الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
19. باب كَيْفَ الرُّقَى
19. باب: جھاڑ پھونک کیسے ہو؟
حدیث نمبر: 3890
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ يَعْنِي لِثَابِتٍ:" أَلَا أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ الْبَاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ اشْفِهِ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا".
عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ نے ثابت سے کہا: کیا میں تم پر دم نہ کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ضرور کیجئے، تو انس رضی اللہ عنہ نے کہا: «اللهم رب الناس مذهب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت اشفه شفاء لا يغادر سقما» اے اللہ! لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرمانے والے شفاء دے تو ہی شفاء دینے والا ہے نہیں کوئی شفاء دینے والا سوائے تیرے تو اسے ایسی شفاء دے جو بیماری کو باقی نہ رہنے دے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3890]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الطب 38 (5742)، سنن الترمذی/الجنائز 4 (973)،سنن النسائی/الیوم واللیلة (1022)، (تحفة الأشراف: 1034)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/151) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5742)

حدیث نمبر: 3891
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ السُّلَمِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَيرٍ، أَخْبَرَهُ،عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُثْمَانُ:" وَبِي وَجَعٌ قَدْ كَادَ يُهْلِكُنِي، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: امْسَحْهُ بِيَمِينِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ، وَقُلْ أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ، قَالَ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ بِي فَلَمْ أَزَلْ آمُرُ بِهِ أَهْلِي وَغَيْرَهُمْ".
عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عثمان کہتے ہیں: اس وقت مجھے ایسا درد ہو رہا تھا کہ لگتا تھا کہ وہ مجھے ہلاک کر دے گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا داہنا ہاتھ اس پر سات مرتبہ پھیرو اور کہو: «أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد» میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ چاہتا ہوں اس چیز کی برائی سے جو میں پاتا ہوں۔ میں نے اسے کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے جو تکلیف تھی وہ دور فرما دی اس وقت سے میں برابر اپنے گھر والوں کو اور دوسروں کو اس کا حکم دیا کرتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3891]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/السلام 24 (2202)، سنن الترمذی/الطب 29 (80 20)، سنن ابن ماجہ/الطب 36 (3522)، (تحفة الأشراف: 9774)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العین 4 (9)، مسند احمد (4/21، 217) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ رواه مسلم (2202)

حدیث نمبر: 3892
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ زِيَادَةَ بِنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ اشْتَكَى مِنْكُمْ شَيْئًا أَوِ اشْتَكَاهُ أَخٌ لَهُ، فَلْيَقُلْ: رَبَّنَا اللَّهُ الَّذِي فِي السَّمَاءِ تَقَدَّسَ اسْمُكَ أَمْرُكَ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ كَمَا رَحْمَتُكَ فِي السَّمَاءِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَكَ فِي الأَرْضِ اغْفِرْ لَنَا حُوبَنَا وَخَطَايَانَا أَنْتَ رَبُّ الطَّيِّبِينَ أَنْزِلْ رَحْمَةً مِنْ رَحْمَتِكَ وَشِفَاءً مِنْ شِفَائِكَ عَلَى هَذَا الْوَجَعِ فَيَبْرَأَ".
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے جو بیمار ہو یا جس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو چاہیئے کہ وہ کہے: «ربنا الله الذي في السماء تقدس اسمك أمرك في السماء والأرض كما رحمتك في السماء فاجعل رحمتك في الأرض اغفر لنا حوبنا وخطايانا أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك وشفاء من شفائك على هذا الوجع» ‏‏‏‏ ہمارے رب! جو آسمان کے اوپر ہے تیرا نام پاک ہے، تیرا ہی اختیار ہے آسمان اور زمین میں، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی رحمت زمین پر بھی نازل فرما، ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو بخش دے، تو (رب پروردگار) ہے پاک اور اچھے لوگوں کا، اپنی رحمتوں میں سے ایک رحمت اور اپنی شفاء میں سے ایک شفاء اس درد پر بھی نازل فرما تو وہ صحت یاب ہو جائے گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3892]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10957) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی زیادہ بن محمد منکر الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ زيادة بن محمد : منكر الحديث (تق: 2113)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 139

