دونوں نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی خصوصیت سے سرفراز فرمایا تھا جس سے دنیا کے کسی انسان کو بھی سرفراز نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب ولكن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شىء قدير» اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ الحشر: ۶) چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو بنو نضیر کا مال دلایا، لیکن قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمہیں محروم کر کے صرف اپنے لیے نہیں رکھ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال سے صرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کا سال بھر کا خرچہ نکال لیتے تھے، اور جو باقی بچتا وہ دوسرے مالوں کی طرح رہتا (یعنی مستحقین اور ضرورت مندوں میں خرچ ہوتا)۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم اس بات کو جانتے ہو (یعنی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے) انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں اس اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں (یعنی ایسا ہی ہے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں، پھر تم اور یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تم اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کی میراث مانگ رہے ہیں جو انہیں ان کے باپ کے ترکہ سے ملنے والا تھا، پھر ابوبکر (اللہ ان پر رحم کرے) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سچے نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مال پر قابض رہے، جب انہوں نے وفات پائی تو میں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں، اور اس وقت تک والی ہوں جب تک اللہ چاہے۔ پھر تم اور یہ (علی) آئے تم دونوں ایک ہی تھے، تمہارا معاملہ بھی ایک ہی تھا تم دونوں نے اسے مجھ سے طلب کیا تو میں نے کہا تھا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے تم دونوں کو اس شرط پر دے دوں کہ اللہ کا عہد کر کے کہو اس مال میں اسی طرح کام کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متولی رہتے ہوئے کرتے تھے، چنانچہ اسی شرط پر وہ مال تم نے مجھ سے لے لیا۔ اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ اس کے سوا دوسرے طریقہ پر میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں ۳؎ تو قسم اللہ کی! میں قیامت تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر تم دونوں ان مالوں کا (معاہدہ کے مطابق) اہتمام نہیں کر سکتے تو پھر اسے مجھے لوٹا دو (میں اپنی تولیت میں لے کر پہلے کی طرح اہتمام کروں گا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان دونوں حضرات نے اس بات کی درخواست کی تھی کہ یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کر دیا جائے، ایسا نہیں کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا نورث ما تركنا صدقة» ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے معلوم نہیں تھا بلکہ وہ بھی حق ہی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس پر تقسیم کا نام نہ آنے دوں گا (کیونکہ ممکن ہے بعد والے میراث سمجھ لیں) بلکہ میں اسے پہلی ہی حالت پر باقی رہنے دوں گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2963]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجھاد 80 (2904)، فرض الخمس 1 (3094)، المغازي 14 (4033)، تفسیرالقرآن 3 (4880)، النفقات 3 (5358)، الفرائض 3 (6728)، الاعتصام 5 (7305)، صحیح مسلم/الجھاد 5 (1757)، سنن الترمذی/السیر 44 (1610)، الجھاد 39 (1719)، (تحفة الأشراف: 10632، 10633)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/25) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یرفأ عمر رضی اللہ عنہ کے دربان کا نام تھا، وہ ان کا غلام تھا۔
۲؎: معاملہ تھا بنو نضیر کے فِدَک اور خیبر کے اموال کی وراثت کا جوا للہ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا۔
۳؎: یعنی اس مال کو تم دونوں میں تقسیم کر دوں اور وہ تم میں سے ہر ایک کے ملک میں ہو جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7305) صحيح مسلم (1757)

حدیث نمبر: 2964
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَهُمَا يَعْنِي عَلِيًّا، وَالْعَبَّاسَ رضي الله عنهما يختصمان فيما أفاء الله على رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَرَادَ أَنْ لَا يُوقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ قَسْمٍ.
اس سند سے بھی مالک بن اوس سے یہی قصہ مروی ہے اس میں ہے: اور وہ دونوں (یعنی علی اور عباس رضی اللہ عنہما) اس مال کے سلسلہ میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو نضیر کے مالوں میں سے عنایت فرمایا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ (عمر رضی اللہ عنہ) چاہتے تھے کہ اس میں حصہ و تقسیم کا نام نہ آئے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2964]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10632، 10633) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ تقسیم تو ملکیت میں جاری ہوتی ہے اور وہ مال کسی کی ملکیت میں تھا نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ انظر الحديث السابق (2963)

