الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
21. باب فِي السَّلَفِ
21. باب: بیع سلف (سلم) کا بیان۔
حدیث نمبر: 3463
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنِ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي التَّمْرِ السَّنَةَ وَالسَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ، فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت لوگ پھلوں میں سال سال، دو دو سال، تین تین سال کی بیع سلف کرتے تھے (یعنی مشتری بائع کو قیمت نقد دے دیتا اور بائع سال و دو سال تین سال کی جو بھی مدت متعین ہوتی مقررہ وقت تک پھل دیتا رہتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھجور کی پیشگی قیمت دینے کا معاملہ کرے اسے چاہیئے کہ معاملہ کرتے وقت پیمانہ وزن اور مدت سب کچھ معلوم و متعین کر لے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3463]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/السلم 1 (2239)، 2 (2240)، 7 (2253)، صحیح مسلم/المساقاة 25 (1604)، سنن الترمذی/البیوع 70 (1311)، سنن النسائی/البیوع 61 (4620)، سنن ابن ماجہ/التجارات 59 (2280)، (تحفة الأشراف: 5820)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217، 222، 282، 358)، سنن الدارمی/البیوع 45 (2625) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سلف یا سلم یہ ہے کہ خریدار بیچنے والے کو سامان کی قیمت پیشگی دے دے اور سامان کی ادائیگی کے لئے ایک میعاد مقرر کر لے، ساتھ ہی سامان کا وزن، وصف اور نوعیت وغیرہ متعین ہو ایسا جائز ہے۔
۲؎: تاکہ جھگڑے اور اختلاف پیدا ہونے والی بات نہ رہ جائے اگر مدت مجہول ہو اور وزن اور ناپ متعین نہ ہو تو بیع سلف درست نہ ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2240) صحيح مسلم (1604)

حدیث نمبر: 3464
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ كَثِير، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ أَوْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُجَالِدٍ، قَالَ:" اخْتَلَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ، وَأَبُو بُرْدَةَ، فِي السَّلَفِ، فَبَعَثُونِي إِلَى ابْنِ أَبِي أَوْفَى فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: إِنْ كُنَّا نُسْلِفُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ،وَعُمَرَ، فِي الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالتَّمْرِ وَالزَّبِيبِ"، زَادَ ابْنُ كَثِيرٍ إِلَى قَوْمٍ مَا هُوَ عِنْدَهُمْ، ثُمَّ اتَّفَقَا، وَسَأَلْتُ ابْنَ أَبْزَي، فَقَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ.
محمد یا عبداللہ بن مجالد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ رضی اللہ عنہما میں بیع سلف کے سلسلہ میں اختلاف ہوا تو لوگوں نے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں گیہوں، جو، کھجور اور انگور خریدنے میں سلف کیا کرتے تھے، اور ان لوگوں سے (کرتے تھے) جن کے پاس یہ میوے نہ ہوتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3464]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/السلم 2 (2242)، سنن النسائی/البیوع 59 (4618)، 60 (4619)، سنن ابن ماجہ/التجارات 59 (2282)، (تحفة الأشراف: 5171)، وقد أخرجہ: حم (4/354، 380) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح خ بلفظ ما كنا نسألهم مكان ما هو عندهم

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2243)

حدیث نمبر: 3465
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَابْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن، عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: عِنْدَ قَوْمٍ مَا هُوَ عِنْدَهُمْ؟ قَالَ أَبُو دَاوُد: الصَّوَابُ ابْنُ أَبِي الْمُجَالِدِ، وَشُعْبَةُ أَخْطَأَ فِيهِ.
عبداللہ بن ابی مجالد (اور عبدالرحمٰن نے ابن ابی مجالد کہا ہے) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ ایسے لوگوں سے سلم کرتے تھے، جن کے پاس (بروقت) یہ مال نہ ہوتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن ابی مجالد صحیح ہے، اور شعبہ سے اس میں غلطی ہوئی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3465]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5117) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ انظر الحديث السابق (3464)

حدیث نمبر: 3466
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي غَنِيَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ:" غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّامَ، فَكَانَ يَأْتِينَا أَنْبَاطٌ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ، فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْبُرِّ وَالزَّيْتِ سِعْرًا مَعْلُومًا وَأَجَلًا مَعْلُومًا، فَقِيلَ لَهُ: مِمَّنْ لَهُ ذَلِكَ، قَالَ: مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ".
عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شام میں جہاد کیا تو شام کے کاشتکاروں میں سے بہت سے کاشتکار ہمارے پاس آتے، تو ہم ان سے بھاؤ اور مدت معلوم و متعین کر کے گیہوں اور تیل کا سلف کرتے (یعنی پہلے رقم دے دیتے پھر متعینہ بھاؤ سے مقررہ مدت پر مال لے لیتے تھے) ان سے کہا گیا: آپ ایسے لوگوں سے سلم کرتے رہے ہوں گے جن کے پاس یہ مال موجود رہتا ہو گا، انہوں نے کہا: ہم یہ سب ان سے نہیں پوچھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3466]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5168)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/السلم 3 (2241)، 7 (2253) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ أبو إسحاق ھو سليمان بن أبي سليمان الشيباني