حدیث نمبر: 3893
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ" وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (خواب میں) ڈرنے پر یہ کلمات کہنے کو سکھلاتے تھے: «أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلموں کی اس کے غصہ سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور ان کے میرے پاس آنے سے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے ان بیٹوں کو جو سمجھنے لگتے یہ دعا سکھاتے اور جو نہ سمجھتے تو ان کے گلے میں اسے لکھ کر لٹکا دیتے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3893]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الدعوات 93 (8781)، (تحفة الأشراف: 8781)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/181) (حسن)» ‏‏‏‏ (عبداللہ بن عمرو کا اثر صحیح نہیں ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله وكان عبدالله

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (3528)¤ ابن إسحاق عنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 139

حدیث نمبر: 3894
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ أَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَة، فَقُلْتُ: مَا هَذِهِ؟ قَالَت: أَصَابَتْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّاسُ: أُصِيبَ سَلَمَةُ فَأُتِيَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَفَثَ فِيَّ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَةِ".
یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں چوٹ کا ایک نشان دیکھا تو میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے یہ چوٹ خیبر کے دن لگی تھی، لوگ کہنے لگے تھے: سلمہ رضی اللہ عنہ کو ایسی چوٹ لگی ہے (اب بچ نہیں سکیں گے) تو مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے تین بار مجھ پر دم کیا اس کے بعد سے اب تک مجھے اس میں کوئی تکلیف نہیں محسوس ہوئی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3894]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المغازي 38 (4206)، (تحفة الأشراف: 4546)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/48) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4206)

حدیث نمبر: 3895
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لِلإِنْسَانِ إِذَا اشْتَكَى يَقُولُ بِرِيقِهِ، ثُمَّ قَالَ بِهِ فِي التُّرَابِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی اپنی بیماری کی شکایت کرتا تو آپ اپنا لعاب مبارک لیتے پھر اسے مٹی میں لگا کر فرماتے: «تربة أرضنا بريقة بعضنا يشفى سقيمنا بإذن ربنا» یہ ہماری زمین کی خاک ہے ہم میں سے بعض کے لعاب سے ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارا بیمار ہمارے رب کے حکم سے شفاء پا جائے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3895]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الطب 38 (5745)، صحیح مسلم/السلام 21 (2194)، سنن ابن ماجہ/الطب 36 (3521)، (تحفة الأشراف: 17906)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/93) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5745) صحيح مسلم (2194)

حدیث نمبر: 3896
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ عَمِّهِ،" أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، ثُمَّ أَقْبَلَ رَاجِعًا مِنْ عِنْدِهِ فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ عِنْدَهُمْ رَجُلٌ مَجْنُونٌ مُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ، فَقَالَ أَهْلُهُ: إِنَّا حُدِّثْنَا أَنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ جَاءَ بِخَيْرٍ فَهَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ تُدَاوِيهِ، فَرَقَيْتُهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَبَرَأَ فَأَعْطَوْنِي مِائَةَ شَاةٍ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: هَلْ إِلَّا هَذَا"، وَقَالَ مُسَدَّدٌ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: هَلْ قُلْتَ غَيْرَ هَذَا؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: خُذْهَا فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ، لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ.
خارجہ بن صلت تمیمی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، پھر لوٹ کر جب آپ کے پاس سے جانے لگے تو ایک قوم پر سے گزرے جن میں ایک شخص دیوانہ تھا زنجیر سے بندھا ہوا تھا تو اس کے گھر والے کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کے یہ ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) خیر و بھلائی لے کر آئے ہیں تو کیا آپ کے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس شخص کا علاج کریں؟ میں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تو وہ اچھا ہو گیا، تو ان لوگوں نے مجھے سو بکریاں دیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے صرف یہی سورت پڑھی ہے؟۔ (مسدد کی ایک دوسری روایت میں: «هل إلا هذا» کے بجائے: «هل قلت غير هذا» ہے یعنی کیا تو نے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں پڑھا؟) میں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں لے لو، قسم ہے میری عمر کی لوگ تو ناجائز جھاڑ پھونک کی روٹی کھاتے ہیں اور تم نے تو جائز جھاڑ پھونک پر کھایا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3896]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم:(3420)، (تحفة الأشراف: 11011) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 3897
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ،حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ، عَنْ عَمِّهِ أَنَّهُ مَرَّ قَالَ فَرَقَاهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً كُلَّمَا خَتَمَهَا جَمَعَ بُزَاقَهُ، ثُمَّ تَفَلَ فَكَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَأَعْطَوْهُ شَيْئًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مُسَدَّدٍ.
خارجہ بن صلت سے روایت ہے، وہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (کچھ لوگوں پر سے) گزرے (ان میں ایک دیوانہ شخص تھا) جس پر وہ صبح و شام فاتحہ پڑھ کر تین دن تک دم کرتے رہے، جب سورۃ فاتحہ پڑھ چکتے تو اپنا تھوک جمع کر کے اس پر تھو تھو کر دیتے، پھر وہ اچھا ہو گیا جیسے کوئی رسیوں میں جکڑا ہوا کھل جائے، تو ان لوگوں نے ایک چیز دی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پھر انہوں نے وہی بات ذکر کی جو مسدد کی حدیث میں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3897]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (3420)، (تحفة الأشراف: 11011) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ انظر الحديث السابق (3420)