حدیث نمبر: 2965
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، الْمَعْنَى أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ قُوتَ سَنَةٍ فَمَا بَقِيَ جَعَلَ فِي الْكُرَاعِ وَعُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ.
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: «في الكراع والسلاح» کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھوڑے اور ہتھیار کی فراہمی میں خرچ کرتے تھے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2965]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2963)، (تحفة الأشراف: 10631) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2904) صحيح مسلم (1757)

حدیث نمبر: 2966
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، قَالَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ عُمَرُ: هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرَى عُرَيْنَةَ فَدَكَ وَكَذَا وَكَذَا مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ سورة الحشر آية 7، وَلَلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ، قَالَ أَيُّوبُ، أَوْ قَالَ حَظٌّ: إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا اللہ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا، اور تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (سورۃ الحشر: ۶) زہری کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عرینہ کے چند گاؤں جیسے فدک وغیرہ خاص ہوئے، اور دوسری آیتیں «‏‏‏‏ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل» گاؤں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے (سورۃ الحشر: ۷)، اور «للفقراء الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم» (فئی کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئیے گئے ہیں (سورۃ الحشر: ۸)   «والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم» اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے (سورۃ الحشر: ۹) «والذين جاءوا من بعدهم» اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں (سورۃ الحشر: ۱۰) تو اس آیت نے تمام لوگوں کو سمیٹ لیا کوئی ایسا مسلمان باقی نہیں رہا جس کا مال فیٔ میں حق نہ ہو۔ ایوب کہتے ہیں: یا «فيها حق» کے بجائے،، «فيها حظ» کہا، سوائے بعض ان چیزوں کے جن کے تم مالک ہو (یعنی اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2966]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10638) (صحیح)» ‏‏‏‏ (پچھلی اور اگلی روایات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں زہری اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ قال المنذري : ’’ ھٰذا منقطع،الزهري لم يسمع من عمر ‘‘ (عون المعبود 103/3)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107

حدیث نمبر: 2967
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل. ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ كُلُّهُمْ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: كَانَ فِيمَا احْتَجَّ بِهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ صَفَايَا بَنُو النَّضِيرِ وَخَيْبَرُ وَفَدَكُ، فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ فَكَانَتْ حُبُسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ حُبُسًا لِأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ جُزْأَيْنِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَجُزْءًا نَفَقَةً لِأَهْلِهِ فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین «صفایا» ۱؎ (منتخب مال) تھے: بنو نضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنو نضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (ہنگامی) ضروریات کے کام میں استعمال کے لیے محفوظ ہوتا تھا ۲؎، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لیے تھے، اور ایک اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2967]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10635) (حسن الإسناد)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «صفايا»: «صفیہ» کی جمع ہے، «صفیہ» اس مال کو کہتے ہیں جسے امام تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چھانٹ لے، یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا کہ خمس کے ساتھ اور بھی جو چیزیں چاہیں لے لیں۔
۲؎: جیسے مہمانوں کی ضیافت اور مجاہدین کے لئے ہتھیار و سواری کی فراہمی۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ الزهري صرح بالسماع في أصل الحديث ولكنه عنعن في ھٰذا اللفظ وھو مدلس مشھور¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107

حدیث نمبر: 2968
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام مِنْهَا شَيْئًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے (یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے)، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے (بطور وراثت) کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2968]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الخمس 1 (3092)، وفضائل الصحابة 12 (3711)، والمغازي 14 (4035)، 38 (4241)، والفرائض3 (6725)، صحیح مسلم/الجھاد 16 (1759)، سنن النسائی/الفيء (4146)، (تحفة الأشراف: 6630)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/4، 6، 9، 10، 6/145، 262) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4240، 4241) صحيح مسلم (1759)

حدیث نمبر: 2969
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَفَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام حِينَئِذٍ تَطْلُبُ صَدَقَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، وَإِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ يَعْنِي مَالَ اللَّهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وقت (اپنے والد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صدقے کی طلب گار تھیں جو مدینہ اور فدک میں تھا اور جو خیبر کے خمس میں سے بچ رہا تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اس مال میں سے (یعنی اللہ کے مال میں سے) صرف اپنے کھانے کی مقدار لے گی اس مال میں خوراکی کے سوا ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2969]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6630) (صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن  «مال اللہ»  کا لفظ صحیح نہیں اور یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں بھی نہیں ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله يعني مال الله

