عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3646]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 8955)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/162، 192)، سنن الدارمی/المقدمة 43 (501) (صحیح)»
مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے ایک حدیث کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ایک شخص کو اس حدیث کے لکھنے کا حکم دیا، تو زید رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کی حدیثوں میں سے کچھ نہ لکھیں تو انہوں نے اسے مٹا دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3647]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3740)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راواة کثیر اور مطلب متکلم فیہ ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت پہلے تھی جب احادیث کے قرآن کے ساتھ خلط ملط ہوجانے کا اندیشہ تھا، بعد میں کتابت حدیث کی اجازت دے دی گئی جیسا کہ پہلی روایت سے واضح ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ المطلب لم يسمع من زيد بن ثابت رضي اللّٰه عنه (انظر جامع التحصيل ص281) ولم يلق معاوية رضي اللّٰه عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 130
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ تشہد اور قرآن کے علاوہ کچھ نہیں لکھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3648]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4258) (شاذ)» (اس کے راوی ابو شہاب حَنَّاط حافظہ کے کمزور ہیں، اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت تو یہ ہے کہ قرآن کے سوا اور کچھ مت لکھو)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب مکہ فتح ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کا ذکر کیا، پھر کہا کہ ایک یمنی شخص کھڑا ہوا جسے ابو شاہ کہا جاتا تھا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لیے (یہ خطبہ) لکھ دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کے لیے لکھ دو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3649]
ولید (ولید بن مزید) کہتے ہیں میں نے ابوعمرو (اوزاعی) سے کہا: ”وہ لوگ لکھ دیں“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: وہ خطبہ جسے آپ سے اس روز ابوشاہ نے سنا تھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3650]