حدیث نمبر: 3898
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لُدِغْتُ اللَّيْلَةَ فَلَمْ أَنَمْ حَتَّى أَصْبَحْتُ، قَالَ:" مَاذَا؟" قَالَ: عَقْرَبٌ، قَالَ:" أَمَا إِنَّكَ لَوْ قُلْتَ حِينَ أَمْسَيْتَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ تَضُرَّكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ".
ابوصالح کہتے ہیں کہ میں نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے سنا: اس نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آج رات مجھے کسی چیز نے کاٹ لیا تو رات بھر نہیں سویا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس چیز نے؟ اس نے عرض کیا: بچھو نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اگر تم شام کو یہ دعا پڑھ لیتے: «أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق» میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں اس کی تمام مخلوقات کی برائی سے تو ان شاءاللہ (اللہ چاہتا تو) وہ تم کو نقصان نہ پہنچاتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3898]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15564)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/448، 5/430) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 3899
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ طَارِقٍ يَعْنِي ابْنَ مَخَاشِنٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَدِيغٍ لَدَغَتْهُ عَقْرَبٌ، قَالَ: فَقَالَ:" لَوْ قَالَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ يُلْدَغْ أَوْ لَمْ يَضُرَّهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جسے بچھو نے کاٹ لیا تھا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ یہ دعا پڑھ لیتا: «أعوذ بكلمات الله التامة من شر ما خلق» میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں اس کی تمام مخلوقات کی برائی سے تو وہ نہ کاٹتا یا اسے نقصان نہ پہنچاتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3899]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13516)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطب 35 (3518)، مسند احمد (2/375) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی طارق لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ الزھري صرح بالسماع عند النسائي في الكبريٰ (10434) وعمل اليوم والليلة (598)