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3711، 3712)

حدیث نمبر: 2970
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فِيهِ: فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَغَلَبَهُ عَلِيٌّ عَلَيْهَا وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اور کہا: میں کوئی ایسی چیز چھوڑ نہیں سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے رہے ہوں، میں بھی وہی کروں گا، میں ڈرتا ہوں کہ آپ کے کسی حکم کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جاؤں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے مدینہ کے صدقے کو علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی تحویل میں دے دیا، علی رضی اللہ عنہ اس پر غالب اور قابض رہے، رہا خیبر اور فدک تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو روکے رکھا اور کہا کہ یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صدقے ہیں جو آپ کی پیش آمدہ ضروریات اور مشکلات و حوادث، مجاہدین کی تیاری، اسلحہ کی خریداری اور مسافروں کی خبرگیری وغیرہ امور) میں کام آتے تھے ان کا اختیار اس کو رہے گا جو والی (یعنی خلیفہ) ہو۔ راوی کہتے ہیں: تو وہ دونوں آج تک ایسے ہی رہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2970]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2968)، (تحفة الأشراف: 6630) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3092) صحيح مسلم (1759)

حدیث نمبر: 2971
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، فِي قَوْلِهِ: فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، قَالَ: صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ فَدَكَ وَقُرًى قَدْ سَمَّاهَا لَا أَحْفَظُهَا وَهُوَ مُحَاصِرٌ قَوْمًا آخَرِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ بِالصُّلْحِ قَالَ: فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، يَقُولُ: بِغَيْرِ قِتَالٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَتْ بَنُو النَّضِيرِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا لَمْ يَفْتَحُوهَا عَنْوَةً افْتَتَحُوهَا عَلَى صُلْحٍ، فَقَسَمَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ لَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا رَجُلَيْنِ كَانَتْ بِهِمَا حَاجَةٌ.
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ اللہ نے جو فرمایا ہے: «فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» یعنی تم نے ان مالوں کے واسطے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوئے (سورۃ الحشر: ۶) تو ان کا قصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فدک اور کچھ دوسرے گاؤں والوں سے جن کے نام زہری نے تو لیے لیکن راوی کو یاد نہیں رہا صلح کی، اس وقت آپ ایک اور قوم کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، اور ان لوگوں نے آپ کے پاس بطور صلح مال بھیجا تھا، اس مال کے تعلق سے اللہ نے فرمایا: «فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» یعنی بغیر لڑائی کے یہ مال ہاتھ آیا (اور اللہ نے اپنے رسول کو دیا)۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں بنو نضیر کے مال بھی خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے، لوگوں نے اسے زور و زبردستی سے (یعنی لڑائی کر کے) فتح نہیں کیا تھا۔ صلح کے ذریعہ فتح کیا تھا، تو آپ نے اسے مہاجرین میں تقسیم کر دیا، اس میں سے انصار کو کچھ نہ دیا، سوائے دو آدمیوں کے جو ضرورت مند تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2971]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19379) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ السند مرسل،الزهري مدلس¤ وھو من صغار التابعين¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107

حدیث نمبر: 2972
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ عُمَرُ: يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْخِلَافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ.
مغیرہ کہتے ہیں عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فدک تھا، آپ اس کی آمدنی سے (اہل و عیال، فقراء و مساکین پر) خرچ کرتے تھے، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیوہ عورتوں کے نکاح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک مانگا تو آپ نے انہیں دینے سے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرما گئے، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا، عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں: تو میں نے اس معاملے پر غور و فکر کیا، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فاطمہ علیہا السلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا (یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی، اور انتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2972]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19147) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی مغیرة بن مقسم مدلس اور کثیر الارسال ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ السند منقطع ومغيرة بن مقسم مدلس وعنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107

حدیث نمبر: 2973
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَىأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ".
ابوطفیل کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے اپنی میراث مانگنے آئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اللہ عزوجل جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کے قائم مقام (خلیفہ) کو ملتا ہے، (یعنی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2973]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 6599)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/4، 6، 9) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا ہے، دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے نہیں، اس لئے جو مال دولت اس کو اس کی زندگی میں مل جائے، وہ بھی اس کی وفات کے بعد صدقہ ہو گا، تاکہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ اپنے وارثوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف تھا۔ قرآن مجید میں جو زکریا علیہ السلام کا قول منقول ہے «يرثني ويرث من آل يعقوب» (سورۃ مریم: ۶) اور جو یہ فرمایا گیا ہے  «وورث سليمان» (سورۃ النمل: ۱۳) تو اس سے مراد علم اور نبوت کی وراثت ہے، نہ کہ دنیا کے مال کی۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 2974
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: مُؤْنَةُ عَامِلِي يَعْنِي أَكَرَةَ الْأَرْضِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ورثاء میری میراث سے جو میں چھوڑ کر مروں ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں گے، اپنی بیویوں کے نفقے اور اپنے عامل کے خرچے کے بعد جو کچھ میں چھوڑوں وہ صدقہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں:   «مؤنة عاملي» میں «عاملي» سے مراد کاشتکار، زمین جوتنے، بونے والے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2974]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوصایا 32 (3096)، فرض الخمس 3 (2776)، الفرائض 3 (6729)، صحیح مسلم/الجھاد 16 (1760)، (تحفة الأشراف: 13805)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الکلام 12 (28)، مسند احمد (2/376) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3096) صحيح مسلم (1760)

حدیث نمبر: 2975
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، قَالَ: سَمِعْت حَدِيثًا مِن رَجُلٍ فَأَعْجَبَنِي، فَقُلْتُ: اكْتُبْهُ لِي فَأَتَى بِهِ مَكْتُوبًا مُذَبَّرًا، دَخَلَ الْعَبَّاسُ، وَعَلِيٌّ عَلَى عُمَرَ، وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَسَعْدٌ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ عُمَرُ: لِطَلْحَةَ، وَ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعْدٍ: أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ إِلَّا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَكَسَاهُمْ إِنَّا لَا نُورَثُ؟" قَالُوا: بَلَى قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَى أَهْلِهِ وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ سَنَتَيْنِ فَكَانَ يَصْنَعُ الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ.
ابوالبختری کہتے ہیں میں نے ایک شخص سے ایک حدیث سنی وہ مجھے انوکھی سی لگی، میں نے اس سے کہا: ذرا اسے مجھے لکھ کر دو، تو وہ صاف صاف لکھ کر لایا: علی اور عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور ان کے پاس طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی عباس اور علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل پر صرف کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی کرتے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، پھر راوی نے مالک بن اوس کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2975]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3649، 3952) (صحیح)» ‏‏‏‏ (شواہد و متابعات پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جو پتہ نہیں صحابی ہے یاتابعی؟)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ الرجل مجھول وحديث البخاري (7305) ومسلم (1757) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 108

حدیث نمبر: 2976
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو امہات المؤمنین نے ارادہ کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے اپنا آٹھواں حصہ طلب کریں، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سب سے کہا (کیا تمہیں یاد نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2976]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المغازي 14 (4034)، الفرائض 3 (6730)، صحیح مسلم/الجہاد 16 (1758)، موطا امام مالک/ الکلام 12 (27)، (تحفة الأشراف: 16592)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/5، 262) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4034) صحيح مسلم (1758)

حدیث نمبر: 2977
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ،حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ قُلْتُ: أَلَا تَتَّقِينَ اللَّهَ أَلَمْ تَسْمَعْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ"، وَإِنَّمَا هَذَا الْمَالُ لِآلِ مُحَمَّدٍ لِنَائِبَتِهِمْ وَلِضَيْفِهِمْ فَإِذَا مِتُّ فَهُوَ إِلَى مَنْ وَلِيِّ الأَمْرِ مِنْ بَعْدِي.
اس سند سے بھی ابن شہاب زہری سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے (دیگر امہات المؤمنین سے) کہا: تم اللہ سے ڈرتی نہیں، کیا تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، اور یہ مال آل محمد کی ضروریات اور ان کے مہمانوں کے لیے ہے، اور جب میرا انتقال ہو جائے گا تو یہ مال اس شخص کی نگرانی و تحویل میں رہے گا جو میرے بعد معاملہ کا والی ہو گا (مسلمانوں کا خلیفہ ہو گا)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2977]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16407)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الشمائل (402)، مسند احمد (6/145) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ رواه الترمذي في الشمائل (402 بتحقيقي)