الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْعِتْق
کتاب: غلاموں کی آزادی سے متعلق احکام و مسائل
2. باب فِي بَيْعِ الْمُكَاتَبِ إِذَا فُسِخَتِ الْكِتَابَةُ
2. باب: عقد کتابت فسخ ہو جانے پر مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3929
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ:" أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي، فَعَلْتُ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا، فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ، وَيَكُونُ لَنَا وَلَاؤُكِ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلَيْسَ لَهُ وَإِنْ شَرَطَهُ مِائَةَ مَرَّةٍ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ".
عروہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے بدل کتابت کی ادائیگی میں تعاون کے لیے ان کے پاس آئیں ابھی اس میں سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اپنے آدمیوں سے جا کر پوچھ لو اگر انہیں یہ منظور ہو کہ تمہارا بدل کتابت ادا کر کے تمہاری ولاء ۱؎ میں لے لوں تو میں یہ کرتی ہوں، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آدمیوں سے جا کر اس کا ذکر کیا تو انہوں نے ولاء دینے سے انکار کیا اور کہا: اگر وہ اسے ثواب کی نیت سے کرنا چاہتی ہیں تو کریں، تمہاری ولاء ہماری ہی ہو گی، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: تم خرید کر اسے آزاد کر دو ولاء تو اسی کی ہو گی جو آزاد کرے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں خطبہ کے لیے) کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، جو شخص بھی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو اس کی شرط صحیح نہ ہو گی اگرچہ وہ سو بار شرط لگائے، اللہ ہی کی شرط سچی اور مضبوط شرط ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِتْق/حدیث: 3929]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ المکاتب 2 (2561)، الشروط 11 (2727)، صحیح مسلم/ العتق 2 (1504)، سنن الترمذی/ الوصایا 71 (2124)، سنن النسائی/ البیوع 83 (4659)، (تحفة الأشراف: 16580)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/81) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2661، 2717) صحيح مسلم (1504)

حدیث نمبر: 3930
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ لِتَسْتَعِينَ فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا عَدَّةً وَاحِدَةً وَأَعْتِقَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ فَذَهَبَتْ إِلَى أَهْلِهَا وَسَاقَ الْحَدِيثَ نَحْوَ الزُّهْرِيِّ زَادَ فِي كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِهِ مَا بَالُ رِجَالٍ يَقُولُ أَحَدُهُمْ: أَعْتِقْ يَا فُلَانُ وَالْوَلَاءُ لِي إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے بدل کتابت میں تعاون کے لیے ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے لوگوں سے نو اوقیہ پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہے، لہٰذا آپ میری مدد کیجئے، تو انہوں نے کہا: اگر تمہارے لوگ چاہیں تو میں ایک ہی دفعہ انہیں دے دوں، اور تمہیں آزاد کر دوں البتہ تمہاری ولاء میری ہو گی ؛ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کے پاس گئیں پھر راوی پوری حدیث زہری والی روایت کی طرح بیان کی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے آخر میں یہ اضافہ کیا کہ: لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ دوسروں سے کہتے ہیں: تم آزاد کر دو اور ولاء میں لوں گا (کیسی لغو بات ہے) ولاء تو اس کا حق ہے جو آزاد کرے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِتْق/حدیث: 3930]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (2233)، (تحفة الأشراف: 17296) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بریرہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے باب کی مطابقت اس طرح ہے کہ: مکاتب غلام کو بیچنا جائز نہیں، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا: تو گویا مکاتبت کا معاملہ فسخ کر دیا گیا تب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ کو خریدا اور یہی مطابقت اگلی حدیث میں بھی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2563) صحيح مسلم (1504)¤ وانظر الحديث السابق (2233)

حدیث نمبر: 3931
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" وَقَعَتْ جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوِ ابْنِ عَمٍّ لَهُ فَكَاتَبَتْ عَلَى نَفْسِهَا وَكَانَتِ امْرَأَةً مَلَّاحَةً تَأْخُذُهَا الْعَيْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَجَاءَتْ تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِتَابَتِهَا فَلَمَّا قَامَتْ عَلَى الْبَابِ، فَرَأَيْتُهَا كَرِهْتُ مَكَانَهَا، وَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَرَى مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ وَإِنَّمَا كَانَ مِنْ أَمْرِي مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ وَإِنِّي وَقَعْتُ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَإِنِّي كَاتَبْتُ عَلَى نَفْسِي، فَجِئْتُكَ أَسْأَلُكَ فِي كِتَابَتِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلْ لَكِ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ؟، قَالَتْ: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: أُؤَدِّي عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَأَتَزَوَّجُكِ، قَالَتْ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَتْ: فَتَسَامَعَ تَعْنِي النَّاسَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَزَوَّجَ جُوَيْرِيَةَ، فَأَرْسَلُوا مَا فِي أَيْدِيهِمْ مِنَ السَّبْيِ، فَأَعْتَقُوهُمْ وَقَالُوا: أَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْنَا امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا أُعْتِقَ فِي سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حُجَّةٌ فِي أَنَّ الْوَلِيَّ هُوَ يُزَوِّجُ نَفْسَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المؤمنین جویریہ بنت حارث بن مصطلق رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں تو جویریہ نے ان سے مکاتبت کر لی، اور وہ ایک خوبصورت عورت تھیں جسے ہر شخص دیکھنے لگتا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے کے لیے آئیں، جب وہ دروازہ پر آ کر کھڑی ہوئیں تو میری نگاہ ان پر پڑی مجھے ان کا آنا اچھا نہ لگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ عنقریب آپ بھی ان کی وہی ملاحت دیکھیں گے جو میں نے دیکھی ہے، اتنے میں وہ بولیں: اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث ہوں، میرا جو حال تھا وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ۱؎ ثابت بن قیس کے حصہ میں گئی ہوں، میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اور آپ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے آئی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے بہتر کی رغبت رکھتی ہو؟ وہ بولیں: وہ کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دیتا ہوں اور تم سے شادی کر لیتا ہوں وہ بولیں: میں کر چکی (یعنی مجھے یہ بخوشی منظور ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر جب لوگوں نے ایک دوسرے سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے شادی کر لی ہے تو بنی مصطلق کے جتنے قیدی ان کے ہاتھوں میں تھے سب کو چھوڑ دیا انہیں آزاد کر دیا، اور کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی جس کی وجہ سے اس کی قوم کو اتنا زبردست فائدہ ہوا ہو، ان کی وجہ سے بنی مصطلق کے سو قیدی آزاد ہوئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ ولی خود نکاح کر سکتا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِتْق/حدیث: 3931]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16386)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/277، 6/277) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: وضاحت ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ میں ایک رئیس کی صاحبزادی ہوں۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ أخرجه أحمد (6/277) محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند ابن الجارود (705)