حدیث نمبر: 3900
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،" أَنَّ رَهْطًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْطَلَقُوا فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا، فَنَزَلُوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ شَيْءٌ يَنْفَعُ صَاحِبَنَا؟، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي وَلَكِنِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَأَبَيْتُمْ أَنْ تُضَيِّفُونَا مَا أَنَا بِرَاقٍ حَتَّى تَجْعَلُوا لِي جُعْلًا فَجَعَلُوا لَهُ قَطِيعًا مِنَ الشَّاءِ، فَأَتَاهُ فَقَرَأَ عَلَيْهِ أُمَّ الْكِتَابِ وَيَتْفُلُ حَتَّى بَرَأَ كَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ، قَالَ: فَأَوْفَاهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ، فَقَالُوا: اقْتَسِمُوا، فَقَالَ: الَّذِي رَقَى لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَسْتَأْمِرَهُ فَغَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ أَيْنَ عَلِمْتُمْ أَنَّهَا رُقْيَةٌ أَحْسَنْتُمُ اقْتَسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت ایک سفر پر نکلی اور وہ عرب کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ میں اتری، ان میں سے بعض نے آ کر کہا: ہمارے سردار کو بچھو یا سانپ نے کاٹ لیا ہے، کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو انہیں فائدہ دے؟ تو ہم میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں قسم اللہ کی میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں لیکن ہم نے تم سے ضیافت کے لیے کہا تو تم نے ہماری ضیافت سے انکار کیا، اس لیے اب میں اس وقت تک جھاڑ پھونک نہیں کر سکتا جب تک تم مجھے اس کی اجرت نہیں دو گے، تو انہوں نے ان کے لیے بکریوں کا ایک ریوڑ اجرت ٹھہرائی، چنانچہ وہ آئے اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کرنے لگے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو گیا گویا وہ رسی سے بندھا ہوا تھا چھوٹ گیا، پھر ان لوگوں نے جو اجرت ٹھہرائی تھی پوری ادا کر دی، لوگوں نے کہا: اسے آپس میں تقسیم کر لو، تو جس نے جھاڑ پھونک کیا تھا وہ بولا: اس وقت تک ایسا نہ کرو جب تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اجازت نہ لے لیں، چنانچہ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ منتر ہے؟ تم نے بہت اچھا کیا، تم اسے آپس میں تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگانا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3900]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإجارة 16 (2276)، الطب 33 (5736)، صحیح مسلم/السلام 23 (2201)، سنن الترمذی/الطب20 (2063)، سنن ابن ماجہ/التجارات 7 (2156)، (تحفة الأشراف: 4249، 4307)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/44) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2276) صحيح مسلم (2201)¤ وانظر الحديث السابق (3418)

حدیث نمبر: 3901
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ:" أَقْبَلْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْنَا عَلَى حَيٍّ مِنْ الْعَرَبِ، فَقَالُوا: إِنَّا أُنْبِئْنَا أَنَّكُمْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ، فَهَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رُقْيَةٍ فَإِنَّ عِنْدَنَا مَعْتُوهًا فِي الْقُيُودِ؟، قَالَ: فَقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَجَاءُوا بِمَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ، قَالَ: فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً كُلَّمَا خَتَمْتُهَا أَجْمَعُ بُزَاقِي، ثُمَّ أَتْفُلُ فَكَأَنَّمَا نَشَطَ مِنْ عِقَالٍ، قَالَ: فَأَعْطَوْنِي جُعْلًا، فَقُلْتُ: لَا حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كُلْ فَلَعَمْرِي مَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ".
خارجہ بن صلت تمیمی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے اور عرب کے ایک قبیلہ کے پاس آئے تو وہ لوگ کہنے لگے: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ اس شخص کے پاس سے آ رہے ہیں جو خیر و بھلائی لے کر آیا ہے تو کیا آپ کے پاس کوئی دوا یا منتر ہے؟ کیونکہ ہمارے پاس ایک دیوانہ ہے جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے، ہم نے کہا: ہاں، تو وہ اس پاگل کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا لے کر آئے، میں اس پر تین دن تک سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرتا رہا، وہ اچھا ہو گیا جیسے کوئی قید سے چھوٹ گیا ہو، پھر انہوں نے مجھے اس کی اجرت دی، میں نے کہا: میں نہیں لوں گا جب تک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لوں، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: کھاؤ، قسم ہے میری عمر کی لوگ تو جھوٹا منتر کر کے کھاتے ہیں تم نے تو جائز منتر کر کے کھایا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3901]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم:(3420)، (تحفة الأشراف: 11011) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ انظر الحديث السابق (3420)

حدیث نمبر: 3902
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا اشْتَكَى: يَقْرَأُ فِي نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَيَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُ عَلَيْهِ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو آپ اپنے اوپر معوذات پڑھ کر دم فرماتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھ گئی تو میں اسے آپ پر پڑھ کر دم کرتی اور برکت کی امید سے آپ کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3902]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/فضائل القرآن 14 (5016)، صحیح مسلم/السلام 20 (2192)، سنن ابن ماجہ/الطب 38 (3529)، (تحفة الأشراف: 16589)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العین 4 (10)، مسند احمد (6/104، 181، 256، 263) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5016) صحيح مسلم (2192)