الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
49. باب فِي الرَّجُلِ يُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ
49. باب: باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3542
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، وَأَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، وَأَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَأَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ سَالِمٍ،عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:" أَنْحَلَنِي أَبِي نُحْلًا، قَالَ إِسْمَاعِيل بْنُ سَالِمٍ، مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ نِحْلَةً غُلَامًا لَهُ، قَالَ: فَقَالَتْ لَهُ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: إِيتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشْهِدْهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشْهَدَهُ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي النُّعْمَانَ نُحْلًا، وَإِنَّ عَمْرَةَ، سَأَلَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَقَالَ: أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَ النُّعْمَانَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ هَؤُلَاءِ الْمُحَدِّثِينَ: هَذَا جَوْرٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هَذَا تَلْجِئَةٌ، فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي"، قَالَ مُغِيرَةُ فِي حَدِيثِهِ: أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ وَاللُّطْفِ سَوَاءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي". وَذَكَرَ مُجَالِدٌ فِي حَدِيثِهِ:" إِنَّ لَهُمْ عَلَيْكَ مِنَ الْحَقِّ أَنْ تَعْدِلَ بَيْنَهُمْ، كَمَا أَنَّ لَكَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحَقِّ أَنْ يَبَرُّوكَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ بَعْضُهُمْ:" أَكُلَّ بَنِيكَ"، وَقَالَ بَعْضُهُمْ:" وَلَدِكَ"، وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ فِيهِ:" أَلَكَ بَنُونَ سِوَاهُ"، وَقَالَ أَبُو الضُّحَى، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ:" أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس بات کا گواہ بنا لوں (اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ہوں) آپ نے ان سے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے اور کوئی لڑکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سب کو اسی جیسی چیز دی ہے جو نعمان کو دی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ظلم ہے اور بعض کی روایت میں ہے: یہ جانب داری ہے، جاؤ تم میرے سوا کسی اور کو اس کا گواہ بنا لو (میں ایسے کاموں کی شہادت نہیں دیتا)۔ مغیرہ کی روایت میں ہے: کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ تمہارے سارے لڑکے تمہارے ساتھ بھلائی اور لطف و عنایت کرنے میں برابر ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں (مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو (مجھے یہ امتیاز اور ناانصافی پسند نہیں)۔ اور مجالد نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے: ان (بیٹوں) کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرو جیسا کہ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: زہری کی روایت میں ۱؎ بعض نے: «أكل بنيك» کے الفاظ روایت کئے ہیں اور بعض نے «بنيك» کے بجائے «ولدك» کہا ہے، اور ابن ابی خالد نے شعبی کے واسطہ سے «ألك بنون سواه» اور ابوالضحٰی نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے «ألك ولد غيره» روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3542]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الھبة 12 (2587)، الشھادات 9 (2650)، صحیح مسلم/الھبات 3 (1623)، سنن النسائی/النحل 1 (3709)، سنن ابن ماجہ/الھبات 1 (2375)، (تحفة الأشراف: 11625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/268، 269، 270، 273، 276) (صحیح)» ‏‏‏‏ إلا زیادة مجالد مجالد نے حدیث میں جو زیادتی ذکر کی ہے، وہ صحیح نہیں ہے)

وضاحت: ۱؎: ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ لفظ ولد مذکر اور مؤنث دونوں کو شامل ہے اور لفظ «بنین» اگر وہ سب مذکر تھے تو وہ اپنے ظاہر پر ہے اور اگر ان میں مذکر اور مؤنث دونوں تھے تو یہ «علی سبیل التغلیب» استعمال ہوا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح إلا زيادة مجالد إن لهم

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ مجالد ضعيف¤ وللحديث شواھد ضعيفة¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 125

حدیث نمبر: 3543
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ، قَالَ:" أَعْطَاهُ أَبُوهُ غُلَامًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا هَذَا الْغُلَامُ؟، قَالَ: غُلَامِي، أَعْطَانِيهِ أَبِي، قَالَ: فَكُلَّ إِخْوَتِكَ أَعْطَى كَمَا أَعْطَاكَ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْدُدْهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیسا غلام ہے؟ انہوں نے کہا: میرا غلام ہے، اسے مجھے میرے والد نے دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جیسے تمہیں دیا ہے کیا تمہارے سب بھائیوں کو دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے لوٹا دو۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3543]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الھبات 3 (1623)، (تحفة الأشراف: 11635)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الھبة 12 (5286)، سنن الترمذی/الأحکام 30 (1367)، سنن ابن ماجہ/الھبات 1 (2375)، موطا امام مالک/الأقضیة 33 (39)، مسند احمد (4/268) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1623)

حدیث نمبر: 3544
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ الْمُهَلَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو (کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو)۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3544]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/النحل (3717)، (تحفة الأشراف: 11640)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/275، 278) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ أخرجه النسائي (3717 وسنده صحيح)

حدیث نمبر: 3545
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَتِ امْرَأَةُ بَشِيرٍ: انْحَلِ ابْنِي غُلَامَكَ، وَأَشْهِدْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنَةَ فُلَانٍ، سَأَلَتْنِي أَنْ أَنْحَلَ ابْنَهَا غُلَامًا؟، وَقَالَتْ لِي: أَشْهِدْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَهُ إِخْوَةٌ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَهُ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَيْسَ يَصْلُحُ هَذَا، وَإِنِّي لَا أَشْهَدُ إِلَّا عَلَى حَقٍّ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے (بشیر رضی اللہ عنہ سے) کہا: اپنا غلام میرے بیٹے کو دے دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر میرے لیے گواہ بنا دیں، تو بشیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: فلاں کی بیٹی (یعنی میری بیوی) نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو غلام ہبہ کروں (اس پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے اور بھی بھائی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سب کو بھی تم نے ایسے ہی دیا ہے جیسے اسے دیا ہے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ درست نہیں، اور میں تو صرف حق بات ہی کی گواہی دے سکتا ہوں (اس لیے اس ناحق بات کے لیے گواہ نہ بنوں گا) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3545]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الھبات 3 (1624)، (تحفة الأشراف: 2720)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/326) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے واضح ہوا کہ اولاد کے مابین عدل و انصاف واجب ہے اور بلا کسی شرعی عذر کے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دینا یا خاص کرنا حرام و ناجائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1624)