الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
1. باب فِي كَسْبِ الْمُعَلِّمِ
1. باب: معلم (مدرس) کو تعلیم کی اجرت لینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3416
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ:" عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَسْأَلَنَّهُ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیتہً دی، میں نے (جی میں) کہا یہ کوئی مال تو ہے نہیں، اس سے میں فی سبیل اللہ تیر اندازی کا کام لوں گا (پھر بھی) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور آپ سے اس بارے میں پوچھوں گا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جن لوگوں کو قرآن پڑھنا لکھنا سکھا رہا تھا، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی ہے، اور اس کی کچھ مالیت تو ہے نہیں، میں اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں پسند ہو کہ تمہیں آگ کا طوق پہنایا جائے تو اس کمان کو قبول کر لو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3416]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/التجارات 8 (2157)، (تحفة الأشراف: 5068)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/315) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی سعود مجہول ہیں اور مغیرہ سے وہم ہو جاتا تھا، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 256، والارواء 1493)

وضاحت: ۱؎:صحیح بخاری میں کتاب اللہ کے سلسلہ میں اجرت لینے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپ نے ایک شخص کا نکاح کیا اور قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا، ان روایات کی روشنی میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ تعلیم قرآن، امامت، قضاء اور اذان وغیرہ کی اجرت لی جا سکتی ہے، کیونکہ مذکورہ تینوں روایات سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کوئی مقابلہ نہیں (کیوں کہ اس کی دونوں سندوں میں متکلم فیہ راوی ہیں)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (2990)¤ أخرجه ابن ماجه (2157 وسنده حسن)¤

حدیث نمبر: 3417
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ عَمْرٌو، حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ، فَقُلْتُ: مَا تَرَى فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا أَوْ تَعَلَّقْتَهَا.
اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3417]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5079) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں بقیہ ہیں جو صدوق کے درجہ کے راوی ہیں، یہاں حرف تحدیث کی صراحت ہے، عنعنہ کی حالت میں تدلیس کا اندیشہ ہوتا ہے، نیز مسند احمد (5؍324) ابو المغیرہ نے متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 256)

وضاحت: ۱؎: جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ انظر الحديث السابق (